مختلف اخبارات ورسائل کامطالعہ کرنے والے قارئین کرام فلسفہ، مذہب ،سائنس ،کھیل کود کے ساتھ ساتھ جُرم ،ظلم و جبر ، قتل وغارت گری اور ناانصافی واستحصال کے بارے میں کئی ادیبوں اور دانشوروں کے فکری تاثرات اوررشحات قلم اکثروبیشتر پڑھتے رہتے ہیں ۔ کبھی تاریخ واساطیر اور کبھی سنجیدہ نگارش بھی زیر مطالعہ آتاہے ۔یہ سب تو روزمرہ میں ہوتا رہتاہے مگر زندگی کا ایک ہلکا پھلکا پہلو (Lighter side of the life) بھی ہے اُس سلسلے کا ہلکاپھلکا اور طنز ومزاج یعنی فکاہی ادب گرچہ لکھاجاتاہے مگر بہت کم لکھاجاتاہے ۔موجودہ ناگفتہ بہہ حالات اورظلم وناانصافی نے آج کے انسان کوکیا دیاہے۔ نام نہاد دنیاوی ترقی اور ننگ انسانیت تمدن کی معراج ، زرکثیر ،اخلاقی تباہی ، برہنگی (Nudity) بے راہ روی ، ڈرگ ، بازارحُسن کے جلوے ، صنف نازک کا استحصال اورکچھ طبقوں یا اقلیتوں کے لئے خوفزدہ زندگی ، سماجی نابرابری ، استحصال ، قتل وغارت گری اور آتش زنی سے شاہ کو گدا اور کروڑپتی کو زیرولیول پرلے آنے کی منصوبہ بند سازشیں یادوسرے الفاظ میں غم واندوہ کی برکاتیں ، حزن وملال کی سوغاتیں ،بیم ورجاء کی بوچھاڑیں اور آہ وآنسو کی برساتیں ۔ لیکن اگر اس دردبھری زندگی میں کچھ تبسم اور ہنسی مذاق کی پھواریں ،وقتی طورہی سہی برستی ہیں تویقیناً ایک انسان عارضی پلوں کے لئے اپنی تلخی ، بپتا اور بوجھل زندگی سے باہر آجاتاہے۔ اس وادیٔ دلسوز میں ویسے بھی ایک انسان کوہنسنے اور خوش ہونے کے کتنے موقعے نصیب ہوتے ہیں ۔جس بستی میں معصوم شہیدوں کے لئے سنگ مزار روز ہی نصب ہوتے ہوں اُس بستی میں مسرت سوچ کرہی قدم رکھتی ہے ۔مختصر ہی سہی مگر خوشی کے وہ پل کتنے میٹھے ،شیریں اوردمساز ہوتے ہیں ، میں کیا عرض کروں ،ماشاء اللہ آپ کا تجربہ کافی عمیق ہے ۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری میں فیچر فلم پروڈیوسربرجاٹیہ بردرس بہت مشہور ہیں کیونکہ انڈسٹری میں اُن کی بنائی ہوئی فلمیں کافی شہرت پاچکی ہیں اور بکس آفس پر بھی سُپر ہٹ ثابت ہوچکی ہیں۔اُن کی بنائی ہوئی فلمیں جیسے سُونینا، ترانہ ، ساون کو آنے دو ، ہم آپ کے ہیں کون ، ایک وِواہ ایسا بھی وغیرہ کافی دیکھی بھی گئیں اور لوگوں نے اُن کو کافی سراہابھی ۔ آخرالذکر کے نام سے مجھے ایک ایک دلچسپ اور غیر معمولی منعقدکئے گئے امتحان کے بارے میں اس لئے یاد آیا کیونکہ میں ذاتی طور پر اُس امتحان کے ساتھ بالواسطہ وابستہ تھا۔ سن انیس سونواسی اور نوے میں تحریک آزادی شباب پر بھی ۔ پھر شباب پر بڑھاپا چھاگیا جس کی برملا وجوہات سب کو معلوم ہیں ۔سانپ کے کاٹے کا علاج ممکن ہے مگر جب اپنا کاٹتاہے تو مضروب کوپانی مانگنے کی حاجت نہیں رہتی ۔ اس بات کی کاٹ کو وہی بے گناہ لوگ بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں جن کے چوپائے ہتھیائے گئے ،پھلوں کے درخت کاٹ ڈالے گئے ، اناج کو جلایا گیا اور جن کو اپنا گھربار چھوڑ کر جان بچانے کی خاطر ہجرت کرناپڑی ۔ بقول ذیشان ؎
یہاں ہے اپنوں سے محتاط رہنے کی حاجت
یہاں خلوص کے پردے میں وار ہوتاہے
اور وہ وار کس انداز سے ہوتے ہیں اُس کا مشاہدہ آپ روز ہی کرتے ہیں ۔
حالات ایسے تھے کہ امتحان ہوہی نہیں سکتے تھے اس لئے ادارے کے چیئرمین صاحب جو جموں میں تھے کو ایک مبسوط رپورٹ بھیج دی گئی کہ امتحان کرنا کیونکرممکن نہیں ہے مگر چیئرمین صاحب کا اصرار تھاکہ امتحان کرنا ہی کرناہے بلکہ مجھے الگ سے بُلا کر سمجھا یا کہ امتحان کو کسی بھی صورت میں منعقد کرناہے۔ بہرحال حکم حاکم کے آگے سر تسلیم خم کرناپڑا۔ ہم نے بچوں کے رول نمبر سلپ اجراء کئے ، امتحانی مراکز کاتعین کیا اور مارچ کے مہینے میں ساری وادی میں دسویں جماعت کا امتحان ہر مقرر کردہ جگہ پر ہوگیا۔ وہ امتحان یونیورسٹی اور بورڈ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا منفرد امتحان تھا جس میں کامیابی کی شرح 98فیصد سے زیادہ رہی اور جس میں سب کی حسرتیں پوری ہوگئیں ۔کئی برسوں سے رُکے پڑے لڑکے لڑکیاں ، دفتری پرموشن پانے کے متمنی ،ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا ہوا مختلف محکمہ جات کا زنانہ سٹاف ، سب کے دلدر دُور ہوگئے۔اُس امتحان کی خاص بات یہ تھی کہ اُس میں دیورانی کے بجائے نند ، بہو کی جگہ ساس اور بیٹے کی جگہ اس کا بڑا بھائی امتحان میں بیٹھا تھا ۔ امتحانی مراکزمچھلی بازاروں کا نقشہ پیش کررہے تھے۔ دوران امتحان ہم نے کئی امتحانی مراکز کا دورہ کیا اور ہر جگہ یہی مشاہدہ ہوا کہ ؎
’’میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا ‘‘
بچے ہمیں دیکھ کر مکرر غزالخواں ہوگئے
گھوم گھام کراور شرم سے آنکھیں چُرا کر ہم سول لائنز کے ایک امتحانی مرکز میں گئے ۔ ہماری موجودگی کے باوجود نوٹ ، گائڈ، کتابیں بدستور ہمارا منہ چڑاتی رہیں ۔ ایسے ہی سرسری رائونڈ میں ہم نے ایک قطار میں ایک طالب علم کو بڑے آرام اور ڈھنگ سے بیٹھے دیکھا۔ چونکہ اُس کے پاس کوئی قابل اعتراض مواج نہیں تھا اس لئے اُس کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم اس کے قریب گئے تو ہم نے اس کی ٹانگوں کے بیچ ڈیسک کے نیچے ایک اور آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ ہم نے حیرانگی سے اُس کی ہیت کذائی کے بارے میںپوچھا تو بقول نقش لائیلپوری ؎
اپنی آنکھوں کوبنا کر یہ زبان
کتنے افسانے سنا لیتے ہیں
اس نے بڑی معصوم سی صورت بناکر کہا کہ اس کا لڑکا دل کا مریض ہے اس لئے وہ ڈیسک کے نیچے اس لئے بیٹھا تھا ۔تاکہ لڑکا آرام سے لکھتا رہے اور وہ بیٹھ کر اس کے دل کی جگہ کو سہلاتا رہے مبادا کہ وہ گھبراہٹ کاشکار نہ ہوجائے ۔ ہم نے ڈیسک کے نیچے بنی ہوئی جگہ میں دیکھا وہاں ایک کھلا پڑا گائڈ موجود تھا۔دراصل وہ آدمی اپنے بیٹے کو اس عجیب سچویشن میں بیٹھ کر جوابات ڈکٹیٹ کررہا تھا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے مگر عاشقانہ انداز دیکھئے کہ نقل مارنے میں کیا دُلربائی تھی ۔ اب اس بارے میں ہم کیا غرض کرسکتے ہیں بجز اس کے کہ ؎
زبان تقریر سے قاصر قلم تحریر سے عاجز
نہ پوچھو ہم سے کیا دیکھاہے ہم نے بزمِ رنداں میں
تو ایسی تھی وہ بزمِ رنداں اورایسا تھا وہ امتحان کے نام پر ایک امتحانی میلہ جس کی یاد ہمعصر لوگوں میں اب بھی تازہ ہوگی خصوصاً اُن لوگوں کو جنہوں نے موقعے کا خوب فائدہ اٹھا کر بازی مارلی تھی اور امتحان منعقد کرنے والے ادارے کو چوں چوں کا مربہ بنا کر اپنی من مانی کی ۔٭٭
رابطہ:- پوسٹ باکس :691
جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995