رسانہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ معصوم بچی آصفہ کے ساتھ جو بدترین و بھیانک سلوک ہوا، اس نے جموں وکشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا اور اس مسئلے پر بلا لحاظ مذہب و ملت ،رنگ ونسل اور علاقائی حد بندی کے سارے دنیا لرز اٹھی ۔ ہندوستان کو بین الاقوامی سطح پر اس وجہ سے جو ذلت ورسوائی اٹھانی پڑی تاریخ میں اس کی بہت کم کوئی مثال ملتی ہے ۔ اس بدنامی کا دھبہ دھونے اور مستقبل میں اس قسم کے جرائم کی روک تھام کے لئے حکومت کو سخت قانون سازی پر مجبور ہونا پڑا جو ایک اچھا اور مثبت فیصلہ ہے مگر جب تک عوامی سطح پر سوچ وفکر میں اور مجموعی طور پر سماج میں احساس بیداری اور تبدیلی نہ آئے محض سخت قانون سازی اور وہ بھی ایسی کہ جس پر عدالتی طوالت اور پیچیدگیوں کے باعث عمل درآمد کے لئے عمر حضر درکار ہو، یہ اقدام زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکتا ۔ آصفہ ٹریجڈی پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی مستقبل میں بھی لکھا جاتا رہے گا ، چونکہ یہ سانحہ ہی اتنا بھیانک اور درد ناک تھا کہ سن کر ہر درد دل رکھنے والے باضمیر انسان کا دل تڑپ اٹھتا ہے ؎
دل ہی تو ہے سنگ وخشت نہیں درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستا ئے کیوں
یہ بچی مسلمانوں کے گجر قبیلے کے بکروال طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ گجروں کا طبقہ صدیوں سے مجموعی طور پر خانہ بدوش اور بہت زیادہ پسماندہ اور مفلوک الحال چلا آرہا ہے ،جو سال کے بارہ مہینوں میں بمشکل تین ماہ جموں خطہ کے گرمائی علاقوں اور تین ماہ وادی کشمیر کے اس پار تلیل گریز اور پہلگام وامر ناتھ کی بلند وبالا پہاڑیوں وچراگاہوں میں تمام بنیادی سہولیات سے محروم اور سفری صعوبتیں جھیل کر اپنا مال مویشی پالتا ہے ۔ یہ اس کا واحد ذریعہ معاش اور پیشہ ہے ۔ اس مفلوک الحال طبقے کو سال میں بمشکل تین تین مہینے دو جگہوں پر مستقل قیام کا موقع دستیاب ہوتا ہے ۔یوں جموں کشمیر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان لوگوں کی کوہ پیمائی کا سلسلہ موسم بہار وخزان کے ساتھ کئی صدیوں اور نسلوں کی تاریخ پر پھیلا ہے ؎
اور چلی بھی جا غنچہ جرس کی صدا پہ اے نسیم
کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا
گجر لیڈروں کے دعوی کے مطابق اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں اس طبقہ کی آبادی پینتیس لاکھ کے قریب ہے اور سب سے زیادہ تعداد خطہ پیر پنچال میں بستی ہے جو تعلیمی واقتصادی لحاظ سے کافی آسودہ و خوشحال اور ریاستی انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر فائز ہے ۔
ہندوستان میں بسنے والے گجروں کی اکثریت ہندو مذہب کی پیروکار ہے جب کہ ریاست جموں وکشمیر کے سارے گجر مذہبی طور پر راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ریاست جموں کشمیر میں طبقاتی کشمکش اور ذات برادری کی بنیادپر مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایک لمبے عرصے سے گجر اور غیر گجر کی تقسیم پر تضادات کی غیر یقینی فضا قائم ہے جس میں مخصوص مفادات کی خاطر بعض خفیہ ہاتھوں کا رول بھی نمایاں ہے اور کچھ گجر لیڈروں کے اپنے اپنے تحفظات اور سیاسی مفادات بھی ہیں جس کی بنیاد پر یہ لوگ الیکشن یا دیگر مختلف مواقع پر گجر کارڈ کھیلنے پر ہمیشہ کمر بستہ اور گجر طبقہ کی عام مسلمانوں سے الگ شناخت قائم رکھنے پر مصر رہتے ہیں بلکہ ان کی سیاست اسی نظریے اور طبقاتی کشمکش پر چلتی وفروغ پاتی ہے ۔اس وجہ سے ریاست کے مسلم سماج میں لمبے عرصے سے زبردست خلیج اور تنائو چلا آرہا ہے۔ گجر لیڈروں کو عام گجر طبقے کی زبوں حالی وپسماندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ وہ گجر عوام کے کندھوں پر سوار ہوکر ہمیشہ ریاست میں قائم ہونے والی ہر حکومت کو یر غمال بناکر اپنا سیاسی سٹیٹس بنانے میں مصروف رہتے ہیں
آصفہ کو نشانۂ ظلم و تشدد بناکر جولرزہ خیز ظلم وجبر ہوا وہ اس معصومہ پر مسلمان جان کر کیا گیا اور یہ ظلم و جبر جموں خطہ میں ہندوتا تحریک کے طویل المیعاد منصوبے کا ایک حصہ ہے ۔اس میں حکومت کی اکائی BJPبالواسطہ پوری طرح ملوث ہے ۔جموں خطہ کے پانچ اضلاع سانبہ ،کٹھوعہ ،ادھمپور ،جموں اور ریاسی میں مسلم آبادی کا تناسب اس وقت صرف ۱۳فیصد ہے جب کہ ۱۹۴۷ء سے قبل یہ تناسب ۴۲ فیصد تھا ۔ا س ضمن میں راقم کو قرآن مجید کی ایک اصطلاح اولوالقربی یاد آتی ہے ۔اس کا اطلاق قرابت داروں اور اہل قبیلہ کے حقوق کی ادائے پر ہوتا ہے ۔اس کی ایک شکل ان کے دکھ درد میں شمولیت بھی ہے۔ بحیثیت مسلمان اور پھر قرابت داری کے ریاست کی گجر برادری پر مجموعی لحاظ سے یہ فرض ترجیحی بنیادوں پر عائد ہوتا تھا کہ وہ آصفہ کیس میں کھل کر سامنے آتے اور نعرئہ حق بلند کرتے مگر افسوس کے اتنی بڑی آبادی کی زبان کو سانپ سونگھ گیا اور اس طبقے کی جانب سے اس بچی کو انصاف دلانے کی خاطر مجموعی طور پر کوئی موثر آواز بلند نہ ہونا بذات خودایک بڑا المیہ ہے جب کہ ریاستی اسمبلی میں ان کے آٹھ نمائندے صحیح سالم موجود ہیں۔ کٹھوعہ سے اٹھنے والی آصفہ تحریک کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف مرکز کی طرف سے منظور کردہ ۲۰۰۶FOREST.RIGHTS.ACT.کے طرز پر ریاستی قانون سازیہ کو اس قسم کی قانون سازی سے روکنا اور گجروں کو جموں خطہ کی سرکاری وجنگلاتی اراضی سے بے دخل کرنا مطلوب تھا ، حالانکہ ان پر وہ صدیوں سے عارضی طور پر قیام کر کے اپنے مال مویشی کے ذریعے اپنا گزر بسر کرتے آئے ہیںاور ریاستی عوام کے لئے دودھ اورگوشت کی ایک بڑی ضرورت پوری کررہے ہیں ۔آج تک کبھی بھی اس طبقے نے جنگلاتی اراضی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ چونکہ جنگل خود اس کی ذاتی ضرورت اور مال مویشی کے چارے کا ذریعہ ہیاور جب جنگل نہیںتو یہ لوگ مال مویشی بھی نہیں پال سکتے ۔ سابقہ عمر عبد اللہ حکومت میں فاریسٹ کا محکمہ گجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک با اثر لیڈر میاں الطاف صاحب کے پاس تھا جو خود کو گجر بکروال طبقے کا مسیحا کہلاتے ہیں ،وہ آسانی سے مرکزی سرکار کے طرز پر ریاستی اسمبلی میں اسی قسم کا فاریسٹ ایکٹ منظور کرواکر گجر بکروال طبقے کو تحفظ فراہم کر سکتے تھے لیکن بوجو وہ ایسا نہیں کر پائے بلکہ اس سے قبل جب غلام نبی آزاد نے گجروں کو بین الاضلاع ملازمت کی رعایت دی تھی تو اس کی مخالفت میں دیگر لوگوں کے علاوہ میاں الطاف لابی نے بھی بھر پور رول ادا کیا تھا کیونکہ اس سے میاں جی کے مخصوص استحصالی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوچکا تھا ۔ ریاست کا گجر جتنا ان پڑھ اور پسماندہ رہے گا گجر لیڈروں کی سیاسی واستحصالی دکان چلتی و فروغ پاتی رہے گی اور وہ انہیں آسانی سے بلیک میل کر کے حکومت میں اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط بناتے رہیں گے۔ آصفہ معاملے میں گجر لیڈروں اور گجر عوام کی معنی خیز خاموشی اپنے پس پردہ بڑے تلخ حقائق اور ذاتی مفادات کی گھنائونی کہانی رکھتی ہے ۔ آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی بیورو کریسی نے ۱۹۳۰ء کے عشرہ میں جب آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ریاستی مسلمانوں کی واحد سیاسی وملی تحریک بن کر اُبھر رہی تھی تو اس کو سبو تاژ کرنے کے لئے گجر جاٹ کانفرنس کو وجود میں لایا گیا جس کے ریاست کی سیاسی تحریک آزادی پر بہت منفی اثرات پڑے اور پھر ایک ایسی طبقاتی کشمکش پیدا ہوئی جو آج تک مسلسل پھل پھول کر مسلم سماج کا ناسور بن چکی ہے ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اس قوم کو اس وقت بھی درپیش ہے۔ چونکہ ۱۹۴۷ء کے بعد ہندوستانی بیوروکریسی نے سرکاری وغیر سرکاری سطح پر بڑے منظم اور غیر محسوس انداز میں اپنے مخصوص قومی مفادات کی خاطر ریاست کے گجر طبقے کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کر کے مختلف فلاحی لسانی ادبی اور کلچرل تنظیموں کے ذریعے اپنے نیٹ ورک میں شامل کرکے وفود کا تبادلہ، لٹریچر کی اشاعت ،ادبی و کلچرل کانفرنسوں کا انعقاد اوردیگر مختلف محاذوں پر ستر سال سے منظم انداز میں کام کیا ۔ان سرکاری سرگرمیوں سے ریاست کے گجر طبقے کی ایک نسل کی ذہنی وفکری دھلائی کی گئی۔ اسی تناظر میں ۱۹۵۰ء کے عشرہ میں ریاستی گجروں کے لئے شیڈول کاسٹ یا شیڈول ٹرائب کی تحریک شروع ہوئی جس کے روح رواں ریاست کے بعض سرکردہ گجر لیڈر تھے، شیڈول ٹرائب کی تحریک چلتی رہی مگر بوجہ اس میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ہندوستان کی گورنمنٹ نے اسے اپنے ڈیمانڈ چارٹ میں شامل کردیا جس میں اس کا تیرہواں نمبر تھا ، جب کہ ایک طویل عرصہ بیت جانے کے بعد گجر لیڈروں کو اس میں کامیابی کی کم ہی امید تھی کہ اچانک ۱۹۹۰ء کے عشرہ میں ریاست میں عسکری تحریک نے جنم لیا اور اچانک سری نگر کی شاہراہوں پر دو دو لاکھ کے جلوسوںاور نعرہ ٔ آزادی کی گونج شروع ہوگئی ۔اس کا توڑ کرنے اور ریاستی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی غرض سے ہندوستان کی چانکیائی سیاست کے علمبردار متحرک ہوگئے اور ایک دفعہ پھر مہاراجہ ہری سنگھ کی بیوروکریسی کے طرز پر ۱۹۹۱ء میں مرکزی سرکار نے ریاست کے گجر بکروال طبقے کو اچانک شیڈول ٹرائب کے زمرے میںشامل کرلیا، گجر بکروال طبقے کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ ہندوستان کی طرف سے انہیں شیڈول ٹرائپ کا تحفہ اپنے مخصوص قومی مفادات کے تحفظ کے تناظر میں دیاگیا ہے تاکہ ان کی پسماندگی وزبوں حالی کی وجہ سے اور بقول اقبال ؎
ملا کو ہے ہند میں جوسجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
بہر حال آصفہ کے ساتھ جو بد ترین سلوک کیا گیا وہ جموں خطہ میں ہندوتا تحریک اور جموں کے ہندواکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کی آبادیاتی صفایا اور نسل کشی کی تحریک کا سوچا سمجھاحصہ ہے اور گجر بکروال طبقے کا مسلمان ہونا اور جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں آباد ہونا ہندوتا تحریک کے علمبرداروں کو کسی قیمت پر برداشت نہیں۔ اسی ہدف کو بنیاد بناکر یہ اندوہناک سانحہ ترتیب دیاگیا تھااور پھر اسے سیاسی سرپرستی دینے کے لئے ہندوا یکتا منچ وجود میں لایا گیا لیکن آصفہ کیس ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کے پاس جانے ،اس کی منصفانہ اور پیشہ ورانہ تفتیش کے بعد جرم کی اصل کہانی اور آٹھ ملزموں کی گرفتاری کے بعد سے اب تک اس خطہ میں جو مسلم بیزار سرگرمیاں جاری ہیں ، جس طرح سے اس خطہ میںدودھی بھنیاروں سے دودھ پنیر وغیرہ نہ خریدنے ، مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کرنے ، انہیں زمین فروخت نہ کرنے اور بکروال طبقے کو موسم سرما میں عارضی ٹھکانہ فراہم نہ کرنے کے بارے جو بھی پیش بندیاں شروع ہوئی ہیں، ان سے خون خوار فرقہ پرستوں کے پوشیدہ عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جموں کی سنجیدہ ہندو آبادی اور بالخصوص کاروباری انجمنوں نے ان جنو نیوں کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں کا خواب ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا لیکن مسلم آبادی کے سرپر خطرات کے گھنے بادل بدستور منڈلارہے ہیں ، آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں کسی بھی وقت اس خطے میں مسلمانوں کے لئے غیر یقینی حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔۲۰۰۱ء کے بعد بعض مخصوص حلقوں کی جانب سے جموں کا آبادیاتی تناسب بگاڑنے کی آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں۔ یہ منافرت بھری آوازیں ۲۰۰۸ء میں امرناتھ شرائن بورڈ قضیہ کے باعث کھل کر سامنے آگئی تھیں ۔ اس کے ردعمل میں جموں شہر بڑی حد تک اور خطہ پیر پنچال وچناب اور وادی کشمیر کے مسلمانوں سے خالی ہو گیا تھا۔ تا ہم جموں کے سنجیدہ اور دوراندیش طبقے کے عدم تعاون کے باعث حالات پھر کسی حد تک معمول پر آرہے تھے کہ ۲۰۱۴ء کے الیکشن کے بعد ان موذی جراثیم نے پھر سے پھیلنا شروع کردیا ۔اس کی ایک کڑی آصفہ سانحہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔ریاست کی گجر قیادت اور اپنے مفاد کے لئے نئی پیدا ہونے والے حادثاتی گجر لیڈر شپ کی لگام اس وقت مکمل طور پر ناگپور لابی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے وہ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر آصفہ کیس میں کوئی نمایاں رول نہیں ادا کرسکے لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زعفرانی لابی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں اپنے مخصوص مفادات کی خاطر انہیں وقتی طور صرف استعمال کررہی ہیں ۔اس وجہ سے بعض خود غرض گجر لیڈر’’ قومے فروختندو چہ ارزاں فروختند‘‘ کا مصداق بن رہے ہیں ۔ رہے عام گجر قوم تو اس بچارے کو پتہ ہی نہیں کہ ہماری گردنوں کا سودا کہاں کہاں ہورہا ہے ؟ کن ہاتھوں سے ہو رہاہے ؟یہ الگ اتفاق ہے کہ آصفہ کیس میں کشمیر کی ہندوستان نواز لابی اور حریت پسند دونوں یک آواز متحد ہوگئے ،جموں کی ہندو عوام اور کاروباری طبقے نے بھی ساتھ دیا اور پھر نیشنل وانٹر نیشنل سطح پر محض انسانی بنیادوں پر اس کیس نے پذیرائی حاصل کرلی جس کی وجہ سے ریاستی اور مرکزی حکومت اس کیس کو دبانے سرد خانے میں ڈالنے میں فی الوقت کامیاب نہ ہو سکی ورنہ کوئی نہیں جانتا کہ جموں سے لے کر نئی دہلی تک حکمران زعفرانی لابی اس کی پشت پر تھی اور دو وزراء کو وزارت سے برخاست کرنا زعفرانی لابی کی مجبوری بن گئی تھی جب کہ یہ دونوں وزراء آج چیخ چیخ کر سرعام اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں رسانہ احتجاجی ریلی میں پارٹی قیادت نے بھیجا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گجر اور بکروال طبقہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے ،اسلام اور مسلمانوں کا کلچرل آج بھی اس طبقہ میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مذہب اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی غیر متزلزل اور کسی بھی شک وشبہ سے بالا تر ہے ۔اس طبقہ میں بہت سارے بزرگ اور ولی اللہ پیدا ہوئے ہیں اور ریاستی سطح پر اس وقت سب سے زیادہ علماء کی تعداد اسی طبقے کی ہے جو ریاست میں بڑے بڑے دار العلوم چلا رہے ہیں۔ اس لئے گجر طبقہ کے علماء اور اصحاب الرائے احباب کو سوچنا چاہئے کہ آصفہ المیہ کیس میں ان کے لیڈروں کا کیا رول رہا اور آج وہ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر کس طرح ناگپور لابی کے زیر اثر اس اسلام پسند اور فطرت کی نگہبان صحرائی قوم کو کعبۂ مقصود سے ودر لئے جارہے ہیں اور مسلمانوں کے سواد اعظم سے الگ کر کے اس دبے کچلے طبقہ کو ملی واخروی نقصان سے دوچار کر رہے ہیں ۔ واضح رہے مضمون نگار کا تعلق بھی اسی طبقہ سے ہے، اس لئے کسی کو عناد کی غلط فہمی نہ ہو بلکہ جذبۂ اخوت وخیر خواہی کے پیش نظر یہ صلائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لئے!
نوٹ:مضمون نگارچیرمین الھدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر 7006364495