دراصل کیسویںصدی میں انسانی علوم Humanities کے کسی بھی شعبہ، زبان، ادب ، فلسفہ یا مذہبیات وغیرہ کسی بھی موضوع کا مطا لعہ عصری سماجی وثقافتی حوالوں Contemporary Socio.Cultural References کے بغیر ناممکن ہے ۔ سبب یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں سیاسی و معاشی اور مذہبی و اخلا قی انتشار و بحران کے ماحول میں سماج کے ہر طبقے کے انسان کو ، لاقانونیت، دہشت گردی اور جنسی جرائم نے حد سے زیادہ خوف زدہ کردیا ہے۔ہندوستانی سماج میںآج چھ ماہ کی بچی سے لے کر ساٹھ سال کی بوڑھی ماں تک محفوظ نہیں۔دوسری جانب ترقی یافتہ بڑے شہروں سے لے کر پسماندہ دیہات اور قصبوں تک کے انسانوں کے لئے ذات، زندگی اور زمانہ،سب کچھ شک و شبہ اور بے اعتباری کے حصار میںاُلجھ سا گیا ہے ۔ انسان ڈور کو سلجھانے کی جتنی کو شش کرتا ہے ذات اور زندگی کی ڈور اتنی ہی الجھتی جاتی ہے ، کسی بھی طرح کسی بھی مسئلے کا سرا ہاتھ نہیں آتا۔ ہر طرح کے اقداری نظام(Value System ) سے محرومی کے سبب انسا ن نا محسوس طور پر مادی اورصارفینی( Materialistic & Consumeristic ) سوچ و فکر کے جال میں اس طرح پھنستا جا رہا ہے کہ وہ ہر شئے کوشکم کی آنکھوں سے دیکھنے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی کے ہر معاملے کو نفع اور نقصان (Profit & Loss ) کے ترازو پر تولنے کا عادی ہو چکا ہے ۔ اسے آج کے انسان کی مجبوری اور بے بسی ہی کہا جائے گا ۔ سماج کی اس صورت حال میں جو ادب لکھاجائے گا اس میں اگر انسان کی مجبوریوں اور نارسائیوں کی ترجمانی نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں۔چند اشعار دیکھئے ؎
روز اک تازہ تما شہ نئے عنوان کے ساتھ
رزق برحق ہے ،یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
افتخار عارف
ہر طرف اس شہر میں اک سنگ باری ہو رہی ہے
میں کہ ہوں زد میں بھی اور محفوظ اک آئینے میں
رفیق راز
ایک میں ہوں،اور دستک کتنے دروازوںپہ دوں
کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے
مہتاب حیدر نقوی
اٹھائے سنگ کھڑے ہیں سبھی ثمر کے لئے
دُعائے خیر بھی مانگے کوئی شجر کے لئے
خلوص دل سے ہوئے کب مذاکرے عالم
ہر ایک فیصلہ آخر نہیں پہ آئے گا
عالم خورشید
خالد بشیر کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ شاعروں میںہوتا ہے۔اپنے سماج کے حوالے سے خالد بشیر کے یہ دو شعر سنئے ،
لہو لہو تھے مناظر گھروں سے آگے بھی
لُٹا چکے تھے بہت کچھ سروں سے آگے بھی
فصیل شہر پر لہرا رہا تھا امن کا پرچم
درون شہر لیکن راستوں سے خون جاری تھا
خالد بشیر
فاروق نازکی کے زندگی جینے اور شعر کہنے کا اپنا ایک الگ ہی اندازہے کہتے ہیں ؎
یونہی کر لیتے ہیں اوقات بسر اپنا کیا
اپنے ہی شہر میں ہیں شہر بدر اپنا کیا
شب کسی طور تو ہو جائے بسر اپنا کیا
نیا ہی روز کوئی انکشاف کرتے ہیں
ہم اپنے آپ سے ہی اختلاف کرتے ہیں
ذرا سی دیر کو ُدکھتا ہے دل،پر آخر کار
ہم اہل درد ہیں سب کو معاف کرتے ہیں
شفق سوپوری
ذرہ ذرہ کربلا منظر بہ منظر تشنگی
اپنے حصے میں تو آئی ہے سراسر تشنگی
اس مہذب شہر میں آداب ہیں کچھ جشن کے
رقص کرتی ہے یہاں نیزوں کے اوپ
نذیر آزاد
ہمارے سماج کی خواتین نے بھی سماجی بدحا لی کے کرب کو بڑی گہرائی سے جھیلا اور برتا ہے ،ترنمؔ ریاض بڑے دُکھ کے ساتھ خواتین کو مشورہ دیتی ہیں ؎
نبھائے رکھنا ترنُم کہ یوں نہ ہو جائے
کہیں پہ تُم ہو،کہیں وہ ،اور کہیں بچے
ترنُم ریاض
اور رُخسانہ جبیںحکمرا ں طبقے کے جھوٹے وعدوں سے تنگ آکر کہتی ہیں ؎
ہمارے شہر پہ اب کس کی حکمرانی ہے
کہ آفتاب ،فسانہ ،کِرن کہانی ہے
رخسانہ جبیں
دو چار شعراوربھی سن لیجئے ؎
سہمی سہمی دل کی زمیں ہے ، چلنے لگی ہے گرم ہوا
کوئی بھی اب محفوظ نہیں ہے ،چلنے لگی ہے گرم ہوا
راشد انور راشد
ہمارے سماج میں بوڑھے والدین کی کیا وقعت رہ گئی ہے خورشید طلب کے اس شعر میںدیکھئے
گھر سے زندہ تو مت نکال مجھے اور کتنی حیات رہ گئی ہے
ہماری قوم میں اکثر خاندانوں کا ماضی شاندار اور حال، بدحا ل ہے۔ ہم اپنے ماضی کو یاد کرکے ہاتھ ملتے رہتے ہیں ۔ نوشاد مومن کہتے ہیں؎
عہد رفتہ کے سکندر ہم تھے عہد حاضر میں گداگر ہم ہیں
آج کے دور میں ہر وہ شخص پریشان حال ہے جو خود دار ہے اور ضمیر فروشی نہیں کرتا،رغبت شمیم ملک کا شعر ہے۔
مرے ضمیر کا سودا ہی ہو نہیں پاتا امیر شہر تو سِکہ اُچھال رکھتا ہے
اور نوجوان شاعر حماد نیازی کہتا ہے۔
خود کو ہر دن نیا بناتا ہوں شام ہوتی ہے ٹوٹ جاتا ہوں
راشد طراز آئے دن ہونے والی آ تش زنی کے حوالے سے لکھتے ہیں،
بستی مری جلا کے اُجالا کیا گیا پھر اس کے بعد سیر و تماشا کیا گیا
اسی طرح آج کے ناولوں اورافسانوں میں بھی سماجی ،سیاسی، اخلاقی اور مذہبی انتشار و بحران کی عکاسی کی گئی ہے ۔ نئے ناولوں میں’’ پلیتہ(پیغام آفاقی) اماوس میں خواب (حسین الحق) لے سانس بھی آہستہ (مشرف عالم ذوقی)کہانی کوئی سنائو متاشا (صادقہ نواب سحر)خواب سراب(انیس اشفاق) گرداب (شموئل احمد ) ’ دروازہ ابھی بند ہے (احمد صغیر) صدائے عند لیب بر شاخ شب ‘(شائستہ فاخری )جہاں تیراہے یا میرا (عبد الصمد)نیلما(شفق سوپوری ) وغیر ہ میںسماج کے مختلف علاقوں اور طبقوںکے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن خاص طور پر معاصر اردو افسانہ میں آج کے سماجی کے حقائق اور مسائل کے الگ الگ رنگوںکو جس طرح نئے ’وژن ‘کے ساتھ پیش کیا جا رہاہے وہ ارردو ادب کے تعمیری کردار کی غمازیبھی کرتا ہے ۔ایسے افسانوں میں ایک مردہ سر کی حکائت ( ساجد رشید)اکلویہ،صلیب(سلام بن رزاق)نیو کی اینٹ(حسین الحق)گنبد کے کبوتر (شوکت حیات )شہر(ترنم ریاض ) سنگھار دان (شموئل احمد )نیم پلیٹ(طارق چھتاری)انا کو آنے دو (احمد صغیر )راستے بند ہیں (اسرار گاندھی)اُداس لمحوں کی خودکلامی(شائستہ فاخری) حد کوئی چاہئے عقوبت کے واسطے(لالی چودھری ) وغیرہ۔مقامی طور پر دیکھیں تو نور شاہ ، عمرمجید،۔وحشی سعیداور ڈاکٹر اشرف آثاری کے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں ترنم ریاض ، ریاض توحیدی، غلام نبی شاہد ، مشتاق وانی،ناصر ضمیر ، مشتاق مہدی ،نیلوفر ناز نحوی ،،زنفر کھوکھر ،راجہ یوسف وغیرہ کے افسانوں میں کشمیر کے سماجی حالات کی عکاسی بڑے ہی حقیقت پسندانہ ا نداز میں ہوئی ہے ۔
بہر حال اس مقالے کو ختم تو نہیں ایک خوبصورت موڑ ان جملوں کے ساتھ دیا جا سکتا ہے کہ اردو زبان و ادب کا سماج کے ساتھ گہرا ررشتہ تیرہویں ، چودہویںصدی میں دکن میں استوار ہونا شروع ہوا۔اٹھاہویں صدی میں اورنگز یب عالمگیر کے انتقال اور ولی دکنی /گجراتی کے سفر دلی کے بعد میرؔ و سوداؔ نے بڑی نفاست ا ور سنجیدگی کے ساتھ اردو زبان وادب اور سماج کے رشتے کو مستحکم کیا ۔ غالبؔ نے اپنے دور کے بحران زدہ سماج کے حوالے سے اردو زبان کو نادر ونایاب تشبیہات و استعارات سے مالا مال کیا۔انیسویں صدی کے وسط میں (بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں) پہلی جنگ آزادی کی نا کامی کے بعد جب ہندوستانی سماج مغربی تہذیب کے زیر اثر آیا تو عوامی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طر ح زبان و ادب پر بھی (کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر) مغربیت چھانے لگی ۔اور پھر بیسویں صدی کے آغازتک آتے آتے صرف سماج میں ہی نہیںادب میں بھی انگریزی کے ساتھ لُقمہ توڑنے کی ر وایت عام ہوتی چلی گئی ۔تیسری دہائی میں انگریزی تعلیم سے بہرہ ور اردو کے ترقی پسند ادیبوں نے اس روایت کو پروان چڑھایالیکن ملک کے آزاد ہونے تک ترقی پسندوں نے ادب اور سماج کو بہت کچھ دیا بھی۔ آزادی،تقسیم ملک ،فسادات اور ہجرتوں کے شب و روز گذرنے کے بعد اور جب جدیدیت کا سیلاب بلا آیا تو ہندوستانی سماج کی مشرقی روایات تنکوں کی طرح تجربہ پسندی کے دریا کی لہروں میں ڈوبتے ا بھرتی رہیں۔جدیدیت نے تنہائی،مشینیت اور نا وابستگی کے نا م پرا دب کی سماجیات کی نفی کی۔ لیکن ۱۹۹۰ تک آکر اسلوب میںجدت پسندی تو رہی لیکن ادب کی ا دبیت اور سماجی و ابستگی کی و اپسی بھی ہوئی ۔بیسویںصدی کی ا ٓخری د ہائیوںمیں سوسئیر کے نظریہ لسان،ڈریڈا کے نظریہ ردِ تشکیل اور رولاں بارتھ کے پس ساختیات اور روسی ہئیت پسندوں رومن جیکوبسن ،وکٹڑ شکلو وسکی و غیرہ کے ادب کی ادبیت، Literaryness of Literature کے نظریہ کی عالمی مقبولیت اور اردو میں گوپی چند نارنگ کی کتا ب ’’ ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات کی ا شاعت(۱۹۹۳ء۔)کے بعد اردو میں مابعد جدید نظریہ ادب کے پھیلائو نے ادب کے اسلوب اور موضوعات میںجو انقلاب پیدا کیا وہ اپنی جگہ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ مابعد جدیدیت نے انسانی تشخص کے بحران کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی بڑی روایت (Grand Narration ) اور نظام (System ) کے جبر کو نظر انداز کرکے ادب میں سماج اور سماجی مسائل و معاملات کے ساتھ آزادانہ معاملہ کرنے کا موقف اختیار کیا۔کیونکہ بہر حال انسان کی طرح ز بان اور ادب کی معنویت بھی سماج کے ساتھ ،سماج کے اندر ہی ہے سماج سے باہر نہیں ۔