فکر انگیز
سہیل بشیر کار
ہمارے ہاں عمل چند ظاہری رسوم پر ہی مشتمل ہے۔حالانکہ اسلام کی رو سے عمل کا دائرہ بہت وسیع ہے، دین کا تقاضا ہے کہ بندوں کے آپسی تعلقات خوشگوار ہوں۔ان میں محبت اور الفت ہو۔محبت اور الفت جو بندوں کے درمیان ہو، اسے افضل عمل کہا گیا ہے۔ابوداؤد میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے،ابوذر ؓ روایت کرتے ہیں، ایک دفعہ رسول اللہؐ ہمارے پاس آئے اور پوچھا کیا جانتے ہو، کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ کسی نے نماز و زکوٰۃ کہا، کسی نے جہاد۔آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’صرف اللہ کے لیے محبت اور دشمنی اللہ کے نزدیک تمام اعمال میں محبوب ترین ہے۔‘‘ مگر ہمارے معاشرے میں باہمی محبت کو نیک عمل تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ایمان اور اس کی راہ میں بندوں سے محبت لازم ملزوم ہے۔مسلم شریف کی ایک حدیث مبارک میں ہے:’’تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت نہ کرو۔‘‘یعنی ایمان کا تعلق آپسی محبت سے ہے لیکن ہم آپسی محبت کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ہم ایک دوسرے کے بغض اور حسد میں مبتلا ہیں، رسول رحمتؐ نے فرمایا: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تم ایمان دار نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم) یہاں آپس میں محبت کو ایمان کی شرط قرار دیا گیا، یہ آپسی محبت ہی ہے جس سے ہم نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب ہونگے، آپس میں محبت کرنے والوں کا درجہ اتنا بڑا ہے کہ روز قیامت جب ہر طرف دھوپ ہی دھوپ ہوگی، جب کہیں سایہ نہ ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ سات طرح کے لوگوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا،ان میں وہ دو شخص بھی ہیں جو آپس میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتے تھے۔‘‘دو آدمی وہ ہونگے جنہوں نے اللہ کے لیے آپس میں محبت کی، اس کے لیے جمع ہوئے، اس کے لیے علیحدہ ہوئے۔(مسلم) مسلم شریف کی ایک اور روایت ہے: ’’اللہ تعالی قیامت کے دن کہے گا کہاں ہیں وہ جو میری عظمت کی خاطر آپس میں محبت کرتے تھے، آج کے دن میں انہیں اپنے سایے میں جگہ دوں گا اور آج کے دن سوائے میرے سایےکے کوئی سایہ نہیں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی محبت ایک انسان کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے، یہ ایک دوسرے سے محبت سے مل سکتی ہے۔رسول رحمت ؐ سے ایک حدیث قدسی مرفوع ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوگئی جو میرے لیے آپس میں محبت کریں، میرے ساتھ مل کر بیٹھیں، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے جائیں اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کریں۔‘‘آپسی محبت کو حدیث رسول میں ایمان کی تکمیل کی شرط بتایا گیا ہے۔رسول رحمتؐ نے فرمایا: ’’جس نے محبت کی اللہ کے لیے؛ دشمنی کی اللہ کے لیے، کسی کو کچھ دیا اللہ کے لیے اور روکا تو اللہ کے لیے، اس نے اپنا ایمان مکمل کیا۔‘‘اتنی واضح تعلیمات کے باوجود اگر ہم آپس میں محبت نہیں کریں گے تو اس سے بڑا خسارہ کیا ہوگا مگر بدقسمتی سے آپسی محبت میں ہر طرف کمی محسوس کی جاتی ہے،ہم گروہوں میں بٹ گیے ہیں۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی مفصل تعلیمات کے باوجود اگر مسلمان آپس میں متحد نہ ہوں، ایک دوسرے کی محبت سے سرشار نہ ہوں تو دنیا میں اور کون ہوگا۔قرآن کریم مومنوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات: 10) یہ مسلمانوں کے لیے ایک رہنمائی ہے کہ انہیں آپس میں کیسے رہنا ہے۔جس طرح دو بھائی آپس میں محبت کرتے ہیں ویسے ہی ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے محبت کرنی چاہیے، احادیث میں مسلم معاشرہ کو جسدِ واحد کے مثل بتایا گیا ہے،جب جسم کے ایک حصے میں درد کرتا ہے تو پورا جسم وہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔دوسری جگہ مسلم معاشرے کو عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے، جہاں ہر اینٹ دوسرے اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری، رسول رحمتؐ سے روایت کرتے ہیں: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری) قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی کامیابی کا راز آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔( سورہ انفال آیت 72) یہ بات عیاں ہے جس کو اسلام سے جتنا زیادہ محبت ہوگی، اتنا اس کو اہل ایمان سے تعلق مضبوط ہوگا، اس دین کے مزاج میں ہی اجتماعیت ہے۔نماز جیسی عبادت کو بھی اجتماعی طور پر ادا کرنے کو کہا گیا حالانکہ یہ بندے اور رب کے درمیان خصوصی تعلق ہے، یہ اسلام کی تعلیمات ہی تھے کہ ہمارے صحابہ کرام اور اسلاف آپس میں جڑے ہوئے تھے۔رسول رحمتؐ کے متعلق ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کی خبر گیری کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے تھے،مسلمانوں کے مسائل حل کرنا، ملی مسائل کی طرف توجہ دینا، صحابہ کے ذاتی امورات میں ان کی رہنمائی کرنا، رسول اللہؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ان سب امورات کی بھی اہمیت تھی۔
اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ یہ اتحاد، یہ محبت دلوں کی محبت ہونی چاہیے نہ کہ صرف قانونی محبت ،ہم اتحاد اتحاد کی صدائیں بلند کریں، لیکن دل صاف نہ ہو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔پروفیسر خورشید صاحب لکھتے ہیں :’’اسلام کی یہ اجتماعیت محض خارج کی اجتماعیت نہیں، بلکہ دلوں کی اجتماعیت ہے۔اسلام محض قانونی اتحاد کو اتحاد نہیں سمجھتا۔ وہ اس بیرونی اتحاد کی بنیاد انسانی قلوب میں رکھتا ہے ۔ اس کی اصل عقیدہ اور نظریہ کا اتحاد امنگوں اور تمناؤں کا اتحاد؛ عزائم اور جذبات کا اتحاد ہے۔ وہ خارج میں بھی سب کو ایک شیرازہ میں منسلک کرتا ہے اور داخلی طور پر بھی ان کو ایک اخوت اور برادری میں جوڑ دیتا ہے اور حق یہ ہے کہ سچا اتحاد اسی وقت رونما ہوتا ہےجب یہ دونوں کیفیتیں پوری ہورہی ہوں، مصنوعی اتحاد کبھی دیر پا نہیں ہوتا۔ نفرت اور بغض سے بھرے ہوئے دل بھی جڑا نہیں سکتے، جھوٹا رکھ رکھاؤ کوئی اتحاد پیدا نہیں کرسکتا، خود غرضانہ اتحاد انتشار اور افتراق کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور محض قانونی بندھن کسی حقیقی ملاپ اور رفاقت کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اجتماعیت کی بنیاد ایمان، محبت اور ایثار پر رکھی ہے ۔
اختلاف انسان کی فطرت میں ہے،اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ضرورت ہے برداشت کی، اختلافات کو دلیل کی بنیاد پر ایڈریس کرنے کی ،قرن اول میں بھی علمی و فکری اختلافات رہے لیکن ان اولی العزم ہستیوں میں برداشت تھا۔ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب لکھتے ہیں:’’وحدت امت کا تصور قرونِ اولیٰ میں اس قدر واضح تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت بھی مسلمانوں کو اس کا پاس ہوتا تھا۔ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان ۳۷ ھ میں صفین کی جنگ ہوئی۔ روم کے بادشاہ نے ان کے اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے بعض علاقوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور اسے سرحد پر لاکھڑا کیا۔ اس پر حضرت معاویہ ؓنے رومی بادشاہ کو ایک تہدیدی خط لکھا :’’قسم بخدا! اگر تم باز نہیں آئے اور اپنے ملک کو واپس نہیں گئے تو میں اور میرے چچازاد بھائی، حضرت علیؓ آپس میں تمہارے خلاف صلح کرلیں گے اور تمہیں تمہارے تمام شہروں سے نکال باہر کریں گے اور جس زمین پر تمہارا قبضہ ہے اسے بھی تم پر تنگ کردیں گے ۔ ‘‘اسلام ایک عالمی دین ہے اور اس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، وہ سب بھائی بھائی ہیں اور ان کی اس اخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی خطہٴ زمین میں آباد ہوں، وہ امت اسلامی کا ایک جزوہیں۔ امت کا اتحاد اور اخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو بہت عزیز ہے۔ اسی لیے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جا بجا اس پر بہت زور دیا گیا ہے، امت کو اختلاف اور تفریق سے روکا گیا ہے۔ اسلام نے اخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
[email protected]