سرینگر //مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ بھارت زور و جبر کر کے در اصل مذاکراتی عمل سے راہ فرار اختیار کررہا ہے حالانکہ مزاحمتی قیادت نے کبھی بھی مذاکراتی عمل سے انکار نہیں کیا ہے۔ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گیلانی کی رہائش گاہ حیدر پورہ میں تینوں لیڈروں کا ایک مختصر اجلاس اس وقت ہوا جب میر واعظ اور ملک ، گیلانی کی عیادت کرنے کیلئے گئے۔ مشترکہ مزاحمتی قائدین نے بیان میں مسئلہ کشمیر کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے پُرامن تصفیہ کے لئے مذاکرات کو ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قائدین نے کبھی بھی نتیجہ خیز مذاکرات سے انکار نہیں کیا ہے، البتہ بھارت مسئلہ کشمیر کو ایک انتظامی مسئلہ سمجھ کر مذاکراتی ماحول کو سازگار بنانے کے بجائے ریاست کے مظلوم عوام پر فوجی طاقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے مرعوب اور مغلوب بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت کو عوامی خواہشات کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کا دائمی اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے بامعنیٰ اور نتیجہ خیز مذاکرات کے حوالے سے سہ فریقی مذاکرات میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے میں کوئی ابہام اور پس و پیش نہیں ہے۔ بیان میں مزاحمتی قائدین نے مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور دیرپا حل کے لئے اس مسئلے سے جُڑے تینوں فریقوں کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مخاصمت آرائی نہ صرف اس خطے میں وسیع تر تباہی وبربادی، بلکہ عالمی امن کے لئے ایک سنگین خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق حریت قائدین، کارکنوں، وکیلوں، سرکاری ملازموں، تجارت پیشہ بیوپاریوں، صحافیوں غرض زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کردار کُشی اور بدنام ومرعوب کرنے کی مہم جوئی میں NIAجیسی ایجنسیوں کو متحرک کیا گیا ہے۔ پُرامن سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کرکے حریت پسند سیاسی قائدین اور کارکنوں کو ریاست اور ریاست سے باہر تہاڑ جیسے بدنامِ زمانہ جیلوں میں نظربند کیا گیا ہے۔ اس طرح پوری ریاست کو فوجی شکنجے میں کستے ہوئے یہاں کے عوام کو ایک بدترین دورِ ابتلاء میں مجبور ومقہور کیا جارہا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں مذاکرات کی ڈفلی بجانا مذاکراتی میز سے راہِ فرار اختیار کرنے کے بہانے تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت اپنے منصب کی بھاری ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ قیادت ایک مظلوم قوم کی ترجمانی کا دعویٰ کرتی ہے جس کے کاندھوں پر چھ لاکھ انسانی نفوس کی شہادتیں، ہزاروں اسیرانِ زندان کی قربانیاں، کھربوں روپئے مالیت کی جائیدادوں کا اتلاف اور عفت مآب خواتین کی لٹی ہوئی عصمتوں کی صورت میں ایک بارِ گراں ہے جسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا اولین فرض ہے۔