اور پھر اچانک بیس ماہ کی ہبہ نثار اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ ایک ہاتھ میں کلاشنکوف ، کاندھے پر پیکا گن، دوسرے ہاتھ میں گرنیڈ ، سکورٹی حصار میں کھلبلی مچی کہ اس ننھی بندوقچی کو کیسے زیر کیا جائے ،مگر ہبہ کے جسم سے ایسے تیزمیزائل نکل رہے تھے کہ قابو میں لانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔ تب ہمیں یاد آیا وہ جو سابق فوجی افسر نے صحافت کے مچھلی بازار میں ٹی وی پر سوال اٹھایا تھا کہ ملک کشمیر کے مکینوں کے گال سرخ کیوں ہیں ؟؟؟یہ کوئی مذاق والی بات نہیں بلکہ بڑی سنجیدہ خلش تھی جو اُسے کچوکے لگائے تھی ۔وہ گبر سنگھ کی طرح سوچتا ہے کہ یہ کشمیر کے بچے کون سی چکی کا آٹا کھاتے ہیں ، کون سی ورائٹی سیب کھاتے ہیں کہ جنگ جاری ہے پر ان کے چہرے چمکتے دمکتے ہیں ۔بم بارُود اور اشک آور دھوئیں سے ان کے چہرے کا رنگ اُترتا کیوں نہیں ؟؟؟بس بیس ماہ کی ہبہ نثار کو جو دیکھا تو وردی پوش اُبل پڑا کہ بھلا اس کے گال سرخ اور چمک دار کیوں ہیں؟ سوال خود سے پوچھا اور جواب خود ہی ڈھونڈ نکالا ،پیلٹ گن تھاما ، لبلبی دبائی ، چھرے چھوٹے تو سیدھے سرخ سرخ گالوں والے معصوم چہرے پر لگے ۔اور پھر کیا تھا ،، دنیا جہاں کا سب سے چھوٹی شدت پسندنشانہ بنی ۔ہبہ کی آنکھ زخمی ہوئی ، حملہ آورافسپائیوں کے دل میں ٹی وی اور بازار دونوں جگہ ٹھنڈک پڑی کہ چھوٹی عمر کے بڑے جنگجو کو زیر کرلیا۔ ہو نہ ہو خوشی سے اُچھل بھی پڑیں ہوں کہ کیسے قابو کریں ننھے چھاپہ ماروں کو، یہ کوئی ہم سے سیکھے ؎
بس اک شئے موت ہے جو خیر سے ملتی ہے بے راشن
وگرنہ ساری چیزوں کی گرانی ہے جہاں میں ہوں
اپنے ملک کشمیر میں کشت و خون جاری تھا مگر اس کے بیچ ہل والا اپنی زمین جوتنے نکلا ۔ ہل کا پھل استعمال کر کے قلم دوات کے ذریعے نئی تاریخ لکھنے لگا ۔ انہیں تو مزہ اس میں آتا ہے کہ ببانگ ِدہل اعلان کردیتے ہیں کہ بھائی لوگو !فکر ناٹ ،ہم جو کر رہے ہیں وہ بس تمہارے بچائو کے لئے ہے،یعنی قوم کے غم میں کھاتے ہیں ڈنر اقتدار کی چٹنی کے ساتھ ؎
آئو مل کر کھاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
گیت خوشی کے گاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
جب وقت پڑا تو بھاگیں گے لندن پیرس اپنا ہے
مل کر بھوک مٹاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
ہم کو معلوم ہے کہ ۳۵؍۱ے اور ۳۷۰؍ کے بغیر آ پ لوگ ایک دن بھی سانس نہیں لے پاتے، اس لئے ہم اس کی رکھشا کرنے میدان میں کودگئے ۔ہم تو خنجروں سے لیس ہیں ، بدن آہنی پیرہن میں بچائو کے لئے ڈھکا ہے ، تمہاری یہ جنگ ہم آخر تک لڑیں گے ، کسی کی کیا مجال جو ہمارے مقابلے میں آجائے ۔اب کی بار ہم نے مشترکہ ڈانواں ڈول فوج بنا ڈالی ،جس میں ہل کے جنرل ،ہاتھ کے کمانڈر، قلم کے سپاہی سب ساتھ ساتھ ہیں اور ہم ۳۵ ؍اے کا دفاع کرکے ہی لوٹ آئیں گے، البتہ بس اس کے لئے ہمیں کرسی کی توپ، اقتدار کا بارود اور عیش و آرام کی دونالی ساتھ چاہئے ۔پھر دیکھنا کون مائی کا لعل ہم سے دو دو ہاتھ کرپائے ، چٹ بھی ہماری ہوگی اورپٹ بھی۔اس سب کھیل کود کے بیچ اپنے بچارے قلم دوات والے جو کرسی کھونے کے غم سے نڈھال سرد خانوں میں ٹھٹھرتے رہے ، اچانک اقتدار کی نیلم پری کے ممکنہ بازیابی کی اُمید میں اچھلے کودے کہ بے حرکت تن بدن میں ہلکی سی حرارت پیدا ہوئی۔گرمی کے ساتھ ہی ان مرادن ِ مومن کو اہل ِکشمیر یاد آئے ،اُن کی بے و فابجلی یاد آئی، اُن کے دشمن ِجا ن مسائل یاد آئے ،فوراً سڑکوں کا رُخ کیا ،گورنر انتظامیہ کا دھیمی آواز سے سکھ چھین لیا۔وزارت نہ دینے کا ملال تو تھا ہی ، غصے کا جلال بھی نعروںمیں سمودیا ۔لگے ہاتھوں ذرا سا سُر اونچاکرکے یوگی کو بھی للکارا کہ علی بجرنگ بلی پر بلا عذر معافی مانگ لے، نہیں تو سیدھے لکھنو آ کر دواتیں اُلٹ کر اپنی روشنائی تیرے پوسٹر کی خبر لے گی ۔ یہ بھلا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟
الغرض تینوں جو ماضی میںاس کشت و خون کا فائدہ بھی اٹھاگئے تھے، بلکہ اسی خون میں اُنگلیاں ڈبو کر اپنے ماتھے پر لمبا موٹا ٹیکہ لگا گئے تھے کہ یہی دلی دربار کی خوشنودی حاصل کرنے کا پاسپورٹ ، ویزہ، اجازت نامہ ہے۔خیر گھوڑوں کے نال لگ رہے تھے تو اپنے ہندوارہ والا چشم و چراغ لندن سے آیا میرا دوست کی صورت آ دھمکا، بولا: ملک صاحب فلک کی سیرکرو ، پلیزہمارے لئے ایک آدھ کرسی کا انتظام کر دو۔اپنے ملک صاحب زبردست سیانے ہیں، کسی کا فون اُسی وقت اٹھاتے ہیں جب خود انہیں ضرورت ہو اور فیکس اسی وقت چلاتے ہیں جب اپنی بات کسی کو کہنی ہو ۔شاید سوچتے ہوں کہ اپنے ملک کشمیر کی بجلی تو شمالی گرڈ میں چلی جاتی ہے ،فیکس پر بجلی کا خرچہ کرنے کا کیا فائدہ؟راج بھون کی بھول بھلیوں میں فیکس مشین کا پیچھے کرتے اپنے سیاسی دُریندر کچھ ایسے کھو گئے کہ ملک صاحب کی بو تک نہ سونگھ پائے اور ان کا پتہ تب چلا جب وہ بول پڑے : اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، دیش واسیو! تمہاری سسکتی مرتی اسمبلی کا دیہانت ہوگیا ہے ، اس کے اَنتم سنسکار کی تیاری کا آرڈر دے دیا گیا ، بچاری پیاری پیاری اسمبلی کی مزاج پرسی کے لئے اب آنے کاکشٹ نہیں کر نا ، اب اس کی استھیاں بہانا ہی باقی رہ گیا جس کے لئے جہلم کی ساکت لہریں حاضرہیں۔پھر کیا تھا ، سنتے ہی ہل نے کہا چل ہٹ،دوات اپنی اوقات کا ایجنڈا آف الائنس یاد کرنے لگا ، ہاتھ مودی کومات دینے کی سوغات جمع کر نے گیا۔اب بھلا مری ہوئی اسمبلی کو پوچھنے سیاست دان تھوڑی آتے ہیں، اس لئے پھر وہی ہوا کہ سورگیہ اسمبلی کی تعریف میں دو بول پڑنے تھے ،وہ تو سب بولے پر اپنے ملک صاحب چونکہ ستیہ ہیں۔ اس لئے کچھ کھلم کھلا ستیہ بولنے لگے۔
کسی فلمی نغمہ نگار نے کب کا کہا تھا کہ’’ ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے ‘‘پر کیا کریں ۔چلو جو ہوا سو ہوا، اپنے ہندوارہ اور امیراکدل والے لمبی ہانکنے والوں کی بولتی تو بند ہو گئی ،مگر راج بھون کے مکین چپ نہیں بیٹھنے والے ۔روز کوئی نہ کوئی نیا تماشا کھڑا کر ہی دیتے ہیں ۔کہاں وہ راج بھون کا سابق تاج کہ چپ سادھ کر بات کے لئے پرجا کو ترساتے تھے اور کہاں ملک صاحب کہ زبان پر ایسا ملکہ رکھتے ہیں کہ سن سن کر بس مزہ آئے۔اب تو دلی دربار کو بھی بیچ میدان اُتار دیا کہ اُن کی سنتا تو سجادلون وزیراعلیٰ ہوتایعنی Achievable CM ship کا لڈو کھانے تیار تھا مگر ملک صاحب نے انکار کی مکھی کہیں سے لاکر اُسے ناقابل استعمال بنا دیا۔ایسے میں جہاں ہندوارہ کے چراغ کی بتی ٹمٹماکر رکھ دی ،وہیں دلی دربار کا بھی چیر ہرن کردیا کہ ملک کشمیر میں پہلے سے کہتے آئے ہیں کہ دلی دربار کے زُکام کے بغیر اپنے یہاں نزلے کی بیماری بھی نہیں پھیلتی ،یعنی یہاں جب ارباب ِاقتدار چھینکتے ہیں اصل میں دلی والی رینٹ ہی بہتی ہے۔مطلب الیکشن کا تماشا بھلے ہی رو ز ہمارے آگے ہوتا ہے مگر اصل گنتی دلی والے کرتے ہیں کہ کسے کتنے آنکڑوں پر بٹھانا ہے ۔جبھی تو قلم ، ہل، ہاتھ کی گنتی کا شمار کچھ بھی ہو گننے کی باری اب کی بار ہندوارا کی تھی۔اس گنتی کی بات جو بیچ بازار میں پھوٹی تو لوگ ناراض ہوگئے کہ جب ہمارے پاس تین بھی تھے تیرہ بھی پھر ہمیں کیوں کسی گنتی میں شمار نہیں کیا گیا ۔اور اس ڈرامے کے بیچ ملک صاحب نے ستیہ کا اپنا ڈائیلاگ انڈیل ہی دیا کہ ہمیں تو نوکری جانے کا خطرہ نہیں پر یہاں سے چلتا کیا جائے گا اور پھر یہ ناٹک شاید کسی اور اسٹیج پر کھیلنا پڑے ۔
اپنے ملک صاحب چونکہ ستیہ پال ہیں اس لئے ایک دن ستیہ کی پوجا کرکے ساری باتیں سچ کہہ دیتے ہیں پھر دوسرے دن راج بھون والے اپنی انگریزی زبان پر ملکہ ہونے کا ثبوت پیش کرکے اس کی وضاحت کردیتے ہیں۔کبھی بڑھیا بے نظیر جے کے بنک کا کچا چھٹا بیچ بازار بکھیر دیا تھا کہ ملک کشمیر کے سیاست دانوں کی ذاتی جاگیر ہے ۔اپنے حمام میں بیٹھ کر لسٹ ترتیب دیتے ہیں یا بدل دیتے ہیں۔دوسرے دن اپنی باتیں بتانے سب لوگ ایسے امنڈ پڑے مانو بنک کے سستے شیر مفت میں مل رہے ہوں۔اب کی بار تو ملک صاحب نے بڑھیا بنک کی نظر کے ساتھ ساتھ وستر ہی اُتار دئے۔معاشی خود مختاری پر سرکاری قبضہ جما کر اسے اسی لائن میں کھڑا کردیا جہاں بیمار ، نحیف ، کمزور، لاٹھی کے سہارے چلنے والے پبلک سیکٹر یونٹ چل رہے ہیں۔ان بے چاروں کے دئے ٹمٹمارہے ہیں کہ تنخواہ بجٹ کا تھوڑا بہت تیل سرکار کی طرف سے بھیک میں ملتا ہے جبھی تو ان کی لو دھپ دھپ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے ۔بھلا بڑھیا بے نظیر بنک اس لائن میں کیوں کھڑا ہو۔
مانا کہ اپنے ملک کشمیر میں اندھیرا قائم ہے بلکہ’’ اندھیرا قائم رہے‘‘ بڑا دلکش نعرہ مانا جاتا ہے کہ اسے بجلی والے اور صاحبان اقتدار بڑے شوق سے بلند کرتے ہیں ، کیوں نہ کریںاُن کی روشنی تو اسی نعرے کے سبب چلتی ہے ، مگر اپنے واتا ورن میں ایک اسکیم روشنی نام سے تھی جو بھلے ہی پورے ملک کشمیر میں اندھیرا پھیلانے کے کام آئی، پر اپنے پٹواری سے لے کر منسٹر تک، اور افسر سے لے کر چپراسی تک ہر ایک کے گھر میں اُجالا کرگئی ۔کرتی کیوں نہ بھلا اتنی ساری سرکاری زمین جو اونے پونے داموں آناً فاناً ان کی تحویل میں چلی گئی یعنی جن کے پاس قبر کے دو گز زمین نہیں تھے ،بلکہ مانگے کے شمشان گھاٹ پر جن کی چتا جلنی تھی، وہ بھی راتوں رات بڑے زمین دار یعنی سائیں اور وڈیرے بن گئے اور ملک صاحب کچھ نہ کچھ کر ہی جاتے ہیں ۔اب کی بار روشنی اسکیم پر آئو دیکھا نہ تائو اندھیرا قائم کردیا یعنی کتنے ممکنہ سائیں وڑیرے چراغ ہاتھ میں لئے پھرنے لگے کہ کہیں سے کوئی سرا ہاتھ آجائے تو دستار سمیٹ کر سر پر سجا لیں ؎
ابھی تک پگڑیوں میں ہے شکوہ تاج سلطانی
ابھی تک رشوتوں کی حکمرانی ہے جہاں میں ہوں
ایک بات پر ہم حیران ہیں کہ بھارت ورش کا سپہ سالار ڈرون کے استعمال کے لئے لوگوں کی اجازت کیوں مانگتا ہے؟ یار لوگو! جب اُس کی جھولی میں افسپا کا سنسار بھی ہے، لشکریوں کااُپہار بھی ہے ، سنگھی پترکار بھی ہیں ، صحافت کا مچھلی بازار بھی ہے ، سرجیکل اسٹرائیک کادستار بھی ہے ، گورنر ملک جیسا چمتکار بھی ہے ، تو وہ کیوں اپنی غریب ولاچار جنتا کے سامنے سپہ سالار نہیں بلکہ جواب کا طلب گار بنتا پھر رہاہے ؟ جیو میری جان !
رابط ([email protected]/9419009169)