مفتی تنظیم عالم قاسمی
تواضع و انکساری انسان کی زینت ہے ، اس سے اخلاق میں خوب صورتی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے درمیان قبولیت میں اضافہ ہوتا ہے، اللہ کی نظر میں یہ پسندیدہ ہوتا ہے اور لوگوں کی نظر میںبھی ۔ جس شخص میں تواضع ہوتا ہے اس کی ذات میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ بدخواہوں کے دل میں بھی اس کے تئیں محبت پیدا ہوجاتی ہے اور چاہت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ رفتہ رفتہ قرب و جوار اور پھر عام لوگوں میں ایسی عزت ملتی ہے جو بڑے پیسے والوں کو اور اہل مناصب کو حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اس کے بالمقابل جولوگ تکبر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں ،وہ صرف اپنی نظروں میں بڑے ہوتے ہیں حقیقت میں اللہ کے نزدیک اور عوام کی نظروں میں وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں ۔ ان کی قبولیت آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور ان سے لوگوں کی محبت نفرت میں بدلتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ انتہائی ذلیل ہو جاتے ہیں، اپنے بھی اور غیر بھی انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
پچھلی قوموں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ ان میں سے جس نے بھی تکبر کیا اور اپنی طاقت ، دولت ، عزت ، شہرت یا کسی بھی خوبی کے نشہ میں مست ہو کر اپنے رب کو بھلا دیا اور اپنے آپ کو بڑا جانا اس کو اللہ تعالیٰ نے ایسی سزا دی کہ قیامت تک کے لئے نشان عبرت بن گئی۔قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ کو اپنی طاقت پر غرور تھا ، ان میں سے بعض کو پتھروں سے تراشے ہوے مکان پر اتنا اعتماد تھا کہ اس کے فنا ہونے کا کبھی خیال نہیں آتا اور اسی زعم میں حق بات قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انبیائے کرام کو ستایا ، ان کی تکذیب کی اور ان کی غیرت کو للکارا ، اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھروں کی بارش برسائے اور ایسا طوفان برپا کیا کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ جب ان متکبرین کی اللہ کی جانب سے پکڑ آئی تو فرعون کی خدائی ، نمرود کی سلطنت ، قارون کا خزانہ اور شداد کی جنت تباہ ہو گئی ۔ ابوجہل اپنی جمعیت ، خاندانی عظمت اور اپنی طاقت پر مغرور تھا اللہ تعالیٰ نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا ۔ رسول اکرمؐ نے ارشاد فریا،’’ جو شخص تکبر اور بڑائی کا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کریں گے۔‘‘ ( شعب الایمان ۔ ۷۷۹۴) اس کے برخلاف جو شخص تواضع کی راہ اختیار کرے گا اور اپنے مزاج میں انکساری پیدا کرے گا ، اس کو حق تعالیٰ بلندی عطا کرے گا ، اس کو عزت و عظمت کی زندگی حاصل ہوگی ، وہ اپنی نگاہ میں چھوٹا ہو سکتا ہے مگر خلق اور مخلوق کی نظروں میں کبھی چھوٹا نہیں ہوگا۔شیطان سے بڑا کوئی عبادت گذار نہیں تھا مگر اس نے تکبر میں آکر حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے ذلیل و خوار کرد یا ، ہر دن پوری دنیا میں کروڑوں مرتبہ اس کی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کی رسوائی کا اعلان کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت آدمؑ سے بھی جنت کا پھل کھانے کی غلطی ہو گئی تھی تو انہوں نے فوراً اللہ سے معافی مانگ لی اور تواضع اختیار کیا ، اس سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت بھی عطا کی اور ابوالبشر ہونے کا شرف بھی بخشا۔ اس طرح تاریخ میں جن لوگوں نے بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھا اور اپنے لب و لہجہ اور نششت و برخاست کو متواضعانہ رکھا ، اسے اللہ نے غیر معمولی عزت دی اور سرخ رو بنایا اور جس نے کسی بھی چیز پر تکبر کیا اسے ایک دن ذلیل ہونا پڑا۔حضرت عبدالرحمن صفوی نے اپنی کتاب نزہۃ المجالس میںایک معتبر عالم دین اور بزرگ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’ میں نے حرم کعبہ میں ایک شخص کو بڑی شان و شوکت سے طواف کرتے ہوے دیکھا ، اس کے حشم و خدم اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو طواف کرنے سے روک رہے تھے ، مجھے بڑا تعجب ہوا لیکن اس سے زیادہ تعجب اس وقت ہوا جب اسی شخص کو اپنی آنکھوں سے بغداد کے پل پر لوگوں سے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا، میں نے حیرت سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے جواب میں کہا کہ بات در اصل یہ ہے کہ میں نے اپنی عادت کے مطابق اس جگہ بھی جاکر تکبر سے کام لیا جہاں لوگ تواضع اختیار کرتے ہیں ، یہ اسی کی سزا ہے ، یکے بعد دیگرے تمام چیزیں ختم ہوتی گئیں اور میں اس حالت پر آپہنچا ہوں‘‘۔( نزہۃ المجالس ۱/۲۸۹)
جو کچھ بھی انسان کے پاس ہے مثلاً علم ، دولت ، عزت ، شہرت ، طاقت وغیرہ کوئی بھی چیز اس کی ذاتی نہیں ہے اور نہ اس نے اپنی طاقت سے حاصل کیا ہے بلکہ یہ سب اس کے رب کا فضل ہے ، کبھی بھی اس پر زوال طاری ہو سکتا ہے ، اس لئے کبریائی صرف اور صرف اللہ کو ہی زیب دیتی ہے ۔ ایک شخص کو تکبر اور غرور کے بجائے ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اپنی زبان سے کہنا چاہئے کہ اے اللہ !ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ، ہم اس کے لائق نہیں تھے ، یہ سب آپ کا دیا ہوا ہے ، آپ کا احسان ہے، ان نعمتوں میں مزید اضافہ فرما ، ہماری خطاؤں اور معصیت کی وجہ سے ان نعمتوں سے محروم نہ فرما۔ یہ زبان سے کہنے کے ساتھ عملی طور پر بھی اس کا اظہار ہونا چاہئے جس سے یہ محسوس ہو کہ اس کے دل میں کبرو غرور نہیں ہے بلکہ انسانیت اور محبت ہے ۔ اس کی دو پہچان ہے ، ایک تو یہ کہ حق بات سامنے آنے کے بعد اسے قبول کرلے ، اپنی رائے اور کہی بات پر اصرار نہ کرے۔ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ جو میں نے رائے دے دی یا جو میں نے کہ دیا وہ پتھرکی لکیر ہے، اس کے خلا ف میں سننا نہیں چاہتا ، اس کی رائے کا غلط ہونا دلائل سے ثابت کردیا جائے پھر بھی ماننے تیار نہیں ہے ، یہ کبر کی علامت ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ دوسرے کو حقیر نہ سمجھے ۔ اپنی عالیشان بلڈنگ میں بیٹھ کر غریبوں کی جھونپڑی کا مذاق نہ اڑائے یا طعنہ نہ دے ، اپنی دولت اور طاقت کے نشہ میں کسی دوسرے نادار شخص کو چھوٹا نہ سمجھے ، بڑا بول نہ بولے اور ڈرے اپنے رب سے، جس کے قبضہ میں ساری کائنات ہے جس کو چاہتا ہے کرسی دیتا ہے اور جب چاہتا ہے کرسی دے کر چھین لیتا ہے۔انسان کی یہ خواہش کہ میں اچھا رہوں ، میرا کپڑا اچھا رہے ، میرا مکان خوب صورت ہو ،میری گاڑی قیمتی ہو ، اس طرح کے خیالات تکبر کے دائرے میں نہیں آتا کیوں کہ اللہ جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے لیکن جب اپنے حسن و جمال پر اترانے لگے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے تو اب سمجھنا چاہئے کہ اس نے اپنے حدود سے آگے قدم بڑھا دیا ہے جو انتہائی سنگین اور خود اس کے لئے مہلک ہے۔ علمائے کرام نے احادیث کی روشنی میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو متواضع گنہگار پسند ہے مگر متکبر عبادت گذار پسند نہیں۔ ایک شخص تہجد گذار ہے مگر شیخی بگھارتا ہے اور دوسروں کو لعن طعن کرتا ہے یہ شخص عنداللہ ناپسندیدہ ہے اور ایک آدمی زیادہ نوافل تو نہیں پڑھتا مگر متواضع ہے یا گنہگار ہے اور مزاج میں انکساری ہے تو اس کا مقام پہلے شخص سے زیادہ ہے، کیوں کہ مزاج میں تواضع کے سبب یہ گناہوں سے توبہ کر لے گا اور پہلے شخص کو توبہ نصیب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔