وہ جو کہتے ہیںنا کہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنایا جاتا ہے ، ہو نہ ہو یہ کسی پہنچے ہوئے مہا پُرش کا یک نکاتی فارمولہ ہے۔ البتہ اپنے اہل سیاست الیکشن کے وقت کسی کو بھی دوست بنانے کی مست ا داکاری کرتے ہیں ، کسی بے بال وپر کو سر پر ، بے مایہ و بے ہنر کو پلکوں پر بٹھا دیتے ہیں۔سر پر اس طرح بٹھادیتے ہیں کہ ان کی دستار فضیلت کسی اور مخلوق کے لئے تشریف رکھنے کا سامان پیدا کرتا ہے اور پھر دستار کی ایک ایک گرہ اس انداز میں ٹانگوں کے گرد دائرہ بنا دیتی ہے جیسے کوئی مکڑی جال میں پھنس جائے ؎
مریل سی جنتا کو میٹھے وعدوں کا جوس پلانے دو
بس ایک بار بس اک بار مجھ کو سرکار بنانے دو
میں جن سیوک ہوں مجھ کو تھوڑے سے پُنیہ کمانے دو
بس ایک بار بس اک بار مجھ کو سرکار بنانے دو
ایک بار الیکشن ختم ہوا تو حضرات ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اہل سیاست کے سینگ دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور مارنے کے اور۔مارتے وقت ان سینگوں میں کوئی موروثی نقص بناوٹ نہیں ہوتا جب کہ دکھانے والے سینگ خیر سے پلاسٹک کے بنے ہوتے ہیں کہ ہلکی سی گرمی سے پگھل جائیں اور یوں بے چاررہ الیکشن ٹائم کا چہیتا ہاتھ ملتا رہتا ہے،یعنی اہل سیاست اور سیاست کے گل غپاڑے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔شاید یہی سوچ کر کسی دل جلے نے مسحور کن آواز میں سر سے تال ملا یا تھا کہ چولی کے پیچھے کیا ہے ؟سیاست ہے بھائی سیاست ہے۔اور سیاست میں کب کیا کہا جائے وہ حال دل در اصل ممکنہ شکست و ریخت پر منحصر ہے۔اسی شکست کے ڈر سے اپنے اہل سیاست روز پینترے بدلتے رہتے ہیں ؎
یہ محبت کا فسانہ بھی بدل جائے گا
وقت کے ساتھ زمانہ بھی بدل جائے گا
شاید اسی لئے ابھی الیکشن کا بگل بجا بھی نہیں تھا کہ ہل والے قائد ثانی نے مجاہدین سے ناطہ جوڑنے کی کوشش کی اور ببانگ دہل اعلان کردیا کہ بندوق بردار، کفن بردوش سمیت ہمارے بچے ہیں اور وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ کہاں وہ زبان کہ ان پر ایک نہیں بیسیوں الزامات لگاتی بلکہ بہتان سر تھوپتی، کہاں یہ زبانِ شریں بیاں کہ جوتم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے۔ پھر اتنا ہی نہیں کرسی پر بیٹھنے سے پہلے یہ ہوائی اُڑا دی کہ اس ممکنہ کرسی کا سارا شریہہ "چھین کے لیں گے" نعرہ مستانہ لگانے والوں ، ٹھناٹھن برسانے والوں اور مملکت خداداد کے مکینوں کو جائے گا جنہوں نے اگر ہم پر احسان کیا اور ہمیں عیش کوشی کی کرسی تک پہنچنے سے نہیں روکا تو اُن کی بلائیں لیں گے ؎
رات دن ان کی ریا کاری کے بنتے ہیں اصول
ان کا دعو یٰ ہے غلط ان کی عبادت ہے فضول
رہزنوں سے مت ڈرو تم پارسائوں سے بچو
لیڈران قوم کی ظالم ادائوں سے ڈرو
جس نے یہ بیان سنا اس کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے کہ کہیں قائد ثانی در و دیوار کے پیچھے بند آزادی پسندوں کے اسٹیج پر قبضہ تو نہیں جمانے والا ہے۔ایک رنگ ہل والوں کا اور ہے ۔قائد ثانی ’’شیر آگیا‘‘ کا نعرہ مستانہ لگا کر اچھے اچھوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ آئو اور ہمارے ساتھ ناچ گانے کا دور چلائو اور ادھر قائد کے چیلے چانٹے الیکشن کو رقص ِ سلطانی نہیں جہاد لاثانی کے زُمرے میں ڈال کر تولتے ہیں اور اہل کشمیر پر نصیحتوں کی بارشیں کرتے ہیں کہ حکمران سبز وزعفران اتحاد کے خلاف ووٹ دینا جہاد ہے۔واہ !کیا بات ہے کہ جہاد کی نیشنلی اصطلاح بازارِ حصص میں شیئر ہولڈروںکا گریباں پکڑ گئی۔ کچھ وقت سمجھنے میں لگ ہی گیا کہ الیکشن کے رنگ میں اپنے سیاسی بھکاری فوری طور رنگ گئے تاکہ اپنے مخالفین کے رنگ میں بھنگ ڈال دیں ۔یعنی وہ جو سبز اور زعفرانی کا مرکب تیار کر گئے تھے، ان میں سرخ رنگ ملا کر اس قدر مٹی پلید کردیں کہ کنول کے پھول نہ اُگیں اور نہ ہی قلم دوات میں سبز روشنائی کی کوئی ٹکیہ ڈھل سکے۔یہ اور بات کہ سبز رومال میں لال لال نمک باندھ کر ہمیں دیر تک بہلایا گیا لیکن اس وقت لوری گانے والے اور تھے، اب کی بار تھپکیاں دے کے ساتھ سلانے والے اور ہیں۔ اپنے قائد ثانی کو ایک طرف اور بھاجی کو دوسری طرف ضمنی انتخابات کے لئے گلی گلی ،شہر شہر، قریہ قریہ گھومتے دیکھا تو ساتھی طالب علم کے نام گھر سے آیا خط بھی یاد آیا ۔والد تو ٹھیک ہے لیکن والدہ گزر گئی، باقی سب خیریت ہے۔کالے رنگ کی گائے نے بچھڑا دیا مگر سفید رنگ کی بکری بیماری میں مبتلا ہو کر مر گئی، باقی سب خیریت ہے۔سیلابی ریلے کے ایک جھٹکے سے ہمار اچھوٹا مکان گر گیا لیکن ہم نے سارے برتن ڈوبنے سے بچا لئے، باقی سب خیریت ہے یہی کچھ بے رنگ وبو انتخابی مہم کے دوران ہمیں آپ کو سننے کو مل رہا ہے کہ ۲۰۱۰ میں ایک سو بیس مارے گئے، باقی سب خیریت ہے۔۲۰۱۰ ء کی بات مت کرو، ۲۰۱۶ء تو تازہ تازہ یاد ہے جس میں سینکڑوں مرے، درجنوں بینائی سے محروم ہوئے ، باقی سب خیریت ہے۔ اب دیکھئے نا نوٹ بدلی کی طرح سیاست میں بھی ناز وانداز سے خیال بدلی ہوئی، باقی سب خیریت ہے۔ کہاں بھاجی کے لئے جو بندوق بردار بھائی بند کی حیثیت رکھتے تھے، آج اُس کے لئے اب سوہانِ روح بنے ہیں؟ کہاں قائد ثانی انہیں دشمن ِجان جتلاتا پھر تا، مگر آج انہیں وطن کا تارا پکارتاجاتا ہے ۔ یہ وقت کا مزاج بدلا یا الیکشن سمے نے تھکی ماندھی سوئیوں کو کروٹ لینے پر مجبور کر دیا ؟وہ خود ہی سمجھئے، لیکن ایک کے لئے کل تک کے بھائی بند اب’’ دودھ ٹافی‘‘ والے بن گئے ،اور دوسرے کے لئے کل تک کے دیش دروہی آج آزادی کے متوالے ہوئے۔ قائد ثانی کے سیاسی ترکش میںکل تک پار کو فٹافٹ ایٹمی دھماکے سے اُڑانے کی تقریریں تھیں ،آج اُن کی کلیات سے پارسے گل بات کرنے کے مدھر گیت قومی ترانے ہیں؟ سمجھ گیا ہے شاید کہ ایٹمی دھماکہ ہو اتو پارلیمان کی بجائے شمشان ہی سارے معر کے کاا نجام ہوناہے ؎
پارسا کہتے ہیں خود کو جو گناہ گاروں میں ہیں
سرخ دھبے خون کے گلیوں میں بازاروں میں ہیں
ہر طرف مجھ کو نظر آتے ہیں قاتل کیا کروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
اس فلمی شاعر کے منہ میں گھی شکر ، بلکہ دعاہے زور قلم اور زیادہ ہو جس نے کہہ کے رکھ دیا کہ تم کو مرچی لگیں تو میں کیا کروں۔مرچی لگنے والا معاملہ ایک ہی شعر کے ذریعے حل کرکے اس نے اپنے سر سے سارا بوجھ ہٹادیا ۔ اسے کشمیری میں ’’یَس لگہِ تَس لگہِ سرکاری‘‘ کہتے ہیں یعنی جو بچا اپنی قسمت سے جو مرا اپنی تقدیر سے ،ہم تو فقط پانچ، پچانوے ،دودھ اور ٹافی کا حساب رکھ سکتے ہیں اور جو دودھ ٹافی کی خریداری کے دوران آنکھ ،ناک، کان ، ٹانگ ، یا زندگی کی سانسیںکھو بیٹھے، ان سے ہمارا کیا ناط؟ نہ ہی ہم ان کو مالی دان دکشنا دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کیونکہ اس سے ہماری دوات کے اندر کنول اتنا پھول جائے گا کہ دوات سنبھال نہیں پائے گی،اور قطبین کا کچا دھاگہ یوں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے ۔اس بکھرائو کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تو گئے ،سرکار سے گئے ، کرسی سے گئے ،جھنڈے اور ڈنڈے سے گئے اور جو پارٹی جھنڈے ڈنڈے سے گئی اس کے تو انڈے کا پھنڈا بھی بدل جائے گا۔ فلمی شاعر نے اپنے سر سے بوجھ اتار کر اہل سیاست، اہل معیشت، حزب اقتدار و حزب اختلاف حتیٰ کہ تمام اہل کشمیر کے سر تھوپ دیا کہ تم جانو کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ حالانکہ کئی ایک بوجھ تو اپنے ملک کشمیر میں کافی بھاری ہیں لیکن مرچی والا بوجھ جب لگتا ہے تو اوپر سے نیچے تک ہلا کر رکھ دیتا ہے۔اگرچہ سیاست دان ان بوجھوں کو ہلکا محسوس کرا رہے ہیں جیسے کپاس کی ہلکی تھیلی ہو لیکن اپنے ملک کشمیر کی وزارت میں فیصد والا معاملہ کافی راس آیا لگتا ہے۔عوامی احتجاج کو پانچ پچانوے کے کھاتے میں ڈال دیا اور امتحانات کو پچاس پچاس یعنی اڑھ دم تیرا اڈھ دم میرا میں تقسیم کرادیا۔کیا پتہ جو رقومات شہر شہر ، گائوں گائوں خرچ کرنی ہیں ،وہ بھی دس آنے چھ آنے میں تقسیم کردیں۔بات انتخابات کی چل رہی تھی، نئے دوستانے قائم کرنے کے سبب کس کس کو مرچی لگیں یہ اور بات ہے کیونکہ سرکاری مرچی تو گل کھلاتی نہیں بلکہ گلوں کو پژ مردہ کردیتی ہے ۔خیر بات مرچی لگنے کی چل رہی تھی اور کسے نہیں معلوم کہ مرچی کئی ایک پیکس میں آتی ہے۔مرچی پاوڈر، ہری مرچ، لال مرچ، ثابوت مرچ، پسی ہوئی مرچ اور مرچی کا کاروبار کرنے والے مرچی سیٹھ بھی کہلاتے ہیںلیکن کشمیر میں در آمد شدہ مرچی کے ضمن میں مرچہ بُڈ اور مرچی گیس یا پاوا شل اہم ترین ہیں۔کسی کو بد دعا دینی ہو تو مرچہ بُڈ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا کمال دکھائے لیکن حکمرانوں نے یہ سارے کام اپنے سر لئے اور بانہال پار سے نئی گیس متعاراف کرائی یہ سوچ کر کہ چھروں کے سبب بدنامی کافی ہوئی اس لئے ہم گیس چھوڑ کر ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ مرچی لگی تو میں کیا کروں۔یوں تو اہل کشمیر عرصہ دراز سے مرچی کو دسترخوان کا حصہ بنائے ہوئے ہیں بلکہ ہر چیز کا اچار ڈالنے میں ہماری خواتین پیش پیش ہیں بھلے مرچی ہی کیوں نہ ہو اور جب وزارت اعلیٰ کی کرسی پر خاتون ہی براجمان ہو تو مرچی کا استعمال کیوں نہ ہو ؟یہ اور بات ہے کہ کارَ سرکار ہو یا دستر خوان اب مرچی خاص الخاص غذائی مرکب کا حصہ بنتی ہے ۔مرچی تو اور چیزوں کے علاوہ زکام ٹھیک کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے ۔مرچی تل کر ایسا مرکب بنایا جائے کہ کھاتے وقت پتہ بھی نہیں چلتا کہ زکام کب ناک کے راستے دماغ تک گھس کر آیا تھا۔دراصل اپنے ملک کشمیر میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ہمیشہ اقتدار کا سبزرومال میں چھپا نمک دکھا کر بہلائے گئے یا زیادہ بہتر ہوگا اس کی خوشبو سے بے حس بنائے گئے تاکہ وہ کبھی اس کا اصل مزہ چکھنے کا مطالبہ نہ کرسکیں۔
ہم تو اہل کشمیر ہیں اور عجب مخلوق ہیں، اس لئے ہمارے ساتھ عجب پریم کی غضب کہانی روا رکھی جاتی ہے۔اس عجب کہانی میں ہمارا کردار بھی بڑا فلاطونی ہے۔ہماری موت پر وہی اشک شوئی کرتے ہیںجو ہاتھوں میں تیر و تفنگ رکھتے ہیں اور ہم ہیں کہ تعریف کرتے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں کہ دیکھو اگر مار بھی ڈالا تو لاش کو پیڑ کی آرام دہ چھائوں میں ڈال دیا، کہیں دھوپ سے خراب نہ ہونے پائے اور میت پر روئے بھی تو کتنا خوب خوب روئے۔ جی کرتا تھا کہ کچھ لمحے جان آجائے اور ہم اٹھ کر ان کے ساتھ مل کر روئیں اور پھر مر جائیں۔یقین نہ آئے تو یاد کر لیجئے ہم نے تو ۱۹۹۶ء میں زمام اقتدار سنبھالتے ہی اشکِ وفا خوب بہائے کہ وعدہ کیا گیا تھا سارا ہندوستان میرے پیچھے ہے اور آج جب میں ووٹ کے لئے آگے ہوں مگر ہندوستان قلم دوات کے پیچھے ہے ، باقی سب خیریت ہے ؎
اے وطن کے سجیلے سیاستدانو
سارے رقبے تمہارے لئے ہیں
کوٹھیوں کے طلب گار ہو تم
پلاٹوں کے پرستار ہو تم
او ذلالت کی زندہ مثالو
سارے قرضے تمہارے لئے ہیں
رابط([email protected]/9419009169