ریاست جموں و کشمیر اور مرکز کے درمیان گزشتہ ستر سال سے کشاکشی کے جتنے بھی دور گزرے ہیں ،ان میں ایک بات مشترک ہے کہ ہر کشاکش کی پہل نئی دہلی سے ہوئی ۔شروعات 1953ء میںہوئی جب منتخب وزیر اعظم اور مقبول عوامی رہنما شیخ محمد عبداللہ کو معزول کرکے گرفتار کرلیا گیا۔کشمیر سازش کیس۔شیخ صاحب کی حکومت گرانے کے مہرے بخشی غلام محمدکی کامراج پلان کے تحت راتوں رات حکومت سے محرومی ۔شمس الدین نامی گمنام شخص کو وزیر اعظم بنانا ۔ تحریک موئے مقدس ۔غلام محمد صادق کو اقتدار کی مسند پر بٹھاکر ان کے ہاتھوں وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ اور صدر ریاست کو گورنر بنانے کے بعدان کی جگہ سید میر قاسم کو وزیر اعلیٰ بنانا اور پھر قاسم صاحب کواندراعبداللہ ایکارڈ کی بھینٹ چڑھا کر اقتدار شیخ محمد عبداللہ کے سپرد کرنا ۔ شیخ محمد عبداللہ کیخلاف عدم اعتماد۔ شیخ صاحب کے بعد وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی انہی کے بہنوئی غلام محمد شاہ کے ہاتھوںمعزولی۔ غلام محمد شاہ کو بھی اسی انجام سے دوچار کرکے راجیو فاروق ایکارڈ کے ذریعے کانگریس کے اشتراک سے حکومت بنانے کیلئے مسلم متحدہ محاذ کوانتخابی دھاندلیو ں سے شکست سے دوچار کرنا تاریخ کے وہ واقعات ہیں جن کے پس پردہ سازشوں کے گہرے اور پیچیدہ جال تھے ۔انہی کے بطن سے عسکریت نے بھی جنم لیا۔ عوامی مزاحمت نے بھی ۔ علیحدگی پسند تحریک نے بھی ۔ سنگ بازی نے بھی اور اس شدید نفرت نے بھی جو نسل در نسل دلوں میں منتقل ہوتی چلی گئی ۔
آج یہ کشاکش عسکری سطح پر بھی موجود ہے اور سیاسی، سماجی، نفسیاتی ، اور مذہبی سطح پر بھی پھیل چکی ہے ۔اس دھماکہ خیز صورتحال میں دفعہ 35اے کیخلاف چوطرفہ یلغار اور اس کیخلاف شدید ترین مزاحمت کے بیچوں بیچ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا اعلان کشاکش کے نئے مرحلے کا آغاز بن چکا ہے ۔عسکری اور مزاحمتی محاذ نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جو توقع کے برعکس نہیں لیکن حیرت انگیز طور پر قومی دھارے کی سب سے بڑی مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کردیا ۔اس طرح ریاست کا مین سٹریم صرف بھارتیہ جنتا پارٹی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا کیونکہ کانگریس بھی ان انتخابات کے سلسلے میں ابھی تذبذب میں ہے ۔یہ مقامی مین سٹریم، جس کی سرپرستی میں نئی دہلی نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی اور جو ریاست اور ملک کے درمیان کمزور ہی سہی واحد کڑی تھا، اب کافی حد تک مزاحمتی خیمے کے قریب ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں کشاکش میں ریاست کا پلڑا نئی دہلی کے مقابلے میں زیادہ پر اثر اور مضبوط بن چکا ہے ۔
دوسوال حالات کے اس تناظر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس مرحلے پر جب کسی بھی انتخاب کیلئے ریاست کے حالات سازگار نہیں ،نئی دہلی نے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیوں کیا اور دو بڑی مقامی جماعتوں کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد بھی وہ یہ انتخابات کرانے پر مصر کیوں ہے ؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بائیکاٹ کا راستہ کیوں چن لیا؟۔جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ نئی دہلی کو اس کے نتائج و عواقب پر کیا کوئی نظر نہیں ہے ۔اسے کیسے یہ یقین ہے کہ وہ ابتر ترین حالات کے باجود یہ انتخابات بخیر و خوبی انجام دے سکے گی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ نئی دہلی تمام حالات کو بخوبی سمجھ رہی ہے اور اسے معلوم ہے کہ جموں کے ایک بڑے علاقے میں ان انتخابات میں عوامی شمولیت وسیع پیمانے پر ہوگی اور یہاں پر بی جے پی کوبھر پور کامیابی کی توقع ہے ۔ وادی اور جموں کے کچھ اضلاع میں انتخابات میںعوامی شمولیت نفی کے برابر ہوگی۔اس طرح مکمل بائیکاٹ کا دعویٰ رد کرنے کا جواز مل سکتا ہے ۔ حسب سابقہ دونوں طرف سے دعوے ہوں گے جن پر کافی دیر تک بحث رہے گی لیکن سب سے بڑا فایدہ جو مرکز اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا ،وہ یہ ہے کہ توجہ کا فوکس حالات سے ہٹ کر انتخابات پر مرکوز ہوجائے گا ۔کافی دیر تک قومی اور بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع یہی رہے گا۔بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی کامیابی کو اپنے نظر یات کی کامیابی قرار دیکر ریاست کے خصوصی درجے کے ساتھ دست درازی کو جائز قرار دیکر اس میں مزید تیزی لانے کی ہمت کرسکے گی اورآنے والے پارلیمانی انتخابات کیلئے بھی اس کا استعمال کرسکے گی ۔وادی میں لوگ گھروںسے باہر نہیں آئیں گے۔ جو امیدوار کھڑاہوں گے ،بلامقابلہ کامیاب ہوں گے۔ ان میں ممکن ہے کہ زیادہ امیدوار بی جے پی کے ہوں ۔یہ اندازہ کتنا درست ہے وقت ہی بتائے گا تاہم اس کے غلط ہونے کی بھی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو نیشنل کانفرنس کی قیادت نے ان انتخابات میں شمولیت کیلئے کھلی رضامندی ظاہر کردی تھی ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگے تھے کہ ان انتخابات کا نہ مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق ہے نہ کسی سیاست سے۔ یہ محض عوام کی بہبود کیلئے ضروری ہیں اس لئے ان میں شمولیت کی جانی چاہئے لیکن جب پارٹی کی کور کمیٹی کااجلاس ہوا تو قیادت کو زمینی حقیقت کا علم ہوا ۔عہدے داروں اورکارکنوں نے صاف صاف بتایا کہ وہ ان حالات میں کسی کو انتخاب لڑنے کیلئے بھی راضی نہیں کرسکتے اور یہ انتخاب نیشنل کانفرنس کی مکمل تباہی کا باعث بن جائے گا۔اس کے بعد قیادت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ بائیکاٹ کا اعلان کردے ۔دفعہ 35اے کا تحفظ بائیکاٹ کے اعلان کے ساتھ نتھی کرکے قربانی کی مثال قائم کرنے کی کوشش کی گئی ۔پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس کے بائیکاٹ اعلان کے بعد مجبور ہوکر اس کی تقلید کی کیونکہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ اس کے لئے امیدوار حاصل کرنا نیشنل کانفرنس سے زیادہ مشکل تھا ۔
اب جو صورتحال بن چکی ہے، اس نے وادی اور جموں کے مسلم بیلٹ کو جموں کے ہندو بیلٹ سے الگ کردیا ہے ۔یہ تقسیم بی جے پی کا ہی ایجنڈاہے اور اسی کیلئے فایدہ مند بھی ہے کیونکہ یہ اس کے نظریات کوہی سپورٹ کرتا ہے ۔مسلم بیلٹ کے وہ دانشور جو اپنے خیالات کااظہار حالات کی سنگینی کے سبب کافی عرصے سے نہیںکررہے ہیں ،کے ذہنوںمیں یہ سوال اس سے پہلے بھی اٹھتا رہا ہے اور اب بھی اٹھ رہا ہے کہ بائیکاٹ سے کتنے فایدے اورکتنے نقصانات ممکن ہیں ۔بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے بائیکاٹ سے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ مزاحمتی تحریک کو کتنے فایدے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ ریاست کی خصوصی حیثیت کے تحفظ کا کیا امکان پیدا ہوسکتا ہے ۔ یہ بات یقینی ہے کہ خصوصی درجے کیخلاف دست درازیوں کا ہمہ گیر ردعمل ایک بار پھر سامنے آئے گا لیکن کیا اس ردعمل سے مرکز اور ہندوستان کے عوام واقف نہیں ۔اوراس ردعمل سے کماحقہ واقفیت کے باوجود بھی دست درازیاں کس بات کا اشارہ کررہی ہیں ۔
جس طرح قومی دھارے کی سیاست کو بھی کافی زخم لگے ہیں اور جمہوری سیاست کی فریب کاریوں کی بھی ایک تاریخ ہے، اسی طرح بائیکاٹ سیاست کی ناکامیوں کی بھی ایک تاریخ ہے ۔شیخ محمد عبداللہ ریاست کی تاریخ کا ایک قد آور لیڈر تھا ۔ جس کی ایک بین الاقوامی حیثیت بھی تھی اور پہچان بھی ۔ اس نے بائیس سال تک انتخابات کا بائیکاٹ اُس وقت کیا جب وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کے موقف پر کھڑے تھے ۔ان کی اپیل پر ہر انتخاب کا عوام نے مکمل بائیکاٹ کیا ۔ بائیکاٹ ہوا مگر پھر بھی الیکشن کرائے گئے ۔چند ووٹوں سے امیدواروں کو جتایا گیا یا بلامقابلہ ہی کامیاب کرایا گیا ۔ اس طرح اقتدار و اختیار کے مالک وہ لوگ بن گئے جونہ صرف یہ کہ عوام میں کوئی ساخت نہیں رکھتے تھے بلکہ چند لوگوں کو چھوڑ کرسب پرلے درجے کے نااہل ، لٹیرے اور غنڈے بھی تھے ۔رشوت خوری ، لوٹ کھسوٹ اور دہلی کی فرمانبرداری میں ریاست کے مفادات کی قربانی ان کا شیوہ تھا ۔بائیس سال کے بعد شیخ محمد عبداللہ کو اس کا احساس بری طرح سے ستانے لگا اور جب وہ جیل میں تھے ،تجربے کے طورپر انہوں نے بخشی غلام محمد کو سبق سکھانے کے لئے ان کے مقابل آزاد امیدوار شمیم احمد شمیم کی پارلیمانی حلقہ انتخاب سرینگر سے حمایت کرکے اسے کامیاب کرایا۔یہ قومی دھارے میں لوٹ آنے کا ان کا پہلا قدم تھا جو انتخابی بائیکاٹ کے راستے سے ہوکر آیا ۔اندرا عبداللہ ایکارڈ کے پیچھے جو عوامل کارفرما تھے، ان میں جہاں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی شکست ، شملہ معاہدے میںمسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی اداروں میں نہ لے جانے کا اقرار شامل تھا وہیں پر سب سے بڑی وجہ انتخابی بائیکاٹ کے سبب خود ساختہ حکمرانوں کے ہاتھوں خصوصی درجے کی خرابی اور ریاست کے سیاسی ، اقتصادی اور معاشی مفادات کی بربادی بھی شامل تھی ۔اقتدار حاصل کرنے کی ان کی خواہش کا بھی اس میںدخل ہوسکتا ہے لیکن مندرجہ بالا وجوہات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔آج گو کہ صورتحال مختلف ہے لیکن کئی عوامل ایسے ہیں جن کا ماضی سے بھی گہرا تعلق ہے ۔آج انتہا پسندی کا جنون ہندوستان پر طاری کردیا گیا ہے اوراس کا سب سے بڑا حدف کشمیر ہے ۔تاریخ کا یہ سب سے بڑا امتحان بھی ہے اور سب سے نازک موڑ بھی ۔ اس انتہائی حساس صورتحال میں تمام پہلوئوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کی تقدیر کا سوال ہے۔ اس لئے لمحوں کی خطا بھی صدیوں کی سزا بن سکتی ہے ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)