معروف صحافی، دانشور، کالم نگار اور صاحب اسلوب ادیب ظہیر الحسن جاوید بھی چنددن قبل چل بسے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون، مرحوم’’ امروز‘‘ اور کئی دوسرے اخبارات سے وابستہ رہے۔ پی ٹی وی کے بعد ریڈیو پاکستان میں ساتھ برسوں کام کیا۔’’ آزاد کشمیر‘‘ ریڈیو تراڑکھل میں جب ظفر خان نیازی صاحب ڈائریکٹر تھے، اُس دور میں ظہیر صاحب سے ملاقاتیں رہیں۔ راولپنڈی ،گلشن دادخان میں ان کی ہمسائیگی کا بھی شرف ملا۔ 17سالہ تعلق اب ٹوٹ چکا ہے۔ نیازی صاحب کچھ دن قبل رحمت حق ہو گئے۔محترم منوبھائیبھی وفات پا گئے۔ظہیر صاحب کے ساتھ سب سے بڑا تعلق مولانا چراغ حسن حسرت مرحوم کی مناسبت سے تھا۔ ظہیر صاحب مولانا کے فرزند ہونے کی وجہ سے بھی ادب اور صحافت کی دنیاسے آ ملے۔ اس بارے میں انہوں نے خود اپنی ایک تحریر میں معروف ادیب ابن انشاءؔ کا یوں تذکرہ کیا ہے۔ ’’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انشاء جی ، چراغ حسن حسرت کو اپنا استاد مانتے تھے اور جب میں’’ امروز‘‘(1959تا1969)میں تھا تو وہ اکثر مجھے ملنے آتے، وہ ملاقات بھی عجیب ہوتی تھی، ان دنوں ظہیر بابر امروز کے ایڈیٹر تھے۔ وہ آتے ظہیر بابر صاحب کے کمرے میں مجھے بلا لیا جاتا۔ میں ان کے پاس مودب بیٹھ جاتا، آدھ گھنٹے بعد ان سے اجازت لے کر اٹھ جاتا، اس تمام وقت میں وہ کوئی بات نہیں کرتے تھے، پہلی ملاقات کے بعد میں بہت برہم اٹھا تھا، انشاء جی سے تو میں نے کچھ نہیں کہا مگر بعد میں ظہیر صاحب سے گلا کیا کہ یہ کیسا انسان تھا جو مجھ سے ملنے آیا مگر نہ سلام نہ دعا، نہ حال نہ احوال، مجھے یاد ہے ظہیر صاحب بہت ہنستے تھے، جب خوب ہنس لئے تو کہنے لگے۔وہ اس تمام دورائے میں تم سے ہی تو باتیں کرتے رہے تھے ۔۔۔مجھے بات سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے، وہ تمہیں پاس بٹھا کے حسرت صاحب کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ اس دن کے بعد مجھے انشاء جی کی خاموش باتیں صاف سنائی دینے لگیں‘‘۔ یہ اقتباس ظہیر صاحب کے ایک کالم سے اخذ کیا گیا ہے۔ ظہیر صاحب کے ساتھ ریڈیو پاکستان اور’’ ہمدرد‘‘ اخبار میں ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ کشمیر سے ان کی وابستگی جنون کی حد تک تھی۔ پونچھ کے مہاجر ہونے کی وجہ سے وہ ہجرت کے زخم کھائے تھے۔ عمر بھر کرائے کے مکان میں رہے۔ گھر بدلتے رہے۔ اپنا ٹھکانہ یا آشیانہ بنانے سے گریز کیا۔ ایک بار کہنے لگے : یہ سب اس لئے کہ واپس اپنے وطن جانا ہے۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کی وفات پر برادرم جناب صغیر قمر نے ’’وہ بھی چلے گئے‘‘ کے عنوان سییوں اپنا درد بیان کیا:’’ظہیر الحسن جاوید صاحب سے میرا تعلق عجیب طرح کا تھا۔برسوں پہلے ان سے پی ٹی وی ہیڈ کواٹرزکی رہداریوں میں ملاقات ہوئی تھی۔وہ برصغیر کی معروف علمی وادبی ہستی چراغ حسن حسرت کے فرزند تھے،یہ رشتہ ہمیں اپنی جگہ بہت عزیز تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ ان کا تعلق میرے آبائی گائوں سے بھی تھا۔شائد یہ ہماری دوستی کا باعث بھی۔ وہ ایک بہترین شاعر اور کمال کے نثر نگار تھے۔ پی ٹی وی کے کارکنوں کے ایک جی دار اوردلیر رہنما ان کی پہچان بن گئی۔ ضیائی مارشل لاء میں جلا وطنی کی سزا کاٹی مگر ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں دیکھی۔ ان کی موت سے کم و بیش اڑھائی دہائیوں کا یہ بے مثل رابطہ کل ٹوٹ گیا۔ابھی پرسوں ہی تو بات ہوئی تھی۔بات ختم کر کے فون بند کیا تو ویٹس ایپ پر پیغام آگیا۔'اللہ آ پ پر مہربان رہیں.''پہلے پنڈی میں تھے تو تواتر سے ملتے تھے۔ایک سال سے لاہور بیٹی کے پاس منتقل ہوئے تو ہر صبح خیر خیریت پوچھتے۔اس عرصے میں جب بھی لاہور گیا،ملاقات کر کے آتا۔اس عمر اور بیماری کے باوجود حس مزاح میں کمی نہیں آئی۔شفقت اور رواداری کوئی ان سے سیکھتا۔عمر کے بہت فرق کے باوجود بے تکلفی ایسی تھی کہ اکثر انکل کہہ دیتے۔اور ہم بھی گستاخی کر کے بیٹا کہہ کر پکارے۔ایک بار حسب معمول دفتر تشریف لائے ،کہنے لگے ،''بیٹا پانی پلا‘‘۔میں نے حیرت سے کہا'' میں بیٹاکیسے ہو گیا؟'' قہقہہ لگاکر کہا'' باری باری۔۔۔ کبھی آپ بیٹا کبھی میں بیٹا''۔۔۔ان کا قہقہہ آج تک نہیں بھولا۔دوستی کے اس سفر میں ہم نے لاتعداد سفر ایک ساتھ کیے۔آخری عمر میں تھوڑا سا چلنے سے سانس پھول جاتی، اس کے باوجود میرے اصرار پر میرے ساتھ میرے گائوں والے گھر تین بار تشریف لے گئے۔برسوں کی محبت اور دوستی کو انہوں نے کمال شفقت سے نبھایا۔شائد یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔آخری بار20 مئی2014 میرے ساتھ گائوںگئے۔ رحمہ ہسپتال کی نئی عمارت کے افتتاحی پروگرام میں شریک ہوئے۔اس موقعے پر انہوں نے اپنے گائوں کے حوالے سے اپنی نظم پڑھی اور بے پناہ داد پائی۔اس روز وہ کتنے خوش تھے۔۔۔ ان کے چہرہ بتا رہا ہے۔اس دنیا کے لیے رب نے نظام ہی ایسا بنایاہے۔سب نے اپنی اپنی باری پر چلے جانا۔۔۔ کوئی چلا گیا کوئی منتظر۔۔۔!!!
خدارحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔‘‘مرحوم کی ٹائم لائن پر یہ مصرعہ اب بھی موجود ہے ؎
راکھ کے ڈھیر میں چھپا کے مجھے
وہ سمجھتے ہیں جل مرا ہو گا
ظہیر الحسن جاوید صاحب کی شخصیت، ان کی ادبی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اس پر شاید بہت کچھ لکھا جائے۔ تا ہم ان کی شعر و ادب سے رغبت بھی بے مثال تھی۔ کشمیر پر کام کرنے والے دوستوں میں یا اُ ن کے پسماندگان میں سے کوئی ان کی خدمات کو قلمبند کرے یا ایک جگہ جمع کرے تو تدوین کے کام میں سبھی اپنا حصہ ڈالنے میں فخر محسوس کریں گے۔ کچھ روز قبل لاہور میں انتقال کر گئے۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین