سرینگر // لبریشن فرنٹ چیئرمین اور انکے7 دیگر اراکین ،جنہیں17 دسمبر کے پرامن بادامی باغ چلو مارچ کے دوران لال چوک سے گرفتار کیا گیا تھا ،کو اب پولیس نے دفعہ307 اور دوسرے کئی دفعات کے تحت گرفتار کرلیا ہے۔انکی مزید 4روز تک پولیس ریمانڈ حاصل کی گئی ہے۔ پولیس نے انہیں متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ انہیں سینٹرل جیل منتقل کرنے کی اجازت دیں ۔ تاہم مجسٹریٹ نے سبھی گرفتار شدگان کوذاتی مچلکہ پر رہا کردینے کا حکم دیا جس کے بعد پولیس نے ملک سمیت سبھی افراد کو نئے فرضی کیسوں میں گر فتا ر کیا ۔ بدھ کی صبح سبھی کوپولیس کنٹرل روم ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انہیں منصف(۳) کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت میں ایڈوکیٹ بشیر صدیق نے دلائل پیش کئے۔ عدالت کی اجازت کے بعدملک نے عدالت کے سامنے وہ حقائق پیش کئے جو ان کی گرفتاری کے بعد سے اب تک پیش آئے تھے۔ یاسین ملک اور ایڈوکیٹ بشیر صدیق کے دلائل کے بعد عدالت نے سبھی گرفتارشدگان کو چار روزہ پولیس ریمانڈ میں دینے کا فیصلہ کیا۔ بعداَزاں سبھی گرفتار شدگان کو عدالت سے واپس پولیس تھانے منتقل کردیا گیا ۔یہ بات واضح رہے کہ لبریشن فرنٹ کے نائب چیئرمین شوکت احمد بخشی، نور محمد کلوال اور بشیر احمد کشمیری بھی کئی روز سے پولیس کی حراست میں ہیں۔
ملک اور ساتھیوں پر بے بنیاد الزامات
جمہوری اور اخلاقی قدروں کی پامالی:گیلانی/میر واعظ
نیوز ڈیسک
سرینگر //مشترکہ مزاحمتی قائدین سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق نے مزاحمتی قیادت کے تئیں حکمرانوں کے غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور عدل و انصاف سے عاری اقدامات اور ان کو فرضی کیسوں میں ملوث کرکے پابند سلاسل کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کی جارحانہ کارروائیوں کو مسلمہ انسانی ، جمہوری اور اخلاقی وقدروں کی شدید پامالی قرار دیا ہے ۔بیان میں محمد یاسین ملک اور دیگر حریت پسند کارکنوں مشتاق احمد ڈار، محمد حنیف ڈار، شاکر احمد آہنگر، فیاض احمد لون، امتیاز احمد ڈار، امتیاز احمد گنائی اور بشارت احمد بٹ کی گرفتاری اور بدنام زمانہ دفعات کے تحت پولیس حراست میں رکھنے اور ان پر من گھڑت اور بے بنیاد الزامات عائد کرنے کو سراسر انتقام گیری اور تاناشاہی رویوں سے عبارت کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ محمد یاسین ملک اور دیگر کارکنان کیخلاف ریاستی پولیس کی جانب سے اقدام قتل کا مقدمہ نہ صرف حد درجہ مضحکہ خیز اور سراسر جھوٹ اور کذب بیانی پر مبنی ہے اور پھر ملک اور دیگر ساتھیوں پر بے بنیاد الزامات عائد کرنا سفید جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیںبلکہ اس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ حکمران طبقہ اپنی ننگی جارحیت اور انسانیت سوز کارروائیوں کی پردہ پوشی کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریزاں نہیں۔ مزاحمتی قائدین نے تہاڑ جیل میں مقید آسیہ اندرابی اور ان کی دو ساتھیوں فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو جیل حکام کی جانب سے انہیں قید تنہائی میں رکھنے اور انہیں طبی اور دیگر سہولیات سے محروم رکھنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محبوس خاتون پہلے سے کئی جسمانی عوارض میں مبتلا ہے اور جس طرح انہیں قید تنہائی میں رکھ کر شدید ذہنی، جسمانی کرب سے دوچار کیا جارہا ہے وہ حکمرانوں کی آمرانہ روش اور حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔