2001میں جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھانپ لیا کہ کشمیر میں پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس کے متبادل کے طور پروجیکٹ کیا جارہا ہے تو انہوں نے اولین فرصت میں ایک قانون منظور کروالیا جس کے تحت تمام سابق وزرائے اعلیٰ تاحیات سرکاری مہمان ہونگے اور ان کے سیکورٹی پروٹوکال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اُسوقت اُن کے بہنوئی اور سابق وزیراعلیٰ جی ایم شاہ سفرحیات کے آخری زینے پر تھے۔ انہیں آناً فاناً زیڈ پلس سیکورٹی دی گئی اورسٹیٹ گیسٹ کے طور سرکاری بنگلہ میں شفٹ کیا گیا۔دوسرا فوری فائدہ یہ ہوا کہ 2002میں جب نیشنل کانفرنس سب سے زیادہ یعنی 28سیٹیں جیتنے کے باوجود پی ڈی پی کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخل ہوگئی تو فاروق عبداللہ بھی سرکاری مہمان ٹھہرے۔ بعدازاں عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کا معاملہ بھی بیرون اقتدار اسی اصول پر چلا۔
دراصل کشمیرمیں اقتدار چاہے سیاستدان کے پاس ہو یا بیوروکریٹ کے پاس، بااختیار طبقہ تاحیات پاور میں رہتا ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا سینئر پولیس افسر ریٹائر ہوجائے تو بڑے سے بڑا اعزاز اُسے یہ ملتا ہے کہ اسے حکومت کا سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جاتا ہے، لیکن کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پولیس افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پبلک سروس کمیشن اور سروس سیلیکشن بورڑ کا سربراہ یہاں تک کہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی بنایا جاتا ہے۔ جتنے بھی آئی اے ایس افسر کشمیر میں ریٹائر ہوئے، انہیں عام ملازمین کی طرح نفسیاتی تنہائی کا سامنا نہیں رہا۔ بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مرعات اور پاور کے حامل قرار پائے۔ خورشید گنائی کب کے ریٹائیر ہوگئے ہیں، لیکن وہ فی الوقت گورنر کے مشیر ہیں، اسی طرح کئی افسران ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد یا تو انفارمیشن کمیشن کے سربراہ ہوتے ہیں، یا کسی اور ادارے کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ اسی طرح یہ ایک مفروضہ ہے جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی مخصوص سیاستدان الیکشن ہار کر اقتدار سے بے دخل ہوگیا۔ دراصل کشمیر میں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، اُس سے عام آدمی بااختیار نہیں ہوتا، بلکہ سارا کا سارا پاور ایک مخصوص وی آئی پی طبقے میں کنسنٹریٹ ہوتا ہے، اور خدمت خلق کا عمل صرف نمائشی ہوتا ہے، اصل کام ان سبھی بااختیار لوگوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس پاور سٹرکچر میں کس طرح اپنے اقربا ء کو انفلٹریٹ کروائیں، اور ان کرتوتوں کو دلی والے صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ یہ طبقہ عوامی مفاد کے خلاف سرگرم رہتا ہے۔ پاور کی یہ لت اس قدر دلفریب ہے کہ بیوروکریٹوں کولگتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حکمران ہیں۔ ہمارے ایک آئی اے ایس افسر نے تو حد کردی۔انہوں نے جنوبی شہر میں سرکاری زمین پر لوگوں کو مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے عوض اس کالونی کا نام اُسی افسر کے نام پر رکھا گیا۔
یہاں کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ میں لگے اس دھیمک سے یہاں ایک وی آئی پی کلچر پروان چڑھا ہے، جس کے گرد سیاست اور بیوروکریسی کا سارا کھیل چل رہا ہے۔ سیاست اور بیورکریسی کے درمیان یہ Organicرشتہ اب اس قدر گہرا اور مضبوط ہے کہ شاہ فیصل جیسا نوآموز چاہے بھی تو کچھ نہیں کرسکتا۔ انتظامیہ اور سیاست کی صفائی ایک نعرہ تو بن سکتا ہے، لیکن یہ خواہش کبھی عمل پذیر نہیں ہوسکتی۔
یہاں کے نوجوان کو اسی سیاسی اور انتظامی مین سٹریم کی طرف مدعو کیا جارہا ہے، اور حال یہ ہے کہ آئی اے ایس ٹاپر بھی نوکر چھوڑ کر کہتا ہے ’’گویا میں کسی جیل سے آزاد ہوگیا ہوں۔ـ ‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اختیارات کے اس لُنڈا بازار کی حقیقت سب پرعیاں ہوکر بھی لوگ کیوں اسی منڈی سے اُمیدوں اور توقعات کا سیکنڈ ہینڈ مال خریدتے ہیں؟ اس کا جواب بیسویں صدی کے فرانسیسی صحافی، مصنف اور فلسفی البرٹ کاموکے فلسفیانہ مضمون The myth of Sisyphusمیں کم وبیش ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ سیسی فوس دارصل یونانی ادب کا افسانوی کردار ہے جسے دیوی دیوتاؤں نے شراپ دیا تھا کہ اُسے ایک بڑا پتھر پہاڑ کی چوٹی پر ڈھوکے لے جانا ہے تاکہ اس کے گناہوںکا کفارہ ہو، لیکن سیسی فوس یہ بھاری پتھرپہاڑ کی چوٹی پر لے جاتا ہے جہاں سے وہ لڑھک کر واپس نیچے آگرتا ہے، اور سیسی فوس یہی عمل سالہاسال دہراتا ہے۔ کامو کہتے ہیں کہ سیسی فوس اعلیٰ معنی سے عاری زندگی کا نمائندہ ہے، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بے نتیجہ عمل میں پیہم لگے رہنے کے عمل سے ہی حصولِ منزل کی لذت حاصل کی جارہی ہے۔ کیا ہمارے یہاں سیاسی تقسیم کے آر پار سبھی لوگ سیسی فوس ہیں؟ سبھی کشمیری بلالحاظ ِسیاسی مسلک یہ سوال من ہی من میں خود سے پوچھتے رہتے ہیں اور بااختیار لوگوں کی اقلیت پاور کے مزے لوٹ رہی ہے۔
………………….
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر