بے شک والدین پر اپنی اولاد کی تربیت واجبی ہے،اس لئے وہ والدین ہرگز قابل ِ تعریف نہیں ہوسکتے ،جنہوں نے اپنی اولاد کو جائز طریقے پر کمانے اور ہر سطح و ہر معاملے میںاعتدال کے ساتھ زندگی گذارنے کی تعلیم و تربیت سے محروم رکھا ہو۔جبکہ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لئے کوئی بھی عطیہ اُس سے بڑھ کر نہیںکہ اُن کی بہتر تعلیم و تربیت کرے۔ظاہر ہے کہ انسان کی تربیت ہی اُس کو اچھے اوربُرے عادات کا خوگر بنا دیتی ہے ۔ اگر ایک بچہ دانت سے ناخن کاٹتا ہے اور اس کو ابتداءمیں میں نہ سمجھایا گیا اور روکا گیا تو وہ تا عمر اس عمل کو کرتا رہے گا اور یہ عادت اس کی رُسوائی کا سبب بھی بن سکتی ہے،اسی طرح پیر ہلانا ، ناک میں اُنگلی ڈال کر گندگی صاف کرنا ، بڑوں کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھنا ، کھاتے وقت یا چائے پیتے وقت منہ سے چپڑ چپڑ کی آواز نکالنا ، چلتے وقت پیر گھسیٹنا ، چیخ چیخ کر بات کرنا ، نازیبا طریقے پر پیشاب کرنا ، استنجا نہ کرنا اور نا پاکی کی حالت میں رہنا ، بڑے بوڑھوں کی قدر نہ کرنا ، ہر چیز کے لئے ضد کرنا اور صبح دیر تک سونا ، یہ سب عادتیں بچپن میں اگر لگ جائیں تو بوڑھاپے تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں ،کیونکہ جسم کی گندگی چھوٹ جاتی ہے مگر عادت نہیں چھوٹتی ہے ۔یہی صورت نشے کی ہے،جس شخص کو کسی بھی نشہ آور چیز کی لت لگ جائے وہ سب سے پہلے اخلاقی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی صحت کو بُرباد کر دیتا ہے ۔اگرچہ تمام مذاہب میں منشیات کے استعمال حرام ہے اور ان کو تیار کرنا،ان کا کاروبار کرنااور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانا بھی مجرمانہ فعل ہے۔
لیکن ستم ظریفی یہ کہ شراب بنانے کی صنعت دنیا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک بڑی صنعت شمار ہوتی ہے،جبکہ دیگر منشیات بھی مخفی انداز میںاب منافع بخش صنعتوں کی شکلیں اختیا ر کرچکی ہیں۔اگرچہ اسلامی ممالک میں شراب پینا مسلمانوں کے لئے تو ممنوع ہے مگرحقیقت میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے ۔ مشاہدے میں آرہاہے کہ منشیات استعمال کرنے والے لوگ جب نشے میں دھت ہوتے ہیں تو اُن میں جنسی ہیجان پیدا ہو جاتی ہے اور وہ رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کر دیتے ہیں اور قتل و جنسی جرائم کے بھی مرتکب ہورہےہیں ۔ درجنوں نشہ والی ادویات اور ڈرگز ہیں، جن کی لت میں انسانوں کی بڑی تعداد خود اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو برباد کر رہے ہیں ۔ افیم ،جو ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے،لیکن نشہ کرنے والوں کے لئے ایک پُر کشش چیز بھی ہے، جبکہ ہیروئن ، شیشہ ، وائلن ، وڈ ، چرس ، گانجا ، بھنگ اور گٹکے کے نشے نے بھی ہر عمر کے لوگوں کو اپنا عادی بنا دیا ہے ۔جس سے نشہ کرنے والے کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور وہ چند سال میں مختلف لا علاج جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو کر عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتا ہے ۔ چونکہ یہ نشے قانوناً ممنوع ہیں، لہٰذا اس کے خرید وفروخت کرنے والے گرفتار ہو کر جیل کی ہوا کھاتے ہیں ،چنانچہ یہ نشے مہنگے بھی ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے حصول کے لئے نشئ لوگ چوری چکاری اور مختلف جرائم کا ارتکاب بھی کرتے ہیں بلکہ زیر زمین جرائم پیشہ گروہ ان نشئ لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں ۔
سگریٹ نوشی بھی ایک ایسی بُری عادت ہے جس میں دنیا کے 20 فیصد مرد و خواتین مبتلا ہیں ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے شدید احتجاج کے بعد سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے سگریٹ کے ڈبے پر جلے ہوئے سیاہ پھیپھڑوں کی تصویر لگا کر یہ لکھ دیا ہے کہ یہ صحت کے لئے نہایت مضر ہے اور اس کے پینے سے پھیپھڑوں کے سرطان ہوتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود کروڑوں لوگ سیگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں ۔ہمارے کشمیری معاشرے میں بھی منشیات کا استعما ل بڑے پیمانے پر جاری ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ ناقص تعلیم و تربیت ہےجبکہ اس کو فروغ دینے میں ہمارے معاشرے کے ہی افراد کا بڑا ہاتھ ہے۔حالانکہ ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں سچ بولنے سے نقصان کاا ندیشہ ہو ،وہاں بھی سچ بولا جائے۔لیکن معاشرے میں سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہےاور ذلت میں غوطہ زن لوگ اپنے ہی معاشرے کو نقصان پہنچارہے ہیں۔سب سے زیادہ نقصان اس وجہ سے ہورہا ہے کہ والدین،رشتہ داران اور معاشرے کے زیادہ تر افراد خواہش ِ نفس کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرنےسے بیگانے ہوچکے ہیں۔
����������������