محرم الحرام کا مقدس اور انقلاب آفرین مہینہ اُمت مسلمہ پر سایہ فگن ہے ۔ اس مقدس مہینے میں نواسہ ٔ رسول مختارﷺ حضرت امام حسینؑ نے اسلام کی بقاء ودفاع کیلئے اپنی اور اپنے رفقاء کی جانیں نچھاور کیں ۔ کم سواد یزید نے اسلام کے نام پر بسیار بدعاتِ قبیحہ اور رسوماتِ بد کو جاری کیا تھا ،امام عالی مقام ؑنے قیام کرکے یزید کو للکارا ، اس کی بیعت سے صاف انکارکیا اور یزیدی فکر ونظریہ کے خلاف قیام کرکے حقیقی اسلام کے خد وخال کو واضح کیا ۔ حضرت امام حسینؑ ہر مرحلے پر یزیدی فوج سے مخاطب ہوکر رجز پڑھتے ہوئے انہیں باطل کی حمایت کرنے سے باز آنے اور حق کی طرف واپس آنے کی دعوت دیتے ر ہے ۔ یہ آپ ؑ کے امر بالمعروف کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت حرؑ ،جس نے چند روز پہلے ہی امام ؑ کا طریقِ صدق وصفا روکا تھا ، عاشور کی صبح امام عالی مقام ؑ کے خیمے میں داخل ہوکر ابدی سعادت سے سر فراز ہوجاتا ہے۔ حضرت حرؑ نتائج سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود یزیدی فوج کو خیر باد کہتا ہے جہاں اُسے افسری بھی حاصل تھی اور دیگر آرام و آسائش اور جاہ وحشمت کی تمام تر سہولیات بھی ، پانی اورخورد نوش کی فراوانی بھی تھی جب کہ خیمہ امام ؑ میں تمام تر سختیاں اور تکلیفیں تھیں، یہاں تک کہ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں تھا ۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حضرت امام حسینؑ شب عاشور کواپنے گنے چنے ساتھیوں سے فرماتے ہیں کہ شمع بجھائو اور آپ میں سے جو واپس جانا چاہتا ہے وہ جاسکتا ہے ، لیکن ایک جاں نثار کھڑا ہوتاہے اور کہتا : اے مولا !اگر مجھے ستربار بھی مارا جاے گا تب بھی آپ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ یزید کی بدبخت فوج دنیا کی لالچ سے اس قدر اندھے تھے کہ حق و باطل میں فرق کرنے سے قاصر تھے ، اس کے پاس یہ بینائی بھی نہ تھی کہ وہ نواسہ ٔ رسول ؑ پر فوج کشی کر کے ابدی ملعونیت کای تاریکیاں مول رہے ہیں جب کہ امام ؑ کے جانباز ساتھیوں پر حق و صداقت کی راہیں روشن تھیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ؑ کی اطاعت و صحبت میں رہ کر حقیقی اسلامی و انسانی اقدار کی راہیں منور ہوجاتی ہیں ، دنیا کی عارضی و فانی جاہ وحشمت ، ٹھاٹ بھاٹ ،اور شان و شوکت کی قدر وقیمت نہیں رہتی ، اسلامی کردار کو ہر چیز پر ترجیح مل جاتی ہے، یہاں تک کہ ان روح پرور اقدار کے تحفظ کیلئے جان تک قربان کرنے سے گریز پائی نہیں کی جاتی ۔ اس کے مدمقابل یزید یا یزید جیسے جابرین کی سربراہی قبول کر نے والا مجرم محض حصول دنیا کے لئے اپنے تمام انسانی واخلاقی اقدار کو قربان کر جاتا ہے، یہاں تک کہ درہم و دینار کی قیمت پر دین سے بھی روگرداں ہو جاتا ہے ۔ غرض حضرت امام حسینؑ کی تحریک کا اہم پیغام یہ ہے کہ حق و صداقت کی راہ پر قائم ودائم رہنے کیلئے حقیقی رہبر کا انتخاب لازمی ہے کیونکہ ایک حقیقی رہنما کی پیروی ہی ابدی سعادت کی ضامن ہوتی ہے اور ایک حقیقی لیڈر ہی صالح انقلاب برپا کرسکتا ہے ۔
نوٹ : کشمیر سے تعلق رکھنے والا مضمون نگار جامعۃ المصطفیٰ ؐ العالمیہ ایران میں زیر تعلیم ہیں۔