سرینگر //نیشنل کانفرنس نے آئینی ترمیمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ مرکز اس قسم کی کارروائیاں عمل میں لاکر آگ کیساتھ کھل رہی ہے۔نیشنل کانفرنس کی طرف سے سنیچرکو تمام ضلع صدر مقامات پر 1954کے آئینی آرڈر میں ترمیم کرکے دفعہ370کو کمزور کرنے کے مرکزی کابینہ کے فیصلے کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے ۔ سنیچر کو نوائے صبح سے ایک جلوس پارٹی لیڈر مبارک گل کی سربراہی میں نکالا، جس دوران مظاہرین نے ’’جس کشمیر کو خون سے سنچا وہ کشمیر ہمارا ہے ‘‘ ’’آرٹیکل 370اور35اے کے ساتھ چھیڑ خوانی نہیں چلے گی نہیں چلے گی ‘‘مودی تیری غنڈہ گردی نہیں چلے گی جیسے نعرے بلند کئے ۔احتجاجی ریلی ٹی آر سی کے نزدیک پہنچی تو پولیس نے مظاہرین کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی اور مظاہرین وہاں ہی پر بیٹھ کر احتجاج کرتے رہے ۔نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے مبارک گل نے کہا کہ آئین میں جو ترمیم کی گئی ہے اس کی کوئی قانونی جوازیت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پورا ملک جنگ کی کشمکش میں تھا اور لوگ خوف کے مارے سہم کر رہ گئے تھے مگر مرکزی سرکار اس ترمیم میں لگی ہوئی تھی ۔انہوں نے کہا کہ اس قانون میں ترمیم کا حق صرف ریاست کے منتخب نمائندوں کو ہے جب تک نہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں تمام لیڈران اُس پر متفق نہیں ہو ں گے اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہیں کی جا سکتی ۔انہوں نے کہا کہ مرکزی کابینہ کویہ حق نہیں بنتا کہ وہ اس میں کسی قسم کی کوئی ترمیم کرے ۔گل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370ملک اور ریاست کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے اور اس کے خلاف ہو رہی سازشوں کا مقابلہ مین سٹریم سے لیکر حریت تک سب کریں گے جبکہ اس حوالے سے قانونی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی اور سپریم کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی جائے گی ۔احتجاج میں ایم ایل اے حبہ کدل شمیمہ فردوس ، عرفان شاہ کے علاوہ پارٹی کے دیگر لیڈران بھی شامل تھے ۔اس دوران وادی کے دیگر علاقوں میں بھی این سی نے ریلیاں نکالیںاور مرکزی سرکار کے خلاف نعرہ بازی کی ۔ ریلوں سے خطاب کرتے ہوئے لیڈان نے کہا کہ دفعہ370اور 35Aپر حملہ ریاست کی شناخت اور انفرادیت پر حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے ان دفعات سے متعلق ایک ہی مو اقف اختیار کر رکھا ہے۔سوپور میں پارٹی لیڈر ارشاد رسول کار نے کہا کہ د فعہ 370ریاست کی شناخت ہے اور اسے کسی بھی صورت میں برقرار رکھنے کیلئے کشمیری کوئی بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔اننت ناگ میں برآمد ہوئی ریلی کی قیادت جنوبی زون صدر ڈاکٹر بشیر احمد ویری ،کولگام ریلی کی قیادت صوبائی ترجمان عمران نبی ڈار، پلوامہ ریلی کی قیادت غلام محی الدین میر، گاندربل ریلی کی قیادت یوتھ ضلع صدر مشتاق احمد، بانڈی پورہ ریلی کی قیادت میر غلام رسول ناز، بارہمولہ ریلی کی قیادت جاوید احمد ڈار، کپوارہ ریلی کی قیادت قیصر جمشید لون، بڈگام ریلی کی قیادت وسطی زون صدر علی محمد ڈاراور حاجی عبدالاحد ڈارکررہے تھے۔ ان احتجاجی ریلیوں میں پارٹی کے کئی سینئر لیڈران نے بھی شرکت کی ۔
۔35 اے ختم کرنے کیلئے مرکزایک قدم دور:سیول سوسائٹی گروپ
۔15 روز کے اندرآئینی ترمیم واپس لی جائے
بلال فرقانی
سرینگر//صدر ہند کی طرف سے 1954 کے صدارتی حکم نامے کی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے متحرک سیول سوسائٹی گروپ ’کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز‘ نے الٹی میٹم دیا کہ اگر 15 دنوں کے اندر اس حکم نامہ کو منسوخ نہیں کیا گیا تو تجارتی،صنعتی اور سیول سوسائٹی انجمنوں کے علاوہ بار ایسو سی ایشن کی آپسی مشاورت سے جامع عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔ ’کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز‘نے واضح کیا کہ حکومت اپنے ہی نمائندے کی سفارشات پر1954کے صدارتی حکم نامے کی ترمیم نہیں کرسکتی۔سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیول سوسائٹی گروپ کی سربراہ پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا ’’1954 کے صدارتی حکم نامہ کے تحت جموں کشمیر میں کسی بھی آئینی فراہمی کی درخواست،نافذ نہیں کی جاسکتی،بلکہ منتخب ریاستی سرکار کی منظوری ،جو کہ اصل میں آئین ساز اسمبلی ہے،کے بعد دفعہ370شق (1) کے تحت صدارتی حکم نامہ جاری کیا جاسکتا ہے‘‘۔انہوں نے دفعہ370سے متعلق قانونی ماہرین اے جی نورانی اور امن ہنگرونی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین ساز اسمبلی کی عدم موجودگی،جموں کشمیر میں کوئی بھی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا،اور وقت وقت پر جو بھی قوانین نافذ العمل بنائے گئے، کالعدم ہیں۔ پروفیسر حمیدہ نعیم نے بتایا کہ اگر چہ اس قانون کو وقت وقت پر حکومتوں نے کھوکھلا کردیا ،تاہم اس کے باقیات کو جمہوری و متعلقہ ضوابطہ اور سیاسی وعدوں کو نظر انداز کے علاوہ’’فریب کارانہ طریقہ کار سے تاریخ کے کوڈے دان کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں اس طرح کا حکم نامہ جاری کرنے سے قبل ریاستی سرکار کی منظوری،مشاورت اور مباحثہ لازمی ہے،جبکہ منظوری کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ریاست کی رسمی مہر ثابت کی جائے بلکہ منتخب ریاستی سرکار کی طرف سے اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ حکم نامہ عام شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے تو اس کو مسترد کرنے کا حق انہیں حاصل ہے۔ حمیدہ نعیم نے کہا کہ فی الوقت جب ریاست میں صدارتی راج نافذ ہے،تو آئین ہند کے کسی جز کو ریاست میں لاگو نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کیلئے منتخب سرکار کا انتظار کرنا ہوگا۔ انہوں نے تاہم الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت صدر ہند نے اپنے ہی نمائندے یا ریاستی گورنر سے منظوری حاصل کر کے77ویںاور103ویں ترمیم کو ریاست میں نافذ کر کے ’’یادگاری دھوکہ‘‘ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئین ہند کی77ویں ترمیم ریاست میں24برسوں کے بعد لاگو کی گئی،اور اس دوران4منتخب حکومتیں موجود تھیں،اور انہوں نے کھبی اس کو نافذ کرنے کی منظوری نہیں دی۔ اس حکم نامے کے سنگین نتائج برآمد ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر حمیدہ نعیم نے کہا کہ35اے سے چھیڑ چھاڑ کرنے کیلئے یہ صرف ایک قدم کی دوری پر ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے جب1986میں گورنر راج کے دوران صدر ہند نے دفعہ370کے تحت راجیہ سبھا قرارداد کو استحکام بخشنے کیلئے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے دفعہ249 کو لاگو کیا تاکہ ریاستی فہرست میں شامل معاملات پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے لیس کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس میں بھی مرکزی حکومت کے نمائندے اور اس وقت کے گورنر جگمہوہن نے منظوری دی تھی،تاہم1987میں برسر اقتدار آنے والی حکومت نے بھی اس کو مسترد کرنیکے خلاف کچھ نہیں کیا۔پروفیسر حمیدہ نعیم نے تاہم کہا کہ عبدالرحیم راتھر اور محمد شفیع اوڑی نے ہائی کورٹ میں اس کو چیلنج کیا،جو کہ فی الوقت زیر التواء ہے۔ انہوں نے صدر ہند سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اس حکم نامہ کو منسوخ کیا جائے،اور ریاست کے سیاسی وعدوں اور آئینی ضوابط کے علاوہ جمہوری ضابطہ اخلاق کا احترام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہند اور ریاستی گورنر نے ان ترامیم کو اگر15روز کے دوران واپس نہیں لیا،تو جامع عوامی ردعمل پیش کیا جائے گا۔
مسئلہ حساس :چیمبر
قانو نی مشاورت ناگزیر
نیوز ڈیسک
سرینگر//کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزنے جموں کشمیر آئین میں حالیہ ترامیم کو لاگو کرنے کے فیصلے پر قانونی مشاورت طلب کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشترکہ ردعمل کیلئے فریقین کو تعاون فرہم کرے گی۔ چیمبر نے کہا کہ اس وقت جب ریاست میں صدارتی راج نافذ ہے،گورنر کی منظوری حاصل کر کے ترامیم لاگو کرنا‘‘اس آئینی ضمانت پر حملہ ہے جو جموں کشمیر کے لوگوں کو دی گئی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا’’ انتخابی مفادات اور فوائدوں کیلئے حکمران جماعت آئینی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے میں نہ عار محسوس کرتی ہے،اور نہ اس بات کا پاس لحاظ ہے کہ قانونی اور اخلاقی طور پر اس طرح کا عمل کس طرح کیا جاسکتا ہے‘‘۔کشمیر چیمبر نے کہا’’ جموں کشمیر کے عوام پر کسی بھی قانون کی پاسداری پر عمل تھونپا نہیں جاسکتا،اور بالخصوص اس وقت ،جب ریاست میں صدارتی راج کا نفاذ ہو،اور یہ عمل جمہوری اصولوں کے منافی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ریاستی گورنر کی طرف سے منظوری کیلئے ارسال کی گئی یہ تجویز غیر آئینی ہے۔کشمیر چیمبرنے راج بھون کی طرف سے غیر یقینی سیاست پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر حیرانگی ظاہر کی کہ کس طرح اہم و حساس نوعیت کے معاملات کے ساتھ متواتر طور پر چھڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔
۔35اےکا معاملہ کسی خاص خطے کیساتھ منسلک نہیں
جموں اور لداخ کو کشمیر سے زیادہ نقصان کا اندیشہ
بویک ماتھر
جموں//راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے ہفتہ کے روز کہا کہ35اےکا معاملہ ریاست کے پشتینی باشندگان کے مفادات سے جڑا ہے، یہ کسی خطہ یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ، اگر اس دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی تو اس سے کشمیر کی نسبت جموں اور لداخ خطہ کے لوگ زیادہ متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ تینوں خطوں کے لوگ اس دفعہ کے تحفظ کیلئے متحد ہو گئے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آزاد نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس جماعت اسلامی کارکنان کیخلاف ٹھوس ثبوت ہوگاتویقینی طور پر کارروائی ہوگی لیکن سر دست کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا ، جماعت کارکنان سے ملنے والے مواد کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کا ایکشن صحیح ہے یا نہیں ۔ تاہم آزاد نے کہا کہ ایسی کارروائی بلا لحاظ مذہب و ملت ایسی تمام تنظیموں کے خلاف کی جانی چاہئے جو کسی بھی قوم کے خلاف منافرت پھیلانے کے قصور وار پائے جائیں۔آزاد نے پونچھ راجوری رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کیلئے پاکستان کی مذمت کرتے ہوئے ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ پلوامہ حملے کے مہلوکین نیز جموں کشمیر میں جنگجوئیت متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس ملی ٹینسی کے خاتمہ کیلئے وعدہ بند ہے اورا س کے لئے جو بھی ممکن ہوگا کیا جائے گا۔