سبزار احمد بٹ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اتحاد و اتفاق میں طاقت ہے جبکہ نفاق اور انتشار میں کمزوری ہے۔ گھر سے لیکر ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح تک اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ جن گھروں ، جن ملکوں اور جن اقوام میں اتحاد قائم رہتا ہے وہ گھر ،وہ قوم اور وہ ممالک ترقی کی مختلف منزلیں طے کر کے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں جبکہ جن گھروں ، ملکوں اور قوموں میں پھوٹ پڑتی ہے، ان کا نام و نشان مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔کسی بھی منتشر قوم اور ملک کو زیر کرنا بہت آسان ہوتا ہے جبکہ کسی بھی متحد قوم کو قابو میں کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ اتحاد ایک دیوار کی مانند ہوتا ہے جب تک دیوار سالم ہوتی ہے، اس سے ایک اینٹ نکالنا کیا بلکہ ہلانا بھی ناممکن ہوتا ہے، لیکن دیوار گرنے کے بعد کمزور سے کمزور انسان بھی اپنے حصے کی اینٹ لے جاتا ہے۔موجودہ دور میں جہاں پوری دنیا منتشر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے وہاں امت مسلمہ میں کچھ زیادہ ہی انتشار اور پھوٹ پڑ گئی ہے ،جس کی وجہ سے امت مسلمہ پوری دنیا میں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔غیروں نے امت مسلمہ کو اپنے بس میں کر لیا ہے ۔اس قوم میں نہ ہی ہمت استقلال کی کمی ہے اور نہ ہی علم و حکمت کی،نہ ہی افرادی قوت کی کمی ہے اور نہ ہی نئی نئی سائنسی ایجادات کی۔کمی اگر ہے تو اتحاد و اتفاق کی۔افسوس کی بات ہے کہ جو قوم ایک خدا کو ماننے والی ہو ۔جس قوم کا کعبہ ایک ہو ،جس قوم کا قران ایک ہو اور جو قوم ایک نبی کے اسوہ ٔحسنہ پر چلنے والی ہو، اس میں نفاق کیسا اور کیونکر ہے ۔قران مجید میں بھی اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے قران مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں مفہوم ’’اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پُھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خُدا کے احسان کو تو یاد کرو، جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خُدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹّی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خُدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خُدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔‘‘اتنا ہی نہیں پیارے نبیؐ نے بھی امت کے اتحاد و اتفاق پر زور دیا ہے، پیارے نبیؐ فرماتے ہیں:
تین چیزوں کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا دل کینہ نہیں رکھتا –یعنی قلبِ مسلم میں کینہ اور خیانت پیدا نہیں ہوتی:اللہ کیلئے خالص عمل، مسلم حکمرانوں کیلئے خیر خواہی اور ملتِ اسلامیہ کا التزام، بے شک دعا مسلمانوں کی جماعت کو شامل ہوتی ہے )
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی دعائیں سب مسلمانوں کیلئے ہوتی ہیں جو انہیں شیطانی چالوں سے محفوظ بناتی ہیں اور گمراہ نہیں ہونے دیتیں، ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
ملت مسلمہ میں اختلافات ہوسکتے ہیں بلکہ ہیں اور اختلافات کا ہونا کوئی کمزوری یا عیب نہیں ہے ،اختلافات سے تحقیق کے راستے کھلتے ہیں لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب یہ اختلافات باہمی نزاع کی وجہ بن جاتے ہیں جب ان اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کیچڑ اچھال رہا رہا ہے۔
حال ہی میں ایک مولوی صاحب کے متنازعہ بیان پر انتشار پیدا ہوا ہے۔ تمام لوگوں نے مذکورہ بیان کی مذمت کی ہے اور موصوف نے اپنے بیان پر معافی بھی مانگ لی ہے۔ معافی مانگنے کے بعد اب امید یہی کی جاتی ہے کہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد معاملے پر مزید بحث کی گنجائش مکمل طور پر ختم جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بار بار اس معاملے کو اچھالنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔ ہم سب کو اولیا کرام کا احترام کرنا چاہئے اور ان کا احسان مند رہنا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں سچا راستہ دکھایااور کبھی بھی اولیاءاللہ کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے، لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ کسی سے بھول نہ ہو جائے یا کسی کی زبان نہ پھسلے ۔خطیب صاحبان سے بھی بصد احترام گزارش ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور اپنی ہر بات سوشل میڈیاپر نہ ڈالا کریں۔ انتشار ہم سب کے ساتھ خطرہ ہے۔
یہ امت نوے فی صد معاملات میں متفق ہے اور صرف چند معاملات میں اختلاف ہے لیکن حیرت ہے کہ نوے فیصد معاملات کو چھوڑ کر یہ امت باقی ماندہ معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے اور اس سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔اس امت میں برداشت کی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اختلاف رائے کا ہونا کوئی عیب نہیں ہے، عیب اگر ہے تو وہ مخالف رائے کو برداشت نہ کرنا ہے ۔اس امت کو یہ درس دیا گیا تھا کہ غیروں کے لیے بھی اپنے اندر نرمی ،ہمدردی اور برداشت کی قوت موجود ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کا مسلمان اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ اسے مخالف رائے سننا بالکل بھی برداشت نہیں ہے۔ غیروں کی نظروں میں ہم سب مسلمان ہیں، چاہے ہم کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، غیر اگر کوئی بھی قدم اسلام کے خلاف اٹھاتے ہیں تو وہ مسلمان کے نام پر اٹھاتے ہیں ،وہ جب ہماری گنتی کرتے ہیں تو تمام تر مسلمانوں کو گنا جاتا ہے ۔بس مسلمان اگر مسلمان نہیں ہے تو صرف ایک دوسرے کی نظروں میں نہیں ہے ۔مسلمان کو مسلمان کا بھائی کہا گیا ہے، چاہے ایک مسلمان دنیا کے ایک کونے میں اور دوسرا مسلمان دنیا کے دوسرے کونے میں کیوں نہ رہ رہا ہوں یہاں تک حدیثوں میں آیا ہے کہ کوئی بھی مسلمان تب تک کامل مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ وہی چیز اپنے لیے پسند نہ کرے جو اپنے بھائی کے لیے پسند کرتا ہو۔مسلمان مسلمان کا خیر خواہ ہونا چاہئے اور خیر خواہی کے اس جذبے کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ائمہ مساجد پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امت کو جوڑنے کا کام کریں۔ اختلافی مسائل کو چھوڑ کر بنیادی تعلیمات پر زور دیں، جن پر پوری امت کو اتفاق ہے۔معاملات پر زور دیا جانا چاہئے، معاملات پر ایک تو اتفاق ہے اور دوسرا ہمارے معاملات درست بھی نہیں ہیں۔عبادات تو مسلمان کرتے ہیں لیکن معاملات میں سدھار نہیں آیا رہا ہے۔ آجکل مسلمانوں میں جھوٹ،دھوکہ دہی،سودخوری، رشوت، اور بد دیانتی جیسی بیماریوں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ہمارے معاملات اور ہمارا اتحاد دیکھ کر غیروں کو ہماری اصلیت کا پتہ چلتا ہے ۔غیر ہماری تعلیمات سے واقف نہیں ہیں، وہ ہمارے کردار ،معاملات اور ہمارے باہمی تعلقات کو ہی دیکھتے ہیں۔اس لیے اگر ہم اپنی تعلیمات سے ہٹ کر اپنا کردار نبھاتے ہیں تو اس سے ہمارا نقصان ہوتا ہی ہوتا ہے بلکہ دین اسلام کے تئیں بھی لوگ بد ظن ہوجاتے ہیں اور وہ اسلام کے قریب آنے کے بجائے اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ہمارے خطیب حضرات خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ،محض اختلافی مسائل پر بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے نظریہ کو بالکل درست اور باقی نظریات کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں، کسی دوسرے انسان کے لیے یا مخالف نظریہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رکھنا ہی دراصل نقصان کا حامل ہوتا ہے ،یہ امت اگر آج بھی اختلافات سے باہر نہیں آئے تو اس امت کے لیے کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ امت کے ذمہ داران کو امت جوڑنے کا کام کرنا چاہئےاور مخالف رائے سننے اور برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کو دوسرے کی فکر اور ہمدردی ہونی چاہیے۔ امت ایک جسم کی طرح ہے ،جسم کے کسی بھی انگ میں اگر درد ہو گا تو باقی جسم اس انگ سے لاتعلق کیسے ہوسکتا ہے ۔اگر سر میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے ،آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں ،ہاتھ اور منہ دوائی لینے میں مدد کرتے ہیں اور دل بھی رنجیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سے اگر پیر میں رخم لگتا ہے تو ہاتھ اس پر پٹی باندھے ہیں یعنی ایک اعضاء دوسرے سے لاتعلق نہیں ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے امت میں ایک دوسرے کے تئیں محبت اور ہمدردی میں کمی واقع ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے تئیں بد گمانیاں بڑھتی جا رہی ہیں، جس سے امت میں پھوٹ اور انتشار پڑ گیا ہے۔ اسی انتشار کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آج مسلمان ظلم اور بربریت کے شکار ہیں ،مسلمان اگر ایک ہو جائیں گے تو دنیا کے بہت سارے مسائل بناہ کسی لڑائی جھگڑے کے ہی حل ہو جائیں گے ۔دنیا کے بہت سے ظالم حکمرانوں مسلمانوں کا اتحاد دیکھ کر ہی ظلم اور بربریت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ امت مسلمہ کی طاقت ایک ہونے میں ہے تب کوئی بات بن سکتی ہے بقولِ شاعر
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیاکام بنے !
امت کے ایک ایک فرد کو اتحادِ امت کے لیے کام کرنا چاہے، نزاع اور انتشار کی باتوں کو دفن کر دینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے آج نفرت پھیلانے والی باتوں کو زیادہ پھیلایا جاتا ہے۔ علمی اختلافات کو علمی انداز میں سلجھایا جاسکتا ہےلیکن بد قسمتی سے آئے روز سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالاجارہا ہے۔ذہنوں میں اس بات نے جگہ بنا لی ہے کہ اگر میری بات نہیں مانی گئی تو میری عزت چلی جائے گی۔ہمارے خطیب حضرات نے یہ اپنی انا کا سوال بنایا ہے۔لیکن ابھی بھی وقت ہے تمام مکتبہ فکر کے ذمہ داران کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیںاور اختلافی مسائل کو ایک مدت تک پسِ پشت ڈال کر امت میں اتحاد و اتفاق پر زور دینا چاہیے تاکہ غیر ہماراتماشہ نہ بنائیں ۔یہ وقت کی پکار ہے اور ہمیں اس پکار کو لبیک کہہ کر اپنے دلوں کو کدورت سے پاک کر کے ہر مسلمان کے لیے اپنے دل میں جگہ رکھ لینی چاہیے اور اختلاف رائے کو مثبت پہلو میں لینا چاہئے ۔ہمارے مقاصد جلیل القدر اور اعلیٰ ہونے چاہئیں نہ کہ حقیر اور کمتر۔ہمیں ان چھوٹے چھوٹے اختلافات سے اوپر اٹھنا چاہیے اور اپنے اصل مقصد کی طرف راغب ہونا چاہئے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بھول چکے ہیں ،ہمیں پھر ایک بار تاریخ کے پنّے پلٹنے چاہئیں تاکہ ہمیں اپنی اصلیت کا پتہ چل جائے کیونکہ ہمیں بہت ساری منزلیں طے کرنی ہیں ۔بقولِ شاعر
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
رابطہ۔7006738436