تجارت
ڈاکٹر ریاض احمد
بورڈ رومز، سوشل میڈیا اور عالمی منڈیوں میں مصنوعی ذہانت (AI) اس دہائی کا سب سے طاقتور نعرہ بن چکی ہے۔ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صنعتوں کو از سرِ نو تشکیل دے گی، پیداوار میں انقلاب لائے گی اور ہماری زندگی اور کام کے طریقے بدل دے گی۔مگر چمکتی سرخیوں اور بلند منڈی قدروں کے پیچھے، ماہرین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد ایک سنجیدہ سوال اٹھا رہی ہے،کیا اے آئی واقعی ایک انقلاب ہے — یا فریب جو مبالغے اور قیاس آرائی پر مبنی ہے۔
ہائپ کی حقیقت : حال ہی میں ایم آئی ٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق تین سو سے زائد کمپنیوں میں کئے گئے جنریٹو اے آئی منصوبوں میں سے 95 فیصد منافع کمانے میں ناکام رہے۔ زیادہ تر منصوبے کمپنیوں کی مالی کارکردگی پر ’’نہ ہونے کے برابر‘‘ اثر ڈال سکے۔اس کے باوجود حیران کن طور پر اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ سرمایہ کار اس پر کھربوں ڈالر ڈیٹا سینٹرز، جی پی یوز اور تحقیقی لیبارٹریوں میں صرف کررہے ہیں، اِس امید پر کہ ایک دن یہ سب منافع دے گا۔مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا غیر محتاط جوش اکثر بُری طرح ختم ہوتا ہے۔1990 کی دہائی کے آخر میں ’’ڈاٹ کام ببل‘‘ بھی کچھ اسی طرح پھولا تھا ،جب انٹرنیٹ کمپنیوں میں بغیر کسی واضح کاروباری ماڈل کے سرمایہ لگایا گیا اور جب 2000 میں یہ بلبلہ پھٹا تو پانچ کھرب ڈالر سے زائد کی مارکیٹ ویلیو صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔Pets.com،Webvan اور eToys جیسے نام ٹیکنالوجی کے نشے میں اندھے اعتماد کی عبرت ناک مثالیں بن گئے۔ اوپن اے آئی (OpenAI)جو ChatGPT کی خالق کمپنی ہےنے حال ہی میں اپنے آئندہ چار سالہ اخراجاتی تخمینوں میں 250 فیصد اضافہ کیا — یعنی تقریباً 80 ارب ڈالر کا فرق!اگر یہ کوئی پبلک کمپنی ہوتی تو اس خبر سے اسٹاک مارکیٹ میں بھونچال آجاتا، لیکن اے آئی کمپنیوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ہر خرچ کیا گیا ڈالر ایک ’’ڈیجیٹل جنت‘‘ میں سرمایہ کاری ہے۔دوسری جانب،’’Magnificent Seven‘‘کہلانے والی سات بڑی کمپنیوںایپل، مائیکروسافٹ، این ویڈیا، ایمیزون، میٹا، الفابیٹ اور ٹیسلا — کی مشترکہ حیثیت اب S&P 500 کے 34 فیصد حصے پر مشتمل ہے، جو صرف ایک دہائی پہلے 12 فیصد تھا۔ بینک آف انگلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ ان کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی قدر ایک خطرناک نظامی بوجھ بن رہی ہیں، خاص طور پر جب اے آئی سے وابستہ توقعات حقیقت سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ 2017-18–میں کرپٹو کرنسی کی دیوانگی نے بٹ کوائن کو 1000 ڈالر سے تقریباً 20,000 ڈالر تک پہنچا دیا تھا، لیکن پھر اچانک مارکیٹ گرنے سے اربوں ڈالر غائب ہو گئے۔اسی طرح چند سال قبل NFT کے جنون نے دنیا کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پکسلز پر مشتمل ڈیجیٹل تصاویر ملکیت کی نئی تعریف بن جائیں گی — مگر جلد ہی اس مارکیٹ کی قیمت 90 فیصد سے زیادہ گر گئی۔
اگر اے آئی کا بیانیہ کمزور پڑ گیا تو اس کے جھٹکے ریٹائرمنٹ اکاؤنٹس، پنشن فنڈزاور عالمی منڈیوں تک محسوس ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ امریکی معیشت اے آئی کے ’’امیدوں‘‘ پر قائم ہے نہ کہ مضبوط بنیادوں پر۔ اگر یہ امید کمزور پڑ گئی، تو بیروزگاری، مہنگائی اور رہائش کی بڑھتی لاگت ایک تاریک منظر پیش کرے گی۔
مورگن اسٹینلی کے مطابق، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے اے آئی پر سرمایہ کاری امریکی جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں تقریباً ایک فیصد اضافہ کر رہی ہے۔صرف 2025 میں ان کمپنیوں کی جانب سے 400 ارب ڈالر کے اخراجات متوقع ہیں۔ مفروضہ یہ ہے کہ اگر اخراجات جاری رکھے جائیں تو ایک دن منافع خود بخود سامنے آجائے گا — مگر جب زیادہ تر منصوبے خسارے میں ہیں تو یہ مفروضہ کمزور لگتا ہے۔اوپن اے آئی کی اپنی مالی رپورٹ بھی یہی تضاد ظاہر کرتی ہے۔ اندازاً 12 سے 13 ارب ڈالر کی آمدنی کے باوجود، کمپنی کو 13.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔اس وقت کمپنی ’’گردشی سرمایہ کاری‘‘ پر انحصار کر رہی ہے — این ویڈیا اوپن اے آئی میں سرمایہ لگاتی ہے، اوپن اے آئی این ویڈیا میں، اور یوں ایک دائرہ بن گیا ہے جو سرگرمی کا تاثر تو دیتا ہے، مگر حقیقی منافع نہیں۔
اب بات آتی ہے کارکردگی کی۔ ChatGPT اور Google Gemini جیسے ٹولز عوامی توجہ حاصل کر چکے ہیں، مگر ان کی درستگی اور اعتبار اکثر توقعات سے کم نکلتے ہیں۔
اکثر اوقات ایک سادہ سوال کے جواب میں یہ نظام پورے اعتماد سے غلط معلومات فراہم کر دیتا ہے۔یہ رجحان جسے’’Confidently Wrong AI‘‘کہا جاتا ہے، اُن کاروباروں کے لیے خطرناک ہے جو ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ معمولی غلطی بعض اوقات مہنگی تجارتی غلطیوں میں بدل سکتی ہےاور جب کوئی ٹیکنالوجی پیداوار بڑھانے کے لیے بیچی جا رہی ہو، لیکن نتیجے میں وقت ضائع کرے — تو یہ ترقی نہیں، تضیع ہے۔
فرض کریں اے آئی واقعی عام ہو جاتی ہے، تب بھی اس کے معاشی اثرات تشویشناک ہوں گے۔اگر مشینیں انسانوں سے تیز اور سستی کام کر سکتی ہیں تو لاکھوں نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔اگرچہ ماہرین کہتے ہیں کہ نئی ملازمتیں جنم لیں گی، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے ادوار تکلیف دہ اور غیر مساوی ثابت ہوتے ہیں۔ٹیکنالوجی رہنما یونیورسل بیسک انکم (UBI) کو ایک حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر امریکی جیسی منقسم معاشرت میں ایسا قدم سیاسی طور پر ناممکن لگتا ہے۔ ironyیہ ہے کہ جو سی ای اوز خودکاری کو ترقی کہتے ہیں، وہ خود اپنی جگہ مشینوں کو دینے کے لیے تیار نہیں۔
مالی اور مزدوری مسائل کے علاوہ، اے آئی کا ماحولیاتی بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ڈیٹا سینٹرز کے قیام کی دوڑ میں بے تحاشا پانی اور بجلی استعمال ہو رہی ہے۔پورے ماحولیاتی نظام دباؤ کا شکار ہیں — صرف اس لیے کہ کمپنیاں مصنوعی تحریریں، تصاویر، اور ویڈیوز پیدا کر سکیں جن کا انسانی زندگی پر حقیقی فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر یہ بلبلہ پھٹ گیا تو اثرات عالمی ہوں گے — سرمایہ کاریوں کا زیاں، نوکریوں کا خاتمہ، اور ٹیکنالوجی کے کھوکھلے وعدوں سے مایوسی۔اور اگر یہ بلبلہ نہ پھٹا تو شاید انجام اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو — ،ایک دنیا جو خودکاری، غلط معلومات اور معاشی عدم مساوات کے زیرِ اثر ہو۔وعدے اور خطرے کے درمیان اے آئی نہ خالص انقلاب ہے نہ محض فریب — بلکہ دونوں کا امتزاج ہے۔
یہ ٹیکنالوجی حقیقی صلاحیت رکھتی ہے، مگر اسے لالچ، قیاس آرائی اور کہانی سنانے کی صنعت نے ضرورت سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔یہ منظر کسی سائنسی نشاۃِ ثانیہ سے زیادہ جدید سونے کی دوڑ سے مشابہ لگتا ہے، جہاں سب لوگ ایسی دولت کی تلاش میں ہیں جو شاید موجود ہی نہ ہو۔ڈاٹ کام ببل، کرپٹو کرنسی کے زوال، اور این ایف ٹی کے انہدام نے ایک ہی نعرہ لگایا تھا —’’اس بار سب کچھ مختلف ہے!‘‘مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔حقیقی انقلاب تب آئے گا جب اے آئی منڈیوں نہیں بلکہ انسانوں کی زندگیوں میں بہتری لائے گی۔
جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہمیں یہ سوال بار بار دہرانا ہوگا:کیا ہم واقعی ایک تبدیلی کا عہد دیکھ رہے ہیں — یا پھر ایک اور عظیم فریب کا آغاز؟
[email protected]