1۔تلافی(افسانوں کا مجموعہ)2۔تفکرات(تنقیدی مضامین)3۔محرؔوم کی شاعری( تلوک چند محرؔوم پر مقالہ)4۔اوڈی سوز( طویل افسانہ)5۔بیسویں صدی کے اردو ادب پر انگریزی کے ادبی رجحانات(پی ایچ ڈی کا مقالہ)۔کینی بلز(افسانوں کا مجموعہ)7 ۔ حقیقت نگاری اور اردو ڈراما( تحقیق وتنقید)8 ۔Development of urdu Language and Literature in Jammu Region(ڈی لٹ کا مقالہ)9۔تعلیل وتاویل (تنقیدی مضامین)10۔ارمغان آزادؔ(تنقید)11۔تنقیدی مباحث وتجزیے( تحقیقی وتنقیدی مضامین)اس کے علاوہ انھوں نے جے اینڈ کے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے لیے مشترکہ طور پر پہلی سے بارہویں جماعت تک اردو کی نصابی کتابیں تیار کیں۔اردو ادب کے حوالے سے ایک تاریخ ساز کام انھوں نے یہ بھی کیا کہ شعبئہ اردو جموں یونیورسٹی سے ایک ششماہی رسالہ’’تسلسل‘‘کے نام سے جاری کروایا۔ ان ادبی سرگرمیوں کے علاوہ پرفیسر ظہورالدّین صاحب جموں یونیورسٹی کے رجسٹرار،کنٹرولراور دوبار صدر شعبہ بھی رہے ۔اپنی صدارت شپ میں کئی قومی اور بین الاقوامی سیمینار،کانفرنسیں اور ورکشاپس منعقد کروائیں۔ہر ممکنہ حد تک ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان وادب کو فروغ دینے میں کوشاں رہے۔کئی مقامی انجمنوں اور بالخصوص یوپی اردو اکیڈمی نے ان کی کتابوں پر چھ انعامات دیے۔ایک سنجیدہ اور دیانتدار انسان ہونے کے ناطے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری انجمنوں نے بحیثیت ایک فعال رُکن کے ان کی خدمات حاصل کیں۔مثلاً وہ جموں یونیورسٹی کونسل کے سیکرٹری،سیکریٹری جموں یونیورسٹی سنڈیکیٹ،کنوینر بورڈ آف اسٹڈیز ان اردولینگویجز،جموں یونیورسٹی فنانس کمیٹی،سیکر یٹری یونیورسٹی پبلی کیشن بورڈ،ایڈیٹر ان چیف یونیورسٹی نیوز بلیٹن،جنرل سیکریٹری انجمن اساتذہ ء اردو جامعات ہند ، سیکریٹری انجمن ترقی اردو ہند جموں شاخ،ممبر سب کمیٹی جے اینڈ کے اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز اور چیرمین مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی جموں قابل ذکر ہیں۔
جنوری2004ء میں مجھے دعوت حق(قرآن و حدیث)کے سلسلے میں ایک جماعت کے ساتھ تحصیل رام نگر میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ جماعت کارُخ بیریاں بلہوتہ اور بسنت گڑھ کے مضافاتی علاقوں کی طرف تھا ۔چالیس دن کے اس دعوتی سفر میں میرے دل میں ایک روز یہ خواہش اُبھری کہ میں اپنے استاد محترم پروفیسر ظہورالدّین کا علاقہ اور ان کی جائے پیدائش دیکھ آوں ۔میں نے امیر جماعت جناب عبدالحمید بٹ المعروف مصروف گلاب گڑھی سے اس بات کا اصرار کیا کہ وہ جماعت کو کھنیڈ لے چلیں،وہ تیار ہوئے ۔ برف پوش پہاڑوں کا ایک سلسلہ دور تک پھیلاہوا تھا۔تیسرے دن ہماری جماعت کھنیڈ کے لیے روانہ ہوگئی ۔میں خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہاتھا ۔پہلی بار اپنے استاد محترم کا آبائی گاوں دیکھنے جارہا تھا ۔بیریاں بلہوتہ سے سیدھی چڑھائی تقریباً 13کلو میڑ چڑھنے کے بعد جب ہم چوچرو گلا پہنچے تو برفیلے راستے پہ چلتے ہوئے ہمارے پیر پھسلنے لگے۔عبدالحمیدبٹ صاحب نے بآواز بلند نعت گانا شروع کردی ،جماعت کے تمام ساتھیوں نے بھی ان کاساتھ دینا شروع کیا۔دیودار،توس،چیڑ اور دوسرے قسم کے سایہ دار درختوں سے گزرنے کے بعد دعوت حق کا قافلہ شام کو چار بجے کے قریب کھنیڈ پہنچا ۔جامع مسجد کے بالکل قریب ظہور صاحب کا مکان دیکھا ۔ دوسرے دن ان کے خاندان کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔کدواہ،لودرہ،پنارہ اور سنگ نام کے یہ گاوں علاقہ کھنیڈ کو تشکیل دیتے ہیں ۔فطری مناظر سے آراستہ یہ علاقہ دل کوموہ لینے والا ہے لیکن ابھی تک گاڑیوں کی آمد ورفت سے محروم ہے کیونکہ سڑک ابھی زیر تعمیر ہے۔اس علاقے کے دسط میں ایک دریا بہتا ہے جس کا نام دریائے اُج ہے۔
1998ء میں جموں یونیورسٹی نے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تو میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ میں اردو میں ڈی لٹ کروں گا ۔اس سلسلے میں بھی میں نے جب پروفیسر ظہورالدّین صاحب کے ساتھ مشورہ کیا تو انھوں نے خندہ پیشانی سے میری حوصلہ افزائی کی۔موضوع کے انتخاب میں بھی انھوں نے میری مددکی۔’’اردوادب میں تانیثیت‘‘کا خاکہ تیار کرنے میں ظہور صاحب نے کوئی بھی کسر اُٹھائے نہیں رکھی۔میرا یہ خواب بھی اللہ تعالیٰ نے شرمندہ ٔ تعبیر کردیا۔پورے دس سال کے بعد 2012ء میں جب روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی(یوپی) نے مجھے ایک کنووکیشن میں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔میں نے جب یہ خوشخبری ظہور صاحب کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔انھوں نے مجھے مبارک بادی۔جب 2013ء میں میرا یہ مقالہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے کتابی صورت میں شائع کیا جو780 صفحا ت پہ مشتمل ہے تو ظہور صاحب اسے دیکھ کے بہت خوش ہوئے بے ساختہ کہہ اُٹھے: ’’میں آپ کی ہمت اورحوصلے کوداددیتا ہوں۔آپ کی محنت رنگ لائی‘‘ ۔ بلاشُبہ ظہورالدّین صاحب علم وادب کے ہیروتھے لیکن اس کے باوجو دانھوں نے غرور وتکبر اور نانیت کو کبھی بھی اپنے مزاج کا حصہ بننے نہیں دیا۔اپنی عاجزی وانکساری اور ندامت کا اظہار وہ کئی موقعوںپہ کرچکے ہیں۔بہ فضل اللہ تعالیٰ یہ احساس کم مائیگی کی صفت شروع ہی سے میری سرشت میں بھی موجود ہے۔میرا اس بات پہ یقین ہے کہ جس طرح ہرکسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ،اسی طرح کوئی بھی آدمی اپنے آپ میں مکمل ہوہی نہیں سکتا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ احساس کم مائیگی ہی ہے جو ہمارے سیکھنے کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔میں نے زندگی کے کئی مسائل ومعاملات میں ظہورصاحب سے مشورے کیے ہیں ،ان کی رائے کا احترام کیا ہے ۔میں کئی بار پنج تیرتھی جموں میں ان کے کو ارٹر میں گیا ہوں۔ان سے ملاقاتیں رہی ہیں ۔ملک مارکیٹ جموں میں ان کے مکان میں گیا ہوں۔بہت قریب سے میں نے اپنے استاد محترم کو دیکھا ہے ، سنا ہے ،سمجھا ہے۔موبائل فون پہ کئی بار باتیں کی ہیں۔
2جنوری2017ء کو میں باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ پر جوائین کرنے کے بعد جب ظہور صاحب کے گھر پر ان سے ملاقات کرنے گیا تو بڑے پُر تپاک انداز میں مجھ سے ملے ۔مجھے مبارک باددی۔خوشی کا اظہار کیا لیکن بعد میں حسرت آمیز لہجے میں کہنے لگے:’’مشتاق کو آج سے 20سال پہلے ہندوستان کی کسی یونیورسٹی میں اردو کا اسسٹنٹ پروفیسر بن جانا چاہیے تھا!‘‘میں نے ان کی خیریت پوچھی تو کہنے لگے :’’میں اب بیماررہتا ہوں ۔بیٹوں نے مجھے گاڑی ڈرائیو کرنے سے منع کردیا ہے۔لکھنا پڑھنا بھی بہت حد تک چھوٹ گیا ہے‘‘میں ان کی باتیں سن کر بہت مغموم ہوا۔
2018ء میں پروفیسر ظہور صاحب کے دن زیادہ تر بیماری میں گزرے ۔ستمبر کے مہینے میں ا یک روز میں ا ن کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر چلا گیا ۔وہ برآمدے میں کرسی پہ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے ۔مجھے دیکھا تو خوش ہوئے ۔بہت سی باتیں ہوئیں ۔کوئی ایک گھنٹہ ملاقات رہی ہوگی۔ان کے چہرے سے تھکان کے سے آثار ظاہر ہورہے تھے۔میں اُن سے رخصت ہوا ۔اپنے گھر سنجواں چلا آیا اور دوسرے دن باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری چلا گیا۔تقریباً چوبیس دن کے بعد میں اور میری اہلیہ جب ظہور صاحب کی خیر پُرسی کے لیے ان کے گھر چلے گئے تو وہ اور ان کی اہلیہ محترمہ بر آمدے میں کرسیوں پہ بیٹھے تھے ۔ظہور صاحب کے ہاتھ میں قلم اور چند سفید کاغذ تھے ۔وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے پہلے ایک آزاد نظم اُن کاغذوں پہ لکھ چکے تھے۔ان کی یہ آزاد نظم جس کا عنوان’’اس سے ‘‘ہے اردو کے ایک معیاری اور موقررسالہ ماہنامہ’’شاعر‘‘بمبئی،اکتوبر2018ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اتفاق کی بات یہ کہ اسی شمارے میں مجھ ناچیز کی ایک کہانی’’ریٹ لسٹ‘‘بھی شائع ہوئی ہے جس میں ایک ادیب کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ نظم ظہور صاحب کی آخری تحریرہے۔نظم ملاحظہ فرمائے:
صبح ہی تو کہا تھا اس نے مجھے
تُو دریا ہے مگر پانی نہیں ہے
عجب انداز تھا اُس کے بیاں کا
ذکر تو تھا کسی درد نہاں کا
سوچتا رہ گیا میں دیر تلک
کھوجتا رہ گیا میں دیر تلک
اُس نے کیوں مجھ سے یوں خطاب کیا
بولو بولو یہ کیا جناب کیا
اُ س کی باتوں نے کردیا مجھے بیتاب
نیند میری اُڑی اسے سُن کر
جان نکلی مری اسے سُن کر
ایسا بھی وہ یاد اکثر آتا ہے
اس کا کہنا ہے اب بھی یاد مجھے
لوگ اب بھی پُکارتے ہیں اُسے
صبح صبح نہارتے ہیں اُسے
لوگ کہتے ہیں آئے گا وہ اک دن
بیتی اپنی سُنائے گا وہ اک دن
رات کادرد گُزر جائے گا
کوئی ہمدرد مل ہی جائے گا
چاند اُترے گا چاندنی بن کر
راگ کوئی یا راگنی بن کر
آو مل کر اسے بلاتے ہیں
گیت کوئی اُسے سُناتے ہیں
زندگی ایک ٹیڑھا آنگن ہے
سنگ ریزوں پہ ناچنا ہوگا
خون ٹپکے گا جب بھی تلووں سے
اک ہتھیلی پہ ناچنا ہوگا
میرا محبوب ہے وہ برسوں سے
آج کل سے نہیں نہ نرسوں سے
اُس کے پہلو میں جب بھی ہوتا ہوں
اپنے سارے گناہ دھوتا ہوں
اُس نے دی ہے جو زندگی مجھ کو
کس نے دی ہے وہ زندگی مجھ کو
اُ س کی محبتوں کے طفیل
آج بھی جی رہاہوں مثل غلیل
دسمبر2018ء کے دوسرے ہفتے میں جب میں راجوری سے گھر آیا تو دوسرے دن ظہور صاحب کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر چلا گیا۔وہ بستر پہ لیٹے ہوئے تھے ۔ایک خدمت گار ان کے قریب بیٹھا ہوا تھا ۔ظہور صاحب کو دوائی کھلانے کا وقت ہوچکا تھا ۔خدمت گار نے انہیں جگایا اور باربار انہیں میرے بارے میںکہنے لگا : ’’صاحب جی ! یہ دیکھو جی یہ آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ ان سے بات کروجی ‘‘ظہور صاحب جاگ گئے ۔میں نے نزدیک جاکر سلام کیا ۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا لیکن جسمانی ضعف اور تکلیف کے باعث وہ مجھ سے صحیح طرح باتیں نہیں کرپائے ۔میں یہ منظر مشکل سے ہی برداشت کرپایا۔دسمبر کے آخری ہفتے میں ،میں اور میری اہلیہ ان کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر گئے ،وہ سوئے ہوئے تھے ۔ ان سے کوئی بھی بات نہیں ہوسکی اور نہ ہی انھیں جگانا بھی مناسب سمجھا۔یہ ہماری ظہور صاحب کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔میرے شعور،تحت الشّعور اور لاشعور میں ان کی یادوں کی پرچھائیاں رچ بس گئی ہیں۔ان کی حسین شبیہ اور ان کی باغ وبہار شخصیت میری آنکھوں میں ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہے۔ان سے جڑی یادیں مجھے آنسو بہانے پر مجبور کررہی ہیں ۔دراصل ہم سب وقت کے دریا میں بہہ رہے ہیں۔اس بات کا یقین کسی شاعر کے ان اشعار سے بھی ہوجاتا ہے ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی
۔۔۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
پروفیسر ظہورالدّین صاحب کی اہلیہ محترمہ دُر شہوارانتہائی نیک دل،جہاں دیدہ اور وفادار خاتون ہیں کہ جو ان کی زندگی میں بہار بن کر آئیں ۔ اللہ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ بزرگوں کا قول ہے کہ اچھے انسان کی اچھی اولاد ہوتی ہے ۔پروفیسر ظہورالدّین صاحب کے دو پیارے وفادار فرزند سہیل ظہور اور اسیر ظہور نے اپنے والد کی بہت خدمت کی ۔بڑے فرزند سہیل ظہور ڈاکٹر ہیں اور چھوٹے فرزند انجینئر ہیں۔دونوں شادی شدہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ پروفیسر ظہورالدّین صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین!
ختم شد
رابطہ 9419336120