پُنے ( مہاراشٹر)//وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب اے درابو نے کہا ہے کہ’بھارتی دانشوروں اور پالیسی سازو ں کی کشمیر کے مصائب اور سماجی ارتقأ کو سمجھنے میں عدم دلچسپی ہی جموں وکشمیر کے مسئلے کی بنیادی وجہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر میں سیاسی بیگانگی سے زیادہ بھارتیہ سول سوسائٹی کی کشمیر کے معاملات میں عدم دلچسپی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے جو جموں و کشمیر کے تئیں بھارتیہ دانشوروں کی بے حسی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔انہوںنے کہاکہ تاہم حالیہ برسوں کے دوران ملک بھر میں جموں وکشمیر سے متعلق جانکاری عام ہونا باعث اطمینان ہے ۔ڈاکٹر درابو مہاراشٹر میں پونا انٹرنیشنل سینٹر کے چھٹے یوم تاسیس پر گزشتہ شام’’ جموں وکشمیر کے لئے ترقی کے امکانات ‘‘کے عنوان سے کلیدی خطبہ دے رہے تھے۔ انہیں تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ انہوںنے کہا کہ بھارتی دانشور وںاور پالیسی سازوں نے کشمیر کے معاملات میں کبھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اسی سبب سے وہ ریاست اور اس کے لوگوں کو درپیش حقیقی مسائل کو سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اکثر غلط معنی بھی اخذ کرتے ہیں۔اس موقعہ پر معروف سائنسدان رگھوناتھ ماشلکر ، ماہر اقتصادی وجے کیلکر اور دیگر معروف شخصیات موجود تھیں۔درابو نے کہا کہ کشمیر کو ہمیشہ حفاظتی نکتہ نظر سے دیکھا گیا ہے اور اس بات پر کوئی آزادانہ سوچ نہیں ہے کہ کشمیری عوام کا ردعمل ایسا کیوں ہے ۔انہوںنے کہا کہ جموں وکشمیر میں سب سے جامع زرعی اصلاحات عمل میں لائے گئے جو کہ دنیا بھر میں کسی بھی غیر اشتراکی حکومت نے کئے ہوں گے لیکن جموں و کشمیرمیں زرعی اصلاحات پر کسی بھی بھارتی سکالرنے کوئی کتاب نہیں لکھی جبکہ کیرلا اور مغربی بنگا ل کے زرعی اصلاحات پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔انہوںنے کہا کہ ان زرعی اصلاحات کے سیاسی و سماجی اثرات کا تجزیہ کسی بھی بھارتی سکالر نے نہیں کیا ہے ۔کشمیری قالین اورکشمیر شال پر ایک امریکی اور ایک سوئزرلینڈ کے قلمکار نے بہترین کتابیں لکھی ہیں تاہم بھارتیہ دانشوروں نے اس ضمن میں بھی خاموشی ہی اختیار کی ۔قومی میڈیا کی جانب سے کشمیر کے حالات کو منفی انداز میں پیش کرنے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے درابونے کہا کہ علیحدگی کے کبھی کبھار لگائے گئے نعروں سے ملک بھر میں ٹیلی ویژن سکرینوں پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔اُنہوںنے کہا کہ دلی میں گزشتہ حکومتوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھارت میں وفاقی ڈھانچے اور دیگر رجحانات میں واقع ہو رہی تبدیلیوں کو جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ نہ کرنا ہے ۔ بھارت کو ایک قوم اور نہ صرف ریاست کی طرح مداخلت کر کے فعال ہو کر مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ بھارتیہ سول سوسائٹی کا ایک بہت بڑا رول ہے اور وہ عظیم تبدیلیاں لاسکتی ہے ۔ڈاکٹر درابو نے کہاکہ کشمیر معاملہ اب ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے اور اس کو حل کرنے میں بھارتیہ حکومت سے زیادہ بھارتیہ سول سوسائٹی فعال کردار اداکر سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم اپنی ثقافت جو صوفی ۔ ریشی روایات کا ایک بے مثال امتزاج ہے کو کھو رہے ہیں جو کہ برصغیر اور باقی دنیا کے لئے نہ صحیح تاہم بھارتیہ ثقافت کے لئے ایک نقصان عظیم ہے۔وزیر خزانہ نے کہا ’’ بھارت کے وفاقی نظام جبر سے باہمی تعاون کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے مسابقتی وفاق کی جانب بڑھ رہا ہے اور بذریعہ بااختیار وفاقی نظام جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل پانا ممکن ہے ۔انہوںنے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کی سیاسی بیگانگی کو وحدانی ساخت کی بنیاد پر وفاقی نظام پر کانفرنس منعقد کرنے سے دور کرنا ممکن نہیں ہے ۔ہمیں اپنے سوچ اور اپروچ کو بدلنا ہوگا۔‘‘ڈاکٹر درابو نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کے لوگ اپنے ارد گرد تبدیلی واقع ہونے کی توقع پر ہی اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی بھارتی سوسائٹی کے خلاف کچھ نہیں کہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ا س مسئلے کے حل میں سب سے بڑی ناکامی بھارتیہ جمہوریت ،سیاسی ڈھانچہ، وفاقیت اورنظریاتی رجحانات میں واقع ہو رہی تبدیلیوں سے پرے جموں وکشمیر کے مسئلے کو دیکھناہے۔کشمیر کو بھارتیہ ریاست کے ایک خود مختار یا بااختیار وفاقی اکائی کے تصور کے منحرف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تاہم اسے بھارتی وفاق کے ساتھ جوڑے رکھنا بھارت کی مخلوط ثقافت اور جمہوریت کی بقأ کے لئے لازمی ہے۔اس نقش راہ پر کوئی بھی تبدیلی اثر انگیز نہیں ہوئی ہے اور بھارتی دانشور جموں و کشمیر کو اسی نظرئیے سے دیکھتے آرہے ہیں۔خطے کے فروغ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوںنے کہا ’’ جموں وکشمیر کی دستکاری فن ، زراعت اور سیاحت ریاست کی اقتصادیات میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔‘‘