پاکستان کے قصور شہر میں سات سالہ زینب کے کچھ دیر بعد کھٹوعہ جموں میں آٹھ برس کی معصوم آصفہ نامی گوجر بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہو اتو انسانیت کی چیخیں نکلیں، جگرسوختہ ہوئے اور دل پژمردہ ۔اس المیے نے اگر چہ ہر ایک با شعور شہری کا ضمیر جھنجوڑ کے رکھ دیا،مگر افسوس کہ فرقہ پرست ظالموں نے بہت جلد انسانیت کے تمام حدودو قیو پار کرکے اس المیے پر بھی فرقہ واریت کا رنگ چڑھایا ،ا نہوں نے اس المیے کو بھی بیمار ذہن زعفرانی سیاست کا گورکھ دھندا بنانے میں کوئی دیر نہیں کی۔ حد یہ ہے کہ آصفہ آبرو ریزی اور قتلِ عمد میں ماخوذ ملزم اسپیشل پولیس آفسر ( ایس پی او) دیپک شرما کو قید وبند سے رہاکر وانے میں بی جے پی کے حمایت یافتہ ’’ہندو ایکتا منچ‘‘ نے ترنگا اٹھائے جلسے جلوس کئے جس پر ہر باغیرت انسان کا کلیجہ پھٹنے کو آیا اور وہ دن پھر سے یاد دلائے جب جموں میں سنگھرش سمتی نے وادی کشمیر کا ظالمانہ بائیکاٹ کر کے ترنگا اٹھایا ۔ ہندو ایکتا منچ کی آڑ میں بھاجپا چاہتی ہے کہ اس سنگین جرم کی تفتیش کرائم برانچ سے اسی طرح سی بی آئی کو منتقل کی جائے جیسے شوپیان کی آسیہ اور نیلو فر کیس میں کیا گیا اوریہ بالفاظ دیگر معاملہ گول کر نے کے مترادف ہے ۔ کھٹوعہ میں آصفہ کے ساتھ پیش آئی جنسی زیادتی اور قتل کے بعد پوری ریاست میں اس واقعے میں ملوث مجرمین کی شدید مذمت کی گئی ۔ لہٰذا یہ صرف حکومت کے خلاف برہم شدہ رائے عامہ کا دباؤ تھا کہ بالآخر اس گھنائونے جرم کی تفتیش شروع ہوئی۔اس میں ملوث مر کزی ملزم کے علاوہ تادم تحریرایک دوسرے ایس پی او اور کیس سے متعلق ثبوت وشواہد مٹانے کے الزام میں ایک سب انسپکٹر سمیت ودسرے پولیس اہل کار پکڑا گیا ہے۔ جب پہلی بار مر کزی ملزم کو پکڑ کر دنیا کے سامنے لایا گیا تو عوام کو غم و غصے کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی مایوسی بھی ہوئی کیونکہ لوگوں کے ذہن میں ایسے مکروہ فعل سرانجام دینے والے کا خاکہ کچھ مختلف تھا۔ سب کا مشترکہ خیال تھا کہ جس حیوان نماانسان نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے وہ کسی عفریت سے کم نہیں ہوگا لیکن جب ملزم ایک ایس پی او تو نکلا تو ایس پی پریہار کی کہانی ذہنوں میں گھومنے لگی جسے بدنام زمان جنسی اسکنڈل میں ملوث ہونے کی بنا پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا تھا ۔ آصفہ کی سر گزشت کا یہ پہلو بھی غور طلب اور تشویش ناک ہے کہ گوجر بچی کی عصمت دری اور قتل کر نے کے پس پردہ فرقہ پرستوں کی یہ چال کا ر فرما ہے کہ مسلمانانِ جموں خوف زدہ ہوکر نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں ۔ یہ ایک سنسنی خیزامر ہے جس کا خلاصہ میڈیا میں ہوا۔
یہ سوچ کر کسی بھی انسان کا دل پسیج جائے گا کہ زندگی کی محض آٹھ بہاریں دیکھنے والی آصفہ ظلم، تشدد اور عصمت ریزی کا شکار ہوئی ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اُس معصومہ کو درندوں نے دن دھاڑے اغواء کر کے ایک گاؤ خانے میں محصور کیا تھا، جہاں اُس کو بے ہوش کرنے والی دوائی جبراًپلائی گئی تاکہ وہ شور نہ مچائے۔ اس دوران مظلومہ کی آبرو ریزی کرکے وحشی درندے اپنی ہوس کی آگ بجھاتے رہے اور پھر اپنے ابلیسی پلان کے مطابق معصوم کلی کو موت کے گھاٹ اُتارکر لاش جنگل میں پھینک دی۔یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے آصفہ کیس میں ہیرا نگر پولیس نے غفلت اور غیر سنجید گی برت کر کیا مجرموں کی پیٹھ نہ ٹھونک لی؟ آصفہ کی گمشدگی رپورٹ ہونے کے باوجود پولیس کی مجرمانہ خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟ ان سوالوں کا جواب ہم تھوڑاسا غور وخوض کر نے سے خود ہی پا سکتے ہیں۔ بہر حال آج بھی آصفہ کے اشک بار والدین اور رشتہ دار انصاف حاصل کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ایک جانب وہ اپنی معصوم بیٹی کی جدائی کا غم لئے بیٹھے ہیں اور دوسری جانب آصفہ کو انصاف دلانے کے بجائے فرقہ پرست قوتیں اپنے سیاسی سر پرستوں کی مدد سے عدل کی راہ میں روڑے اٹکا ر ہے ہیں۔ اگرچہ ابتداً ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اس گھمبیرالمیہ کو لے کر دھوئیں دار تقریریں ہوئیں جن میں مجرموں کو سزا دینے کی پُر زور وکالت کی گئی لیکن سابقہ تجربات بتاتے ہیں کہ اسمبلی کا تماشہ اصل میں سیاسی سرکس کے مانند تھا ۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے یہ سیاست دان ہمیشہ دکھ اور مصیبتوں کے دوران اپنی قوت گویائی اور بیان بازیاں محض اپنے حقیر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اب تک آصفہ کی بے چین روح انصاف کی دہائیاں دے رہی ہے ،اس کے والدین کی آنکھوں کاسمندر انصاف طلبی کی راہ میں خشک ہورہاہے اور ابھی تک معاملہ لٹکاہوا ہے ۔
آیئے ذرااس المیہ کے وقوع پذیر ہونے کی سرگزشت دوبارہ یاد کریں ۔ آصفہ اپنے کوٹھے سے گھوڑے کو پانی پلانے کی غرض سے لے گئی تھی کہ پُر اسر ار طور غائب ہوئی۔ جب وہ شام کو واپس نہ لوٹی تو اس کے گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا ۔ 17؍جنوری کو آصفہ کی تلاش میں جب اس کے اہل خانہ سرگرداں تھے تو گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے تین اشخاص نے رسانہ جنگل میں کسی بچی کی مسخ شدہ لاش دیکھی جنہوں نے آصفہ کے گھرانے کو مطلع کیا۔ لاش کی جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بچی ایک ہفتہ قبل غائب ہوئی آصفہ ہی تھی۔ چنانچہ گوجر برادری کے ان لوگوں نے پولیس کو خبردی ۔ پولیس نے لاش کو اپنی تحویل میں لے کر اِسے پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھیج دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ آصفہ کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی تھی اور یہ کہ لاش کی بازیافت سے24؍گھنٹے قبل آصفہ کی موت واقع ہوئی تھی۔اس کے صاف معنی یہ نکلتے ہیں کہ16؍جنوری تک آصفہ زندہ تھی۔ آصفہ کی لاش کا ملنا تھا کہ ایک جانب اس کے گھرانہ رنج وغم میں ڈوب گیا اور دوسری جانب آناً فاناً سوشل میڈیا پر یہ الم ناک خبر سرعت سے پھیل گئی اور چہار سُو اس المیہ کے خلاف انسانیت کے دشمنوں کی مذمت ہونے لگی۔ آصفہ کی تجہیز و تکفین کے بعد آصفہ کے رشتہ دار اور گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایڈوکیٹ طالب حسین کی قیادت میں اس واقعہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ احتجاجیوں نے جموں پٹھانکوٹ شاہراہ کو بند کر دیا تاکہ آصفہ کو انصاف مل سکے۔ پولیس نے احتجاجیوں پر لاٹھی چارچ کیا اور اس واویلا اور احتجاج کے منظم کر نے والے ایڈوکیٹ طالب حسین کوگرفتار کر لیا۔ طالب کی گرفتاری پر احتجاج اور غم و غصہ میں مزید شدت آ گئی ، نتیجتاً پولیس نے طالب حسین کو فوراً رہا کر دیا۔ گوجر برادری قاتلوں کو ڈھونڈ کر کیفر کردار تک پہنچاننے کا مطالبہ کر تی رہی تو ان پر ڈنڈے برسا گئے اور سو قدم آگے بڑھ کر ان کی آواز خاموش کر نے کے لئے جوان سال گوجر لیڈر کو نقص امن کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا مگر ایک معصوم بچی کے بلات کار اور اس کی ہتھیا کے الزام میں پابند سلاسل دیپک شرما کی بابت فرقہ پرستوں نے ترنگا بردار ریلی کو پولیس فرقہ پرستوں کے ہم قدم رہی ۔ان ساری کارستانیوں پر پولیس کی کڑی نکتہ چینی ہوئی ، ساتھ میں حکومت کی عدم فعالیت پر اس کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ حالات کو بھانپتے ہوئے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ٹویٹ میں اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ، مزیدبرآں یہ یقین دہانی کر ائی کہ مجرم کو کڑی سے کڑی سزا دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے گی ۔ چونکہ اسمبلی کا اجلاس ہورہاتھا تو حزب اختلاف کے لیڈروں نے اس مسئلہ کو لے کر پولیس کی جان بوجھ کر اپنائی گئی غفلت پر اس کی کڑی نکتہ چینی کی۔ اُدھر اپنی رہائی کے بعد طالب حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آصفہ کے معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کے رول کو مشکوک قرار دیا۔ طالب کا کہنا تھا کہ ’’ آصفہ کے معاملے میں پولیس نے صریح غفلت برت لی ہے۔ اگر بروقت کارروائی کی جاتی توآصفہ کو بچایا جا سکتا تھا۔آصفہ کے مردہ جسم پر تشدد کے صاف نشانات تھے۔ اُسے بجلی کے کرنٹ بھی دئے گئے ہیں اور اُس کی ٹانگیں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں‘‘۔ پولیس کی خصو صی ٰ تفتیشی ٹیم اب تک کئی ملزموں کا سراغ لگاچکی ہے لیکن نہ جانے کس منطق کے سہارے فرقہ پرست اور ان کی سیاسی مدد گار بھاجپا کیس کو سی بی آئی کو سونپ دئے جانے کی جتن کر رہی ہے ؟ بھاجپا کے دووزیروں کا ہندو ایکتا منچ کے زیر اہتمام منعقدہ ریلی میں نظر بند ملزم ایس پی او دیپک چھڑاؤ جلسے میں شرکت اور مقامی ایم ایل اے کا قدم قدم پر منچ کے ساتھ رہنا اس بات کی چغلی کھارہاہے کہ زعفرانی پارٹی ریاست میں اور بالخصوص جموں میں مسلم آبادی کے خلاف نومبرسنتا لیس جیسی فضا ہموار کر کے اپنا ووٹ بنک کو اچھے مُوڈ میں رکھنا چاہتی ہے۔ اسی ایک مقصد کے پیش نظر بھاجپا کھلم کھلا ہر حربہ آزماتی جارہی ہے ۔یہ صورت حال ایجنڈا آف الائنس کے روح کے منافی ہی نہیں بلکہ مخلوط حکومت کی دونوں اکائیوں میں مسلم دشمنی پر اتفاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
آصفہ سے چند روز قبل پاکستان میں سات برس کی معصوم زینب کے ساتھ اسی طرح کا المیہ پیش آیا تو اس کی مظلومیت نے سیاسی تقسیم سے بالا بالا پورے پاکستان کو ایک ہی صفحے پر کھڑا کیا ، نتیجتاً اندوہ ناک واقعے کے چند ہی روز میں زینب کے قاتل عمران علی کو گرفتار کیا گیا اور عدالت نے برق رفتاری سے کیس کی شنوائی کر کے اس قاتل وظالم کو4بارپھانسی پر لٹکانے اور32؍لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ افسوس کہ بے چاری آصفہ کے حق میں اہل ہند نے اپنے ہو نٹ تک نہ ہلائے ، نہ کسی چنل کو یہ توفیق ملی کہ اس سنسنی خیز واقعے پر بحث و مجادلہ کا پنڈال کھولتی، اس صریحی جرم پر ہند ی میڈیا میں دکھاوے کی کھلبلی بھی نہ مچی، نہ کسی ایک نیوز اینکر نے اس وحشیانہ عمل پر ٹاک شو منعقد کیا ،نہ کسی بھی قومی نیتا نے اس پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس جب دامنی کا المیہ دلی میں رونما ہو اتو اہل کشمیر نے اس کے خلاف اپنا تیکھا ردعمل ظاہر کر نے میں تھوڑا سا پس وپیش بھی نہ کیا۔ سمجھ میں نہیں آتا وزیر اعظم ہندنریندر مودی پتھر بازوں کو متنبہ کرنے اور کے ا ے ایس امتحان پاس کرنے والے ٹاپر کی تعریف میں رطب اللسان رہے لیکن مقتولہ آصفہ کے بہیمانہ قتل اور عصمت ریزی پر اْن کی زبان سے دو بول بھی نہ نکل سکے۔ جموںو کشمیرمیں نائب وزیر اعلیٰ کے منصب پر براجمان ڈاکٹر نرمل سنگھ، جو کہ ضلع کھٹوعہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، نے بھی آصفہ کو انصاف دلانے میں کچھ بولنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ا س ساری صورت حال کا لیکھا جوکھا یہی ہے کہ اگرمصیبت زدہ اور فریادی مسلمان ہو تو عدم شنوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ بنابریں گجرات کے ہزاروں مقتول مسلمانوں کے بارے میں مودی نے آج تک ہمدردی تو دور ان کا کوئی ذکر تک نہ کیا اور اگر کبھی کچھ اس پرکہا بھی تو مظلومین اور مقتولین کی اہانت ہی کردی۔
کھٹوعہ واقعے کو یہاں مقامی سطح پر ملنے والی کوریج نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم قوم کے بچوں بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادیتوں کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اُن کو جنسی درندوں سے بچانے کے لئے کوئی حفظ ماتقدم کے طور اقدامات کریں۔ ریاست میں ہونے والے دیگر اندوہناک واقعات کی طرح اس واقعہ کو بھی وقت کی گردش دُھندلا نہ دے کہ ہم خواب ِخر گوش میں مست رہیں ۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ سماجی سطح پر منظم اور بیدار ہوکر نونہالوں کے تحفظ کے لئے انتھک کام کریں۔ اس سارے کام میں خلوصِ نیت اور واضح لائحہ عمل بہت ضروری ہے ۔بچوں کے ساتھ زیادتی ایک انتہائی حساس معاملہ ہے ۔ بلاشبہ بچوں کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ پوری دنیا میں پایاجاتا ہے لیکن اس مسئلے کو ایک عام معاملہ کہہ کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ اگر کوئی بچہ یابچی ہمیں بتا دے کہ اس کے ساتھ کسی عزیز رشتہ دار یا قریبی دوست نے کوئی چھوٹی بڑی زیادتی کی ہو تو ہم اس کی بات کو سنجیدگی سے لیں ،بجائے اس کے کہ ا س معصوم کی زبان بندی کر یں بلکہ معاملہ کی تہ میں جاکر حفاظتی تدابیر اختیار کی جانی چاہیے۔ آصفہ کے قتل کو ہمیں ایک الارمنگ سگنل کے طور دیکھتے ہوئے اپنی قوم کے تمام بچوں بچیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنا ہوگا ۔اس المیے سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں ایک جامع سماجی پالیسی مر تب کرنا ہوگی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسے معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت سارے لوگ اُلجھن اور گومگو کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ احتیاط کے تمام پردے قائم رکھتے ہوئے والدین بھی اپنے بچوں کے ساتھ ان نازک معاملات پر کھل کر بات کریں، بچوں کو اتنا حوصلہ اور اعتماد دیں کہ وہ اپنے مسائل والدین سے کھل کر شیئر کر سکیں۔ اپنے بچوں کو اچھائی اور برائی میں تمیز کر نے کی سیکھ دیں تاکہ آنے والے وقتوں میں کوئی بھی آصفہ ایسی درندگی اور سفاکیت کا نشانہ نہ بنے۔
کھٹوعہ ٹریجڈی کے بعد فریقین کی آوازوںکے مثبت اورمنفی ردعمل کے علاوہ قانون وانصاف کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت اور انتظامیہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلدازجلد اس المیہ کے پیچھے ذمہ دار تمام مجرموں اور ان کے عزائم کو ننگا کر کے ا نہیں ازروئے قانون قرار واقعی عبرت آموز سزا دیں تاکہ نہ صرف بچوں اور بچیوں کو احسا س ِ تحفظ ملے بلکہ انسانیت کے مجرموں اور درندوںکو بھی واضح پیغام ملے کہ قانون کے ہاتھوں سے ان کا بچنا اب محال ہے ۔بد قسمتی سے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ قانون کے ہاتھوں مجرم خال خال بھی یہاں نشانہ ٔ عبرت نہ بنا، نہ کسی مظلوم ومقہور کو انصاف ملا،اس لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ مجرموں کے حوصلے بڑھتے رہے ہیں ۔ اب توحالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت اور عدل کے ایوان سے ظالم کی سرکوبی ہونے کی توقع رکھنا فضول اور بے کاردِکھتا ہے۔اس لئے لے دے کے اب تمام نگاہیں ہمارے سماجی و اخلاقی شعور اور تحرک پر مر کوز ہوجاتی ہیںجو ہمیں یہ سجھاتی ہیں کہ معاشرے کی اخلاقی تعمیر نو میں اب مزید تاخیر کر نا خود اپنے وجود سے کھلواڑ کر نے کے مترادف ہے ۔ حق یہ ہے کہ اگر ہم میں اتنی اخلاقی بیداری اور سماجی یکتائی ہوتی تومظلومہ آصفہ کی جانب بڑھنے والا شیطانی ہاتھ قانونِ انسانیت توڑنے کی صورت میں اپنی لٹکتی لاش بہ چشم ِتصوردیکھ کر مجرمانہ حرکت سے ممکنہ طور باز آتا۔ اس لئے آئیے ہم آصفہ کے مقدس خون اور ناقابل برداشت ہلاکت کی قسم کھا ئیں کہ اپنے درمیان ہرآصفہ اور ہر زینب کی حفاظت کے لئے ہم سب اپنے سماج میں ہمہ وقت اور ہمہ جہت چوکنا رہیں گے ،نیز انسانیت کے مجرموں کا کلی استیصال ایک ناقابل تردید حقیقت بنتے دیکھنے کے لئے اس دن کا منتظرر ہیں گے جب آصفہ کے قاتل کو تختۂ دار تک پہنچاکر عدل کے بنیادی تقاضوں کو پوار کیا جائے گا۔
فون نمبر9419590601