سرینگر//دو ہم جماعت جب بچھڑے تو شاید اُن کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان کی ملاقات اجنبیوں کی طرح ہوگی ۔70کی دہائی میں الگ ہوئے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سابق چیف جسٹس منطور احمد گیلانی اور سرحدی ضلع پونچھ کے سنیئر وکیل دوارکا ناتھ بخشی جب روبرو ہوئے تو پہچان نہیںہو پائی۔تعارف ہوا تو آنکھوں سے آنسوں کا نہ تھمنے والا طوفان جاری تھا ۔ پاکستانی زیرانتظام کشمیرسپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور حسن گیلانی نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بار ایسوسی ایشن پونچھ کی ایک تقریب میں شرکت کرنے گئے تھے جہاں انہیں ایک بزرگ وکیل ملے جنہوں نے ان سے یہ دریافت کیا کیا وہ منظور گیلانی کو جانتے ہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1970کی دہائی میں اُن کے ساتھ پڑھتے تھے اور بعد ازآں پاکستانی زیر انتظام کشمیر ہجرت کر گئے جہاں اُن کے والدین رہ رہے تھے ۔منظور گیلانی نے مزید بتایا کہ انہوں نے اس بزرگ سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ پڑھنے والا وہ شحض یونیورسٹی کے کس ہوسٹل میں تھا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایس ایس سائوتھ ۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اس ہمرعمر سے پوچھا کہ کیا وہ اُن دنوں یونیورسٹی کے آفتاب ہال میں رہتے تھے جس پر وہ اُن کے اوپر جھپٹ پڑے اور کہنے لگے کہ آپ ہی وہ منظور گیلانی ہو۔اس کے بعد دونوں اپنے ماضی میں کھو گئے اور پھر اُس کے بعدان برسوں کو یاد کیا جو دونوں نے خونی لکیر کے آرپار گزارے ۔منظور گیلانی نے کہا کہ اس ملاقات پر دوارکا ناتھ بخشی بھی اتنے ہی خوش تھے جتنا کہ میں خوش ہوں ۔منظور گیلانی 20اگست کو پاکستانی زیر انتظام کشمیرسے ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کی غرض سے سرینگر آئے ہیں ،جہاں انہوں نے اپنے کئی ایک پرانے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی ۔گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ 4ستمبر کو واپس مظفرآباد لوٹ رہے ہیں ۔دوسری جانب دوارکا ناتھ بخشی کی خوشی کا بھی ٹھکانہ نہ تھا کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بخشی نے کہا کہ کاش اُن کے پاس وقت ہوتا اور میں انہیں اپنے گھر لیجاتا ،مجھے افسوس ہے کہ میری اُن سے اچانک ایک گھنٹے کی ملاقات ہوئی ’’میں جب گھر پہنچا تو یہ باتیں میں نے گھر والوں کو سنائیں ، میری اہلیہ نے میرے ساتھ اس بات کو لیکر جھگڑنے لگی کہ انہیں گھر کیوں نہیں بلایا ۔انہوں نے ماضی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا گیلانی پر ہمیں فخر ہے کہ وہ سرحد پار ایک اعلیٰ عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں ۔دوارکا ناتھ بخشی کہتے ہیںکہ 1968میں ہم دونوں نے علی گڑھ مسلم یونورسٹی میں شعبہ قانون میں ایڈمیشن لیا اس دوران منظور گیلانی اکثر کہتے تھے کہ میرے ماں پاپ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں ہیں اگر خدا نے چاہا میں بھی اُن کے پاس ہی جائوں گا ،بخشی کہتے ہیں کہ گیلانی اُن سے 1970میں بچھڑے پھر آج ملے اور یہ ملن میں زندگی بھر نہیں بھول پائوں گا ۔بخشی نے کہا کہ انہوں نے گیلانی سے وعدہ لیا ہے کہ وہ دوبارہ چکانداباغ سے یہاں آئیں تاکہ دوپرانے دوست پھر ملیں ۔منظور حسن گیلانی نے اپنے فیس بک صفحے پر بھی یورنیورسٹی کے دوست سے ہوئی ملاقات پر تاثرات بیان کئے ہیں۔ جس پر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے رہنے والے ایک صارف عبدلشکور آزادنے لکھا ہے کہ میرے بھی بہت سے دوست جموں اور دلی میں رہتے ہیں جنہیں ملنے کیلئے میں بھی بے چین ہوں وہ کہتے ہیں کہ 90کی دہائی میںمیں کشمیر سے پاکستان آیا اُس کے بعد اُن سے ملاقات نہیں ہوئی وہ اپنے ایک دوست کا نام سنجے ٹکو کہتا ہے جو واڑون کا رہنے والا ہے ۔معلوم رہے کہ اس سے قبل بھی منظور گیلانی کئی بارکشمیرآ چکے ہیں ،گیلانی نے اپنی ابتدائی تعلیم کرناہ کے کنڈی گائوں میں اپنے ماموں کے یہاں حاصل کی اُس کے بعد گریجویشن کرنے کیلئے وہ اپنی خالہ کے گھر بارہمولہ رہے ۔بارہمولہ میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد گیلانی نے 1967میں علی گھڑ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ قانون میں داخلہ لیا اور 1970میں وکالت مکمل کرنے کے بعد 6برسوں تک کشمیر میں وکالت کرتے رہے پھر 1976میں ایک دن وہ اپنے ماں باپ کے پاس مظفرآباد گئے اور واپس نہیں آئے۔ سال 2005میں ہندپاک کے درمیان اعتماد سازی اقدمات کے تحت جب آر پار راستے کھولے گئے تو بہت سے لوگوں نے اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے ملاقاتیں کی اسی دوران منظور گیلانی بھی کشمیر آئے اور تب سے اب تک وہ کئی بار کشمیر کے کر چکے ہیں۔