سید سرفرا ز احمد
اگر جھوٹ اور سچائی کا موازنہ کیا جائے تو جھوٹ عارضی طور پر سچ کا روپ اختیار تو کرلیتا ہے لیکن جب سچائی سامنے آتی ہے تو جھوٹ کھسیانی بلی کی طرح اپنا راستہ بنالیتا ہے۔ پہلے پہل دی کشمیر فائلس کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کشمیری پنڈتوں کے قتل عام کو مسلمانوں سے جوڑا گیا ،حالانکہ یہ فلم بھی آدھا سچ اور آدھا جھوٹ پر مبنی تھی جو صرف کشمیری پنڈتوں کے دلوں کو موہ لینے کیلئے ہوا کھڑی کی گئی تھی ۔ ابھی ایک اور فلم دی کیرالا اسٹوری کے نام سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ پہلے اس فلم کے ٹیزر میں بتایا گیا کہ 32 ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلم بناکر اور انکی ذہن سازی کرتے ہوئے دہشت گردی گروپس یا داعش تنظیم سے جوڑنے کا دعوی پیش کیا گیا جیسے ہی یہ ٹیزر جاری ہوتا ہے، اس فلم کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہوجاتی ہے اور اس پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کئے جاتے ہیں۔ کانگریس کے سرکردہ قائد ششی تھرور نے اس کو محض ایک پروپگنڈہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اگر یہ حقیقت ہے تو اسکے شواہد پیش کرنے پر انعام دینے کا اعلان کیا ،بعض نے ثبوت پیش کرنے پر ایک کروڑ کا انعام رکھا ۔جیسے جیسے اس فلم پر سوال اٹھنا شروع ہوئے اچانک اس فلم کے ہدایت کار سودیپتو سین نے اپنے دعوے کا رخ پھیردیا اور کہانی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے یوٹیوب کے تعارفی متن میں 32 ہزار لڑکیوں کے تذکرے کو حذف کرتے ہوئے تین لڑکیوں کی کہانی تحریر کردیا گیا۔اب ہم اور آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کسطرح تین لڑکیوں کی جگہ 32 ہزار کو پیش کیا گیا تھا۔اب کچھ سوال تو لازماً اٹھیں گے کہ آخر اتنا بڑا کھلا تضاد پہلے پہل کیوں پیش کیا گیا ؟کیونکہ تین اور 32 ہزار میں بہت زیادہ فرق ہے۔اب اگر فرض کرلیں تین لڑکیوں کی جگہ 32 ہزار بھی ہندو لڑکیاں مسلمان ہوکر دہشت گرد تنظیموں کے جھانسہ میں پھنس جاتی ،تب بھی سوال ملک کی مرکزی حکومت پر ہی اٹھتے ۔پہلا سوال تو یہی اٹھتا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں لڑکیاں دہشت گرد تنظیموں کے نرغہ میں پھنس رہی تھی تو ملک کی حکومت کیا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی؟ملک کی سرکاری ایجنسیوں کی فی الحال اتنی باریک بیں نظر ہے اور عقاب سے زیادہ تیز ہے کہ ملک کے اندر کوئی بھی حساس معاملہ پیش آتا ہے تو فوری کاروائی کی جاتی ہے،تو کیا اتنے بڑے حادثہ سے ملک کی سرکاری ایجنسیاں کیسے بے خبر تھی؟جبکہ خود موجودہ حکمران یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ملک میں دہشت گردی کو ہم نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ،تو سوال یہی ہےکہ اتنی بھاری تعداد میں ملک کی لڑکیاں آپ کی نظروں کے سامنے دہشت گردی میں کیسے ملوث ہوگئی؟ اگر ہم ملک کی قومی میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں توملک کی قومی و گودی میڈیا کا آج بھی وہی حال ہے، جسطرح نو برسوں سے چلاآرہا ہے جیسے ہی اس فلم کا پہلا ٹیزر سامنے آیا گودی میڈیا نے ایر کنڈیشنر اسٹوڈیو میں چار الگ الگ قسم کے جوش و ولولہ سے بھرے نیم داشوروں کو بٹھاکر لوجہاد پر لڑائی شروع کرادی اور خوب لوجہاد پر بحث و مباحثہ ہونے لگا ،گودی میڈیا کی تنگ نظری اور کم ظرفی کا یہ عالم ہےکہ وہ ملک کی سلامتی اوردرپیش عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے، مسلمانوں کے خلاف اور فلم کی تائید میں غیر محسوس طریقے سے حکومت کی تشہیر کررہی تھی، جیسے ہی فلم پروڈیوسر نے 32 ہزار لڑکیوں کی جگہ 3 لڑکیوں کایوٹرن لیا،تو دعوؤں اور حقیقت کی قلعی کھل گئی۔
فلمساز اور ہدایت کار اب میڈیا میں یہ کہہ کر اپنا دفاع کررہے ہیں کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے ۔اب نہ وہ 32 ہزار لڑکیوں کے دہشت گرد بننے پر بات کررہے ہیں اور نہ انکا ثبوت دینے پر بات کررہے ہیں۔ حالانکہ تین روز قبل ہی پروڈیوسر سے سوال پوچھا گیا تھا کہ 32 ہزار غیر مسلم لڑکیوں کے مسلم بنکر دہشت گرد ہونے کی کیا حقیقت ہے تب پروڈیوسر نے کہا تھا کہ 32 ہزار کیا تلاش کرنے پر پچاس ہزار بھی مل جائیں گے اور پروڈیوسر منطقی باتیں کہہ کر 3 اور 32 ہزار لڑکیوں میں بناء فرق بتائے اپنی بات رکھ رہے تھے ،جس سے جھوٹ کا پلندہ صاف ظاہر بھی ہورہا تھا ۔جس طرز پر یہ فلم بنائی گئی وہ ایک معمولی سا جھونکہ ہے صرف تین لڑکیوں کی کہانی کو پورے ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں بتایا جاسکتا، اگر بتایا بھی جائے گا تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟اس فلم کے ذریعہ مذہب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا تھا یا اس کے ذریعہ سستی شہرت حاصل کرنا مقصود تھا
کیوں سنسر بورڈ ایسے متنازعہ فلموں پر بناء تحقیق کیئے ریلیز کی جھنڈی دکھاتی ہے۔ بہر حال جس فلم کی بنیاد ہی جھوٹ پر ٹکی ہوئی ہو اور فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو ہی پتہ نہ ہو کہ اصل کتنی غیر مسلم لڑکیاں دہشت گردی سے وابستہ ہوئی ہوں، اسکا مطلب صاف ہے کہ یہ فلم ایک من گھڑت کہانی پر مشتمل ہے، جسکے جھوٹ کا پردہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔
[email protected]>