گزشتہ برس سوپور میں ایک ننھی بچی کو آوارہ کتوں نے اپنا لقمہ بنا کر اُس کے والدین کو مسلسل کرب میں مبتلا کردیا۔ یہ کوئی پہلا دلخراش واقعہ نہیں ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سات برسوں کے دوران بے شمار کشمیری آوارہ کتوں کے شکار بنے، ان میں سے کئی ایک کی موت بھی واقع ہوئی۔ جب کسی کو کتا کاٹ لیتا ہے، وہ نہ صرف متاثرہ فرد کیلئے عذابِ مسلسل ہوتا ہے بلکہ اُس کے اہل خانہ ہسپتالوں میں مطلوبہ ادویات مہیا نہ ہونے کی وجہ سے بھی مہینوں دھکے کھاتے ہیں۔حکومت نے مینکا گاندھی کی ’’جانور بچاؤ‘‘ مہم کی قدر کرتے ہوئے کشمیر میں آوارہ کتوں کو زہر دینے پر پابندی تو عائد کردی لیکن اس کا متبادل گزشتہ دس سال سے وجود میں نہیں آیا۔ شہامہ سری نگر میں کتوں کی نس بندی کے لئے چار کمروں کا ایک ہسپتال تو بنا لیکن وہاں بمشکل دن میں دو کتوں کی نس بندی ہوتی ہے۔ کتوں کی تعداد کے بارے میں متضاد اعدادوشمار ہیں، لیکن محتاط اندازے کے مطابق کشمیر کے دس اضلاع میں مجموعی طور بیس لاکھ کتے ہیںاور سرینگر میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس حساب سے ایک کتا چار شہریوں کو ہراساں کررہا ہے۔
جب نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو ریاست میں آوارہ بندروں نے لوگوں اور سیاحوں کا چلنا پھرنا مشکل بنادیا تھا۔ حالانکہ بندر کے ساتھ اکثریتی آبادی کی عقیدت وابستہ ہے، لیکن مودی نے پولیس کو حکم دیا کہ بندروں کو ہلاک کیا جائے۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تحفظ حیوان قانون کی لاج رکھنے کے لئے کتوں کو نہ ماریں، لیکن حکومت کوئی ایسا متبادل تلاش کرنے میں بری طرح ناکام ہے جس کے ذریعے انسانوں کا آوارہ کتوں کا تحفظ ممکن العمل ہوجاتا۔دوسرا پہلویہ ہے کہ آوارہ کتوں کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور پیروجوان اور بچوں پر اُن کے حملوں میں اضافے کے ذمہ دار عوام بھی ہیں اور حکام بھی۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن ایک اہم بلدیاتی ادارہ ہے۔ اس کے ذمہ صرف خاکروبوں کی فوج پال کر سڑکیں صاف کرنا نہیں، بلکہ حفظان ِصحت کو یقینی بنانے کے لئے یہ شہرکی واحد کلیدی ایجنسی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میونسپلٹی کے افسر گوالوں کے یہاں جاکر دُودھ میں مخصوص آلہ ڈال کر اس کی ڈگری ماپتے تھے اور ذبح خانوں میں جاکر گوشت پر مہر ثبت کرتے تھے تا کہ صارفین کے لئے یہ اجناس غیر معیاری اور مضر صحت نہ ہوں۔ آج یہ میونسپل عملہ میدانِ عمل میں غائب اور نابودہے۔ یہاں تک کہ سرینگر کے چوٹہ بازار میں تاریخی ذبح خانہ بھی بند پڑا ہے۔ قصاب حضرات شہر میں اپنے گھروں کے اندر ہی بھیڑ بکری ذبح کرتے ہیں، اور گلی محلوں میں ان کا خون اور فضلہ ڈال کر کتوں کی آبادی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ قصابوں کے گھروں کے باہر درجنوں کتے ہر صبح منتظر رہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر بچے یا خواتین وہاں سے گزریں تو یہ کتے اُن پر حملہ بھی بول دیتے ہیں۔ اسی طرح ہر بازار میں مرغ فروش برلب سڑک اپنا اپنا ذبح خانہ بناتے ہیں۔ یہ لوگ بھی بلا تکلف فضلہ اور مرغوں کی اوجڑی ایک بالٹی میں رکھ کر شام کو سڑک کے کنارے کوڑے کے ڈھیروں پر ڈال دیتے ہیں ۔اس سے آوارہ کتوں کے لئے چاندی ہوتی ہے۔حالانکہ اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لئے جو میونسپل منصوبے کاغذوں پر بنتے ہیں، اُن کی عمل درآمد پر کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں، لیکن میونسپلٹی کا کوئی افسر آج تک نہیں دیکھا گیا جو بازاروں کی چیکنگ کرکے قصابوں، مرغ فروشوں وغیرہ کو ایسی لاپرواہ حرکتوں سے باز رکھتا، جن سے خاص کر آوارہ کتوں کا جماؤ بڑھتا ہے اور نتیجے کے طور لوگوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ قابل صد افسوس حقیقت یہ ہے کہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ صورہ، ایس ایم ایچ ایس ہسپتال سری نگراور دیگر شفاخانوںمیں بھی آوارہ کتے جوق درجوق پلتے بڑھتے ہیں اور کشمیر یونیورسٹی نسیم باغ کیمپس میں تو کتوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ آج تک اس مسئلے کا تدارک نہ کرسکی۔ اسی طرح عدالتوں، سرکاری دفاتر، شاپنگ مالوں، اسکولوں ، کالجوں اور دوسرے سرکاری اداروں کے باہر بھی کتوں کی قطاریں دیکھی جاتی ہیں مگر حکام کے کانوں پر جو تک نہیں رینگتی۔ قابل ذکر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم لوگ شادی بیاہ کے مواقع پر محلوں میں پس خوردہ سڑکوں پر پھینک کر نہ صرف عفونت پھیلاتے ہیں بلکہ آوارہ کتوں کی آبادی میںاضافے کا باعث بننے میں کوئی قباحت محوس نہیں کر تے ۔ یہ مخصوص کوڑا کرکٹ ندی نالوں اور دریاؤں میں بھی بلا کسی روک ٹوک کے پھینکا جائے تو ہمارا ماحولیاتی توازن خود ہمارے ہاتھ کیوں نہ بگڑے ۔ ہم میں بلدیاتی احساس کا فقدان اس قدر پایاجاتا ہے کہ عام طور لوگ گھر سے کوڑا کرکٹ صاف کر کے اپنے ہی اسے آس پاس گلی کوچے اور سڑک کنارے انبار در انبا ر جمع کرتے ہیں، جہاں صفائی کر مچاری صفائی کا باقاعدگی سے جھاڑو لگانا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا بھی نہیں کیونکہ ہمارے یہاں گزشتہ سال ہا سال سے جوابدہی کا نظام ہی مفلوج چلا آرہاہے ۔ بہرحال آوارہ کتوں کی عوام الناس پر مسلسل یورشوں پر ہم صرف کتوں کو مار بھگانے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے لئے سرکار کے علاوہ اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کو فوراً ذبح خانہ کو بحال کرکے قصابوں پر لازمی کرنا ہوگا کہ وہ محلوں میں بھیڑ ذبح نہ کریں۔ مرغ فروشوں اور قصابوں کے لئے خاص کر waste management کے ضمن میں میونسپل کارپوریشن کی طرف سے قانوناً انتباہی قواعد وضوابط لاگو ہونے چاہیے جو انہیں اس امر کا پابند بنائیں کہ وہ کسی صورت آوارہ کتوں کی پرورش کے موجب نہ بنیں۔ مزید برآںآوارہ کتوں کی بڑھانے کے حوالے سے جہاں میونسپل حکام کو متحرک ہونا وہاں ہم لوگوں میں بھی اتنی جاگرتی آنی چاہیے کہ ہم اپنے پس خوردہ وغیرہ کو گلی کوچوں اور سڑکوں پر پھینکنے کی یہودی عادت سے بازآ ئیں ۔ نیزیاد رکھیں کہ وی آئی پی کالونیوں سے کتوں کو اُٹھا کر عام بستیوں میں چھوڑ دینا اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس ناسور کو بڑھاوا دینے کا انتظام ہے۔
رابطہ 9469679449
ای میل [email protected]