نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام جنم بھومی بابری مسجد کی متنازعہ زمین سے متعلق معاملے کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی ہے ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی تین رکنی بینچ نے پیر کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جنوری، 2019 میں یہ معاملہ مناسب بینچ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ معاملے کی جلد سماعت کی دلیلوں کے درمیان جسٹس گگوئی نے کہا، ''ہماری دیگر ترجیحات بھی ہیں''۔ [؟][؟]معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ یا نئی بینچ کے قیام کے سلسلے میں کوئی فیصلہ آج نہیں کیا گیا۔سپریم کورٹ نے 27 ستمبر کو اسماعیل فاروقی معاملے میں اپنے 1994 کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور مسلمان کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ کھلے میں بھی ہے ۔اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی تین رکنی بینچ نے 1۔ 2کی اکثریت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسماعیل فاروقی معاملے میں اس کورٹ کا 1994 کا فیصلہ تحویل اراضی سے منسلک اور خصوصی تناظر میں تھا۔ ایودھیا زمین تنازعے کی سماعت میں اس اس نکتے کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النظیر ہیں۔ جسٹس بھوشن اپنی اور چیف جسٹس کی طرف سے فیصلہ سنایا جب کہ جسٹس عبدالنظیر نے اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے عدم اتفاق کا فیصلہ سنایاسپریم کورٹ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے 30 ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیاں دائر گئی تھیں جن پر عدالت عظمی میں سماعت کی جانی ہے ۔ سپریم کورٹ نے آج بھی یہ واضح کیا کہ مقدمہ کی سماعت کے اگلی تاریخ جنوری 2019 میں مقرر کی جائے گی۔الہ آباد ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ نے 1۔ 2 کی اکثریت والے فیصلے میں کہا تھا کہ متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریقوں سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا میں برابربرابر بانٹ دیا جائے ۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ آٹھ سال سے یہ معاملہ چل رہا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ 16 ویں صدی میں تعمیر بابری مسجد کو 1992 میں لاکھوں کارسیوکوں نے شہید کردیا تھا۔انہوں نے اسے رام کی پیدائش کی جگہ کے طور پر بتاتے ہوئے یہاں رام مندر تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ معاملہ ہمیشہ بحث میں رہا ہے اور 2014 کے عام انتخابات میں یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور کا ایک اہم موضوع بن گیا تھا۔یو این آئی۔