بی جے پی کوذرااپنے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے جب وزیراعظم مودی 2015 میں بڑی ’’خاموشی‘‘ سے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی پوتی کی شادی میں شرکت کرنے چشم زدن میں پاکستان پہنچ گئے تھے۔پاکستان میں اب جمہوری حکومت وجودمیں آچکی ہے اورکرکٹرسے لیڈربنے عمران خان اس کے باضابطہ طورپروزیراعظم بھی بن چکے ہیں، مگرہندوستان میں اس خبرسے زیادہ کرکٹرسے سیاست دان بنے پنجاب کانگریس کے لیڈرنوجوت سنگھ سدھوسرخیاں بٹوررہے ہیں۔حکمران بی جے پی کوچھوڑدیں توزیادہ ترلوگ سدھوکے سیاست پردوستی کوترجیح دینے کے اس قدم کی ستائش کررہے ہیں کیونکہ دوستی بڑے بڑے مسائل حل کردیتی ہے اور یہی پالیسی دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی بھی رہی ہے ،مگر سدھو کا یہ قدم بی جے پی برداشت نہیں کرپارہی ہے اورانہیں پاکستانی وزیراعظم کی حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے پر تنقیدکرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیاہے کہ انہیں پارٹی سے باہرکرے۔اس موقع پربی جے پی کوذرا اپنے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے جب وزیراعظم نریندرمودی دسمبر2015 میں بڑی خاموشی سے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی پوتی کی شادی میں شرکت کرنےچشم زدن میں پاکستان پہنچ گئے تھے۔اس وقت وزیراعظم نے پاکستان کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھاتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان بہترتعلقات قائم کرنے کی بات کہی تھی۔اگریہی کام نوجوت سدھونے کیاہے تو بی جے پی چراغ پاکیوں ہے؟کیااس لئے کہ وہ کانگریس کے لیڈرہیں؟ہرمعاملے کوتنقیدی نظرسے دیکھنے والی بی جے پی کواپنے دہرے معیارپرغور کرنا چاہیےمگرافسوس کہ کانگریس پرتنقیدکرنے کی اس کی عادت نے ہرمثبت پہل کوبھی منفی نظرسے دیکھنے کی پارٹی نے ٹھان لی ہے۔2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف دہلی آئے تھے ۔اس پر پاکستان کے حکومت مخالف حلقوں میں اعتراضات سامنے آئے تھے اورجب 2018 میں ہندوستان سے کسی سیاسی شخصیت کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، لیکن وزیراعظم منتخب ہونے پر عمران خان نے پرانی دوستی کی بنیاد پر نوجوت سنگھ سدھو سمیت دیگر کرکٹروں کو مدعو کیا تھا۔پاکستان جانے کے لئے سدھونے وزارت خارجہ کودرخواست لکھ کرباقاعدہ اجازت بھی لی تھی اورحکومت سے منظوری ملنے کے بعدہی سدھونے پاکستان جانے کااعلان کیاتھا۔ٹی وی چینلوں پرچل رہی فوٹیج میں دیکھاگیاکہ نوجوت سنگھ سدھو کی پاکستان آمد کو مقامی ذرائع ابلاغ پر کافی کوریج دی گئی اور اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ کئی برسوں سے سرد مہری کا شکار تعلقات میں بہتری کی باتیں اور تبصرے بھی شروع ہو گئے جس میں عمران خان کی’ ’وکٹری اسپیچ ‘‘کا تذکرہ بھی ہوا ۔اس تقریر میں انہوں نے ہندوستان کے ساتھ تمام مسائل پربات چیت کرنے کی بات کہی تھی۔
نوجوت سنگھ سدھو واگہہ سرحد پر واقع کراسنگ پوائنٹ سے پاکستان پہنچے اور سنیچر کو اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں منقعدہ تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف ٹریندز شروع ہو گئے اور پاکستان میں #sidhu کا ٹریند گردش کرنے لگا جس میں صارفین سدھو کی پاکستان آمد کو خیرمقدم کر رہے ہیں تو کچھ ہندوستانی صارفین کی جانب سے تنقیدی حملوں کا جواب بھی دے رہے ہیں۔کئی ایسے صارفین تھے جنہوں نے سدھو کا دفاع کیا جن میں ونود کمار نے لکھا کہ’’ سدھو صاحب وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں تیسری اہم شخصیت تھے۔ صرف دو دنوں میں پاکستان کے لوگوں نے ہندوستان کے بارے میں اپنا رویہ بدل لیا…اس شروعات کو چلنے دیا جائے۔‘‘کول نامی ایک صارف نے تحریر کیا کہ ’ ’لوگ ہر وقت کیوں منفی سوچتے ہیں؟ سدھو پا جی ایک اچھے انسان ہیں اور میں ان کے پاکستان دورے کی قدر کرتا ہوں۔‘‘سوشل میڈیا پر جاری لفظی جنگ کے دوران نوجوت سنگھ سدھو نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے ساتھ امن کی بات کی۔انہوں نے جہاں دونوں جانب کے پنجاب کی بات کی ، وہیں پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں انتہائی پرجوش لہجے میں بتایاکہ بن مانگے موتی ملتے ہیں اور مانگنے سے بھیک بھی نہیں ملتی اور جو بن مانگے موتی ملتے ہیں اس کی مثال آپ کو بتاتا ہوں ۔ جنرل باجوہ میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ بابا گورو نانک کے 550 ؍ویں جنم دن کی تقریبات منائیں گے تو ہم کرتارپور کراسنگ کو کھولنے کی سوچ رہے ہیں۔ وہ صرف ایک لائن میں مجھے اتنا کچھ دے گئے کہ…‘‘انہوں نے کہا کہ پھر جنرل نے کہا کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں۔‘‘خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب اورہندوستانی سرحد سے متصل علاقہ کرتار پور میں سکھ مذہب کے بانی اور روحانی پیشوا بابا گرو نانک کی قبر اور سمادھی ہے ، یہ ہندوستانی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔ سدھو کی پریس کانفرنس اور ان کے دورۂ پاکستان سے وابستہ اُمیدیں پوری ہوتی ہیں کہ نہیں، اس بارے میں آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ’’پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘‘ کے مترادف ہیں، مگرسیاست کے ماہرین کاخیال ہے کہ عمران خان دنیائے کرکٹ کے پروردہ ہیں جومماک کے درمیان پل کاکام کرتی ہے اس لئے ابتدائی حالات میں عمران خان کوبھی اسی لحاظ سے دیکھاجاسکتاہے اوراُمیدکی جاسکتی ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان کی طرف سے ہندوستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پرکچھ روک لگے گی۔