ان سطور کی اشاعت سے چند دن پہلے 6 دسمبر 2017ء کو بابری مسجد کو شہید ہوئے (25) سال گذر چکے ہیں۔ 6 دسمبر صرف بابری مسجد کی شہادت کی ہی برسی نہیں ہے بلکہ یہ ملک میں سنگھی ذہنیت کے حامل افراد کے غلبے، عدالتوں بہ شمول سپریم کورٹ کی توہین اور قانون کی ایسی کی تیسی کرنے کی بھی برسی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں بابری مسجد کی زمین پر ہی بابری مسجد کی تعمیر نو کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت تو دور رہی بابری مسجد کی بازیابی کی امیدیں روز بروز کم ہوتی جارہی ہیں گوکہ بعض افراد (مثلاًاومابھارتی، پروین توگڑیا اور سبرامنیم سوامی وغیرہ) بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے دعوے کرتے رہتے تھے جن کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی اور نہ ہوگی لیکن بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے بارے میں مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کسی بھی زیر سماعت مقدمہ کے فیصلے کے بارے میں کسی رائے کا اظہار بھی ایک طرح سے توہین عدالت ہے۔ کلیان سنگھ نے 1992ء میں مسجد شہید کرکے توہین عدالت کی تھی، کیا اب یہ موہن بھاگوت کرنے والے ہیں؟ راقم الحروف جو 1994ء سے ہر سال پابندی سے بابری مسجد پر مضامین لکھتا رہا ہے، توہین عدالت کی ایسی مثال نہیں دیکھی۔
اس قسم کا بیان جس میں ظاہر ہو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی ہم کو پرواہ نہیں ہے، ہم وہی کریں گے جو ہماری مرضی ہوگی۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا وہ بیان جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو سپریم کورٹ کے اختیارات اور احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ کا فیصلہ (خواہ کچھ ہو) ’’ہم بابری مسجد کی جگہ پر ہی رام مندر بنائیں گے‘‘ کیا اتنے بڑے سنگھ پریوار میں کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو موہن بھاگوت کو بتاسکے کہ اس قسم کی باتیں عدالتوں میں زیر دوران مقدمات کے بارے میں نہیں کی جانی چاہئے؟ مان لیں کہ یوپی اے دورِ حکومت میں اگر سونیا گاندھی اعلان کرتیں کہ بابری مسجد کی زمین پر ہی بابری مسجد تعمیر کی جائے گی تو سنگھ پریوار کا کیا رد عمل ہوتا؟مقدمات کے فیصلے ’’عقیدہ‘‘ کی بنیاد پر نہیں کئے جاتے ہیں۔ قانون تواندھا ہوتا ہے ،جانبدار نہیں ہوتا ہے لیکن سنگھ پریوار کے پاس قانون کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ان کے پاس ان کی مرضی ہی قانون ہے۔ اس لئے موہن بھاگت کو پریوار میں شائد ہی کسی نے ان کی غلطی کی نشاندہی کی ہو۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اصل حکمران توموہن بھاگوت ہی ہیں۔ مودی ہوں یا کوئی اور بی جے پی کا وزیر یا قائد سب ہی موہن بھاگوت کے تابع دار ہیں۔
سنگھ پریوار کا اولین مقصد اقتدار کا حصول یا اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا ہے، اس مقصد کے لئے پریوار کچھ بھی کرسکتا ہے! اور کسی بھی حدتک جاسکتا ہے، کوئی بھی کسی بھی قسم کا بیان دے سکتا ہے۔ اپنے بیان میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ اس کا ثبوت موہن بھاگوت سے لے کر بی جے پی یا وشواہندوپریشد یا بجرنگ دل کے معمولی درجے کے کارکن ہوں، سب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ اظہار خیال کی مکمل آزادی ان کے حامل ہے وہ جو چاہے بول سکتے ہیں۔ کٹر ہندتوادی کیسے کیسے نفرت آمیز و اشتعال انگیز بیانات آئے دن دیتے رہتے ہیں لیکن جو میڈیا ہندتوادیوں کے بیان کو چھپالیتا ہے، وہی میڈیا اکبر الدین اویسی کے صرف ایک بیان بلکہ ایک بات پر جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’15منٹ کیلئے پولیس ہٹاکر دیکھو لیا ہوتا ‘؟ بی جے پی کے تمام ترجمان مثلاً سمبت پاترا اور سداھانشو ترویدی وغیرہ اور آر ایس ایس کے راکیش سنہا کئی ٹی وی چینلوں کے میزبان (جیسے روبیکا، انجنا، سدھیر چودھی اور روہت سردانہ وغیرہ) جب بھی موقع ملتا ہے تب اکبر اویسی کے مندرجہ بالا بیا ن کا حوالہ دیتے ہیں۔ گویا اکبر الدین اویسی کا ایک بیان ان کو بھلائے نہیں بھول رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان کیسی ہی اور کسی بھی قسم کا اشتعال انگیزی کی نہ پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا رد عمل شدید ہوتا۔ اسی طرح یوپی کے نوجوان قائد عمران مسعود کا قصہ ہے۔ان کے بھی صرف ایک بیان کا متعدد بار تذکرہ ہوتا رہتا ہے ؎
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
عدالت مسجدکے ہی حوالے سے عین اس وقت جب کہ عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت مسلسل ہونے والی ہے جیسا کہ شوشہ چھوڑا تھا یعنی ’’بات چیت کے ذریعہ تنازعہ کا حل نکالا جائے‘‘۔ یہ ایک کھلا اور شرم ناک دھوکا ہے۔ بات چیت سے حل کا مطلب یہی ہے کہ مسلمان چپکے سے مسجد تو رہی نہیں مسجد کی زمین سے دستبردار ہوجائیں اور ایک نئی مسجد ایودھیا کے باہر بنالیں اور مندر بنانے والوں کی خوشنودی حاصل کریں۔
ہم سالوں سے سنتے آئے ہیں کہ نام نہاد بات چیت کے ذریعہ بابری مسجد تنازعہ کا حل نکالا جائے۔ اے جی نورانی نے اپنی کتابوں میں سردار پٹیل اور پنڈت گووند ولبھ پنت کے درمیان ہوئی خط و کتابت شائع کی ہے۔ کئی اردو کتابوں میں اس کاترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ 1980کی دہائی میں یہ مسئلہ زور شور سے اٹھایایا گیا تھا ،خاص طور پر مختصر مدت کے لئے وزیر اعظم بننے چندر شیکھر نے اس سلسلے میں کافی کوشش کی تھی۔ ممتاز عالم دین علی میاں نے بھی اپنی ایک کتاب (غالباً ملاحظات) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مختصر اًیہ کہ 1980ء کے آخری سالوں میں ہوئے مذاکرات میں بابری مسجد کی تعمیر نو کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا ذکر ہوا کرتا تھا لیکن اب صرف رام مندر کی تعمیر کیلئے مسجد کی زمین سے دستبرداری کی بات ہوتی ہے ۔ جب کہ ماضی میں اس بات پر غور ہوتا تھا ’’مندر اور مسجد‘‘ کہاں اور کس طرح بنیں گے؟ اب یہ تبدیلی آچکی ہے کہ اب صرف رام مندر کی بات ہوتی ہے اور مسجد کے بارے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے۔
یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ مسئلہ صرف رام مندر کی تعمیر کا ہے۔ اس سلسلے میں سنگھ پریوار فرقہ واریت پر مشتمل اپنی سیاست میں سرگر م عمل ہے۔تاہم شری شری روی شنکریہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی میں مذاکرات ناکام رہے ہیں نئی کوشش شروع کردی تھی۔ دوسری طرف شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی کو یوپی کے واحد مسلم وزیر (وہ بھی وزیر مملکت) محسن رضانے بابری مسجد کے دعویدار بناکر وسیم رضوی کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کروایا۔ وسیم رضوی کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ ان پر بدعنوانی ، جائیدادوں میں دھاندلیاں، رقومات میں خرد برد کے بڑے الزامات ہیں،جن سے جان چھڑانے کے لئے وہ بابری مسجد کا سودا کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ نہیں جانتے ہیں کوئی بھی وقف بورڈ وقف جائیدادوں کو نہ تحفہ میں دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یوپی کے شیعوں کی بھاری اکثریت اور خود آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ نے وسیم رضوی کی ملت سے غداری کو مسترد کردیا ہے۔ اب وہ اور شری شری شنکر ’’اکیلے پھر رہے ہیں میر بے کارواں ہوکر‘‘ شیعہ وقف بورڈ آل انڈیا مسلم (سنی) پرسنل لا ء بورڈ نے بھی شری شری شنکر اور وسیم رضوی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2013ء کا وقت ایکٹ (دفعہ) وسیم رضوی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وقف ایکٹ کی ذیلی دفعہ( سیکشن29) تحت وقف جائیدادوں (مساجد امام بارگاہوں، خانقاہوں) کا شیعہ وقف بورڈ صرف متولی ہے۔ اس کو جائیدادوں کی ملکیت پر شیعہ وقف بورڈ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ 1946ء میں بھی چند شیعوں نے بابری مسجد کو شیعہ مسجد بنانے کا دعویٰ کیا تھا جس کو ضلعی عدالت نے مسترد کردیا تھا۔ تب سے ہی یعنی 71 سالوں سے شیعہ وقف بورڈ خاموش رہا تھا اور بابری مسجد کے کسی معاملہ یا مقدمہ میں شیعہ وقف بورڈ کا رویہ لا تعلقی کا رہا ہے۔ وسیم رضوی کو بابری مسجد کے مقدمہ میں فریق اب بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے، اس کیلئے بھی وسیم رضوی کے پاس کوئی ثبوت یا دلیل نہیں ہے جن لوگوں نے بھی وسیم رضوی اور شری شری روی شنکر کو اچانک سرگرم کیا ہے وہ بھی جلد ہی بے نقاب ہوجائیں گے ،کچھ تو ہو بھی چکے ہیں۔ یوپی کی یوگی حکومت کا بھی اس معاملے میں خاصہ عمل دخل رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے سب ناکام ہوگئے ہیں۔
شائد خود حکومت اور سارا سنگھ پریوار عدالت عظمیٰ میں کامیابی سے مایوس ہیں۔ اس لئے ناامید ہوکر بھاجپا غیر اخلاقی حربوں پر اتر آئی ہے لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء نے سخت اور بے لچک رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور بے نتیجہ ہونے والے مذاکرات سے اجتناب کررکھا ہے۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہے۔
رام مندر کی باتیں یوپی میں بلدیاتی اور گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں رام مندر کے نام پر ووٹ بٹورنا بھاجپا کا اصل مقصد ہے۔ 2019ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ہر صورت فائدہ اٹھانا بھی ایک مقصد ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کی کارروائیوں پر اثر ڈالا جائے، غرض کہ وسیم رضوی اور موہن بھاگوت کے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بابری مسجد کو شہید کرکے بی جے پی کے شدت پسند اور اور مسلم دشمنی کے قائل نہ سہی مسلمانوں سے تعصب برتنے والے ہندووں کو دشمن نہ ہی مسلمان کو نیچا دکھانے کے خواہش مندوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ بابری مسجد کا آخری فیصلہ اب عدالت عظمیٰ کرے گی۔ اگر سپریم کورٹ کو بابری مسجد سے محروم کردیتی ہے تو کوئی مسلمان کچھ نہ کرسکے گا۔ مورخ جہاں ہندؤوں کی دھاندلیوں اور قانون شکنی کے ساتھ مسلمانوں کی غلطیوں اور مسلم قیادت کی غلطیوں کو بھی معاف نہیں کرے گا اور اگر عدالت عظمیٰ بابری مسجد مسلمانوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرے تو مسلمانوں کیلئے بابری مسجد کی تعمیر آسان نہ ہوگی۔ آزادی کے بعد جواہر لال نہرو کیا اتنے کمزور اور سردار پٹیل سے اتنے خائف اور مرعوب تھے کہ ’’پٹیل جو ان کے نائب اور وزیر داخلہ تھے اور اپنی ہی ریاست کے وزیر اعلیٰ کووندولبھ پنت کو حکم نہ دے سکے کہ وہ بابری مسجد میں دسمبر 1949ء کو بٹھائی گئیں مورتیاں اٹھوالیں اور مسجد مسلمانوں کو واپس کردی جائے ۔نیز اگر جواہر لال نہرو ڈرتے تھے تو کیا مولانا آزاد بھی سردار پٹیل اور ولبھ پنت سے اس قدر ڈرتے تھے کہ وہ بہ حیثیت کانگریس کے اہم ترین مسلمان لیڈر کوئی احتجاج نہ کرسکے؟ بابری مسجد کو بازیاب کرنے کی اپیل ہی کرتے! عام مسلمانوں کو بابری مسجد اور اس پر غاصبانہ قبضہ کا علم تو 1980ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ہوا تھا۔ سنگھ پریوار نے بابری مسجد کے رام جنم بھومی یا رام چندر جی کا مقام پیدائش بتاکر مسجد پر قبضہ کرنے کی سعیٔ نامشکور شروع کی تھی۔ مرحومین سلطان صلاح الدین اویسی اور شہاب الدین کی کوششوں اور محنت سے بابری مسجد کے المیہ سے ملت اسلامیہ ہند کو واقف کروایا۔ راجیو گاندھی نے اپنے ناناپنڈت جواہر لال نہرو سے بہت آگے بڑھ گئے۔ نہرو نے مسجد میں تالا ڈالے جانے کو برداشت کیا تھا تو راجیو گاندھی بابری اور مسجد کو عملاً مندر بنادیا تھا اور کانگریس کے ہی وزیر اعظم نرسمہا رائو نے بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش کو کامیاب بنانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ آج بابری مسجد کا فیصلہ چند فاضل ججوں کی مرضی اور فہم قانون وآئین پر منحصر ہے۔ جج صاحبان کو صحیح فیصلہ صادر کرنے کیلئے یہ وقت دعا ہے۔
Cell: 0091 9949466582
Email: [email protected]
بابری مسجد
گرا دی سازشوں سے دشمنوں نے بابری مسجد
درندوں، باغیوں نے، جاہلوں نے بابری مسجد
وہ مسجد اہل ایماں کا سکون قلب و جاں تھی
بچا پائی نہ مسلم بے کسوں نے بابری مسجد
یہی دن چھہ دسمبر کا ہے پھر سے لوٹ آیا
گرائی تھی اسی دن ظالموں نے بابری مسجد
نہ ایواں میں، عدالت میں کوئی چرچا ہے مسجد کا
کہ ہر جا سے مٹا دی حاکموں نے بابری مسجد
مگر اب تک دلائی یاد ملت کو مواعظ میں
ہمیشہ شاعروں نے، عالموں نے بابری مسجد
وہ یاسر کینہ پرور تھے مسلمانوں کے دشمن تھے
کہ کیا سے کیا بنادی حاسدوں نے بابری مسجد
یاسر عرفات طلبگار
ڈوڈہ
918803658857