گزشتہ جمعہ کی شام ہندوستانی پارلیمنٹ سے متصل کانسٹی ٹیوشن کلب میں12 ویں اصغر علی انجنیئر یادگاری خطبہ کا انعقادکیا گیا۔ بطور خطیب اے جی نورانی مدعوتھے۔ نامور ماہر آئین، سیاسی مبصر، کالم نگار، مورخ اور سپریم کورٹ اور ممبئی ہائی کورٹ کے بڑے وکیل ،88سالہ نورانی صاحب کو سننے کے لیے دلی بے تاب تھی۔ شام ڈھلنے سے پہلے میں جے این یو کے اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ لیکچر ہال کے باہر لگے خوبصورت چشموں سے پانی کے پھوارے آسمان کو چومنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایسا گمان ہو رہا تھا کی یہ بھی اس بے حد خاص مہمان کے استقبال میں آج کچھ زیادہ ہی مسرور تھے۔یہ سرور آگیں مسرت بے جا نہیں تھی۔نورانی صاحب جیسا عظیم دانشورایک عرصہ کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حق گو ئی میں صرف کی ہے۔ ان کی حیدرآباد، کشمیر، بابری مسجد سے متعلق تحقیق اور اہم دستاویزوں کی تدوین، تاریخ کے شعبہ میں لا فانی اور لا ثانی خدمات کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریریںزیادتی ڈھارہی اور اپنے فرائض سے منہ موڑرہی حکومت کے خلاف ایک بے باک آواز رہی ہے۔الغرض نورانی صاحب کی زندگی سیکولر اور ترقی پسند نظریات کا بے حد خوبصورت مجسمہ ہے۔
جب میں ہال کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ نورانی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ قریب پہنچ کر میں نے ان کو سلام پیش کیا اور کہا کہ ’’میں آپ کی تحریروں کو پڑھتا ہوں اور میری آرزو ہےکہ میں آپ کی طرح بنوں‘‘۔ سر ہلا کر انہوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔جب میں نے ان کو بتایا کہ میرا پی ایچ ڈی ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘‘ کے موضوع پر حال میں ہی جمع ہوئی اور اس دوران اُن کی تحریروں سے کافی مستفید ہوا ہوں، تب نورانی صاحب نے خوشی میں سر ہلایا۔خیال رہے کہ نورانی صاحب کی اس موضوع پر یہ رائے ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے مسئلہ کو روحِ شریعت کے مطابق حل کیا جائے، نہ کہ اینگلو محمڈن لاء ، جو کہ انگریزوں کے دور حکومت میں وجود میں آیا، کو ہی شریعت سمجھ لیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے سخت مخالف ہیں ۔ اپنی تحریروں میں وہ مسلسل لکھتے آ رہے ہیں کہ بی جے پی یکساں سول کوڈ کا استعمال مسلمانوں کے خلاف ڈنڈےکے طور پر کر رہی ہے ۔ جب میں نے ان سے یہ ساری باتیں دہرائیں اور کہا کہ اپنی پی ایچ ڈی مقالے میں نے یہ سب کچھ شامل کیا ہے، تواس بار بھی انہوں اپنا شاباشی اور خوشی ظاہر کی۔باتوں باتوں میں وہاں موجود کسی شخص نے ان کے ساتھ فوٹو لینے کی خواہش ظاہر کی ،مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
اسی دوران سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری بھی وہاں آ پہنچے۔سب کو انہیں کا انتظار تھا۔ اپنے’’غفور بھائی ‘‘کے اس خطبے کی صدارت اُن ہی کو انجام دینا تھی۔پھرنورانی صاحب کو سہارے کے ساتھ سٹیج پر لے جایا گیا مگر جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو اُن کی پیرانہ سالی ان پر ذرہ برابر بھی مغلوب نہ ہو سکی اور وہ کافی دیر تک بولتے رہے اور درجنوں سوالوں کا مدلل ومسکت جواب بھی دیا۔موضوع خطبہ نہ صرف عصری معنویت رکھتا تھا بلکہ یہ نورانی صاحب کے سالہا سال طویل مطالعے سے براہ راست جڑا ہوا تھا۔’’بھارت کے مسلمان:ماضی اور حال‘‘ پر بولتے ہوئے نورانی صاحب نےوہ باتیں کہہ دیں جن کو حکومت و قت دبانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، مگر نورانی صاحب جیسے حق گو کو کس بات کا ڈر؟ انہوں نے سابق نائب صدر جمہوریہ ، سابق کابینی وزیر اور دہلی کے دانشور طبقہ کی موجودگی میں کہا کہ مسلمانوں کی موجودہ حالت سال1857 اور 1947 سے بھی زیادہ خراب ہو گئی ہے۔1857 کے انقلاب کے بعد انگریز تھے،1947میں تقسیم ہند کے بعد جواہر لال نہرو تھے، جن کی طرف مسلمان مدد کے لیے جاسکتے تھے مگر آج وہ بے سہارا ا ور بے یار ومددگار ہیں۔ آج مسلمان بغیر لیڈر کے ہیں، اُن کے خلاف بڑے پیمانے پر بھید بھاؤ برتا جا رہا ہے، نوکریوں میں وہ امتیازی سلوک جھیل رہے ہیں۔ہاؤسنگ سیکٹر میں وہ تعصب کےشکار ہیں۔اُن کی سیاسی نمائندگی پارلیمنٹ میں ابھی سب سے کم ہے۔کیا مسلمانوں کی اس پسماندگی کے لیے صرف بر سر اقتدار بھگوا تنظیمیں ہی ذمہ دار ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کی ترقی کے لیے سیکولر جماعتیں بھی پوری طرح سے ایماندار اور مخلص نہیں رہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ نہرو کے دور حکومت میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی گرتی چلی گئی؟ جب سوال جواب کی باری آئی تو میں نے اس پر نورانی صاحب کی رائے جاننی چاہی۔ میرے اس سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے نورانی صاحب نے کہا کہ نہروکو اور بھی زیادہ کرنا چاہئے تھا مگر نہرو ایسا کیوں نہیں کر پائے؟نورانی نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا مگر نہر و کی مجبوری و بے بسی کا تذکرہ ضرور کیا۔ مولانا آزاد، رفیع احمد قدوئی کے علاوہ زیادہ تر بڑے کانگریسی رہنما جیسے راجندر پرساد ، سردار پٹیل، جی بی پنت فرقہ وارانہ نظریہ کےحامل تھے اور نہرو کو اس طرح کا تعاون نہیں مل پایا جیسا وہ چاہتے تھے۔ نورانی صاحب کے مطابق اس وقت کے بڑے بڑ ے کانگریسی وزرائے اعلیٰ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ رکھتے تھے۔ آج جس رام مندر کے نام پر ملک کی سالمیت اور سیکولر نظریہ خطرے میں ہے، اس کے لئے نورانی صاحب نے جی بی پنت کو قصوروار ٹھہرایا۔ پنت اُس وقت اُتر پردیش کے کانگریسی وزیرا علیٰ تھے۔
جہاں نورانی صاحب نے ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو کو سیکولر نظریہ کا حامل قرار دیا ، وہیں انہوں نے موجودہ وزیر اعظم پر شدت پسند تنظیم آر آیس آیس کے ایجنڈے کو تھوپنے پر بے چینی ظاہر کی۔جب 2014 میں انتخابات جیت کر مودی نے پہلی تقریر پارلیمنٹ میں کی، تب انہوں نے ہزار سال کی غلامی کی بات کہی جو کہ آر آیس کے موقف کی تائید ہے۔ ہزار سال کی غلامی کی افواہ اور نفرت انگیز پروپیگنڈا پھیلا کر شدت پسند ہندوتوا عناصر مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور اس سازش کے پیچھے ان کی یہ منشا ہے کہ مسلمانانِ ہند اور اسلام کی پوری تاریخ اور اس کی خدمات کونکارا جائے ۔ستم ظریفی دیکھئے کہ ملک کے وزیر اعظم آئین کے مطابق بولنے اور کام کرنے کے بجائےآر آیس آیس کےایجنڈے پر کام کر رہےہیں۔ تبھی تو موجودہ وقت کو نورانی صاحب نے مسلمانوں کے لئے سب سے بُرا وقت کہا۔اس موقع پر نورانی صاحب نے مسلمانوں کے سامنے اپنی متعدد تجاویزات بھی رکھیں اور ان کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ آئیسو لیشن‘‘ (isolation) یعنی کنارہ کشی یا علاحدگی کی پالیسی سے گریز کریں اور وہ اپنے غیرمسلم ہم وطنوں کے ساتھ مل کر کام کریں اور ’’انوولومنٹ‘‘ (involvement) کی پالیسی اپنائیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سے متعلق جو سب سے اچھی تحقیق ہے، اُسے رومیلا تھاپر جیسے غیر مسلم مورخوں نے کی ہے ۔ اس لئے مسلم تنظیموں کے دروازے تمام محکوم اور غیر مسلم کے لئے کھلے ہونے چاہیں ۔ انہیں نے کہا کہ مسلمانوں کو دلتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہے مگر اس طرح کے تاثر دینے سے گریز کرنا چاہئے کہ دلت مسلم اتحاد اکثریتی طبقہ کے خلاف بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ تحقیق اور ریسرچ کے میدان میں کام کریں۔نورانی صاحب کی بیشتر باتیں فکر انگیز اوربالکل دُرست ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی ذمہ داری سرکارکی ضرور ہےمگر اس کے ساتھ ساتھ ہم اورآپ بھی اپنی ذمہ داری سے منہ نہ موڑیں ۔ اسی لئے آج ملک کو ایک نہیں بلکہ بہت سارے اے جی نورانیوں کی ضرورت ہے۔
نوٹ :مضمون نگار جے این یو میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔
ویب سائٹ:abhaykumar.org