سرینگر//کشمیر اکنامک فورم نے ریزرو بنک آف انڈیا کی طرف سے نامساعد حالات کے دوران متاثر ہوئے کشمیری تاجروں کو قرضہ جات اور اقساط میں راحت دینے پر اپنائے گئے موقف کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ133دنوں سے وادی سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور صنعت کاروں کو جس مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا اس سے اس مرکزی ادارے نے صرف نظر کیا۔تجارتی پیلٹ فارم کشمیر اکنامک فورم کے چیئرمین شوکت محمد چودھری نے کہا کہ وادی میں19ہفتوں تک لگاتار ہڑتال اور قریب3ماہ تک کرفیو اور احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے تاجروں کو بہت زیادہ مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ،اور ریاستی و مرکزی حکومت کو بھی اس بات کا اندازہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مالی اداروں اور بنکوں کی طرف سے تاجروں کو راحت دینے کیلئے اگر چہ ریزرو بنک آف انڈیا کی طرف رجوع کیا گیا تھا تاہم انکی سرد مہری نے وادی کے تاجروں کو شش پنج میں مبتلا کیا ہے۔کشمیر اکنامک فورم کے چیئرمین نے کہا کہ پہلے ہی سیلاب سے کشمیری تاجروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اور اب نامساعد حالات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ بنکوں اور مالیاتی اداروں نے قرضے کے اقساط کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ قرضہ جات کی تشکیل نو و نظام اوقات میں تبدیلی کیلئے جو قدم اٹھایا گیا تھا وہ قابل سراہنا تھا،تاہم ریزرو بنک آف انڈیا نے تاجروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔شوکت محمد چودھری نے سرکار نے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت کرئے اور ریزر بنک آف انڈیا کو اس بات پر مائل کرے کہ بنک قرضہ جات کو ری شیڈول کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ سرکار کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ تاجروں کو راحت دینے کیلئے مرکز کے ساتھ مسئلہ اٹھائے۔اس دوران انہوں نے ریزرو بنک آف انڈیا سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ حالات کا ادراک کرئے اور ازخود اس بات کی تحقیقات کرئے کہ نامساعد حالات کی وجہ سے وادی میں کاروباری حلقوں اور تاجروں کو کس قدر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بعد ہی تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔