جوں جوں پارلیمانی انتخابات نزدیک آتے جا رہے ہیں، ملک بھر میں سیاست دان نت نئے نسخے آزمانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ریاست جموں و کشمیر میں بھی سیاسی تنظیمیں اپنے اپنے سیاسی اسلحہ کی دھار تیز کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ جہاں نیشنل کانفرنس کا ریاست کی خصوصی آئینی شناخت کے ساتھ پیار پھر سے جاگ اُٹھا ہے وہیں پی ڈی پی کو اب نریندر مودی اور اُن کی بی جے پی میں وہ سب خامیاں ایک دم سے نظر آنے لگی ہیں، کچھ ماہ قبل جن کا ذکر بھی گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا جاسکتا تھا۔ ریاستی کانگریس، بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانا کے مصداق راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پارٹی کی جیت کا جشن ریاست جموں کشمیر میں مناکر یہ عندیہ دینے کی کوشش کررہی ہے کہ جو کچھ وہاں ہوا، یہاں بھی ہونے والا ہے۔ پیپلز کانفرنس بھی پرانے چہروں کو ہی لے کر بدلائو کی بات کرتے ہوئے اکھاڑے میں اُترنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔لیکن اس چنائو کا اصلی سٹیج ریاست جموں و کشمیر میں نہیں بلکہ کہیں اور ہے اور وہاں بھی نئی نئی پینترے بازیاں ہو رہی ہیں۔
کچھ دن قبل ممتا بینر جی نے کلکتہ میں اپوزیشن کے لگ بھگ سارے بڑے لیڈروں کو جمع کر کے مہا گٹھ بندھن کا ایک شاندار جلسہ کرایا جس میں لا کھوں لوگوں نے شرکت کی۔لوگوں کے اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تمام قائیدین نے نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کی صورت میں ہند وستانی آئین کو در پیش خدشات کا ذکر کیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجری وال نے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے مودی کو ہٹلر کے برابر کھڑا کردیا اور کہا کہ جس طرح جرمنی کا چانسلر بن کر ہٹلر نے آئین کو رد کردیا اور انتخابات پر روک لگادی، ویسا ہی مودی اور امیت شاہ کریں گے اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے۔
مہا گٹھ بندھن ریلی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ملک بھر کے لگ بھگ سارے بڑے لیڈران اس میں شامل تھے اور جو خود نہ آسکے،انہوں نے اپنے نمائندے بھیجے تھے۔لیکن اس سے بھی بڑی کامیابی یہ تھی کہ ریلی کے انعقاد نے نریندر مودی کو منہ کھولنے پر مجبور کردیا۔جس دن کلکتہ میں یہ ریلی ہو رہی تھی، اسی دن مودی بھی گجرات میں کسی جگہ ایک جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔ جس طرح سے مودی نے اپنی تقریر میں مہا گٹھ بندھن کی کھلی اُڑانے کی کوشش کی، اس سے لگتا تھا کہ اس ریلی نے اُن کی کسی دُکھتی پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
مہا گٹھ بندھن کس حد تک مودی کو آنے والے الیکشن میں ٹکر دینے میں کامیاب ہو گا، یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے لیکن جس طرح سے بی جے پی ہندوتوا کا جاپ کرنے لگی ہے، جس طرح سے مندر بنانے کا ڈھنڈورہ پیٹا جانے لگا ہے اور جس طرح اقلیتوں، خاص کر مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جا رہا ہے ،اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وکاس کا نعرہ بھول کر بی جے پی نے اس الیکشن میں مذہب ہی کی سوداگری کرنے کا من بنا لیا ہے۔دوسری طرف اگر گٹھ بندھن کے سر پر کوئی خطرہ منڈ لا رہا ہے تو وہ ہے مختلف لیڈروں کی ذاتی ا نا۔ مایا وتی اور اکھلیش یادو نے اُتر پردیش میں ہاتھ تو ملا لیا لیکن دونوں کانگریس کو الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر کانگریس اکیلے الیکشن میں اترتی ہے تو ووٹوں کا بٹوارہ ہوگا اور فائیدہ صرف اور صرف بھا جپا کا ہی ہوگا۔مایا وتی کانگریس کے ساتھ اس لئے جڑنا نہیں چاہتیں کیونکہ وہ خود وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر نظریں جمائی بیٹھی ہیں۔
ممتا بینر جی بھی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں لیکن وہ ابھی تک پختگی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہیں اور اس ریلی کا انعقاد کرکے بھی اُنہوں نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ الیکشن کے اختتام تک اُن کا فقط مودی کو ہرانے کا مشن ہے اور بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ مراٹھا لیڈر شردپوار بھی ملک کی سب سے بڑی کرسی پر نظریں ٹکائے بیٹھے ہیں۔ راجستھان، مد ھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں حالیہ کامیابی کے بعد کانگریس کے حوصلے خاصے بلند ہو گئے ہیں۔ اُن کا ’پپو پاس ہو گیا ہے‘ اس لئے وہ بھی وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر نشانہ تاکے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ لیڈران ذاتی انا کو قابو میں رکھ سکے تو ممکن ہے کہ وہ نریندر مودی۔امیت شاہ جُگل بندی کا کچھ توڑ کر سکیں۔ اگر نہیں تو ہر ریاست میں ووٹوں کا بٹوارہ ہوگا اور ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بٹوارے کا فائدہ صرف اور صرف دائیں بازو کی جماعتوں کو ہی ملتا ہے۔
اب آتے ہیں اپنی ریاست جموں و کشمیر کی جانب۔ کچھ ماہ قبل یہاں بھی مہا گٹھ بندھن کی بات چلی تھی۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس نے یکجا ہو کر سرکار بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ شومئی قسمت راج بھون کی فیکس مشین ٹھیک سے کام نہیں کر رہی تھی اور یوں وہ سرکار بن نہیں پائی اور گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کردی۔ اُس وقت یوں لگا تھا کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی آرٹیکل 35 A کے عشق میں اس شدت سے مبتلا ہیں کہ ہزار ہا اختلافات کے باوجود یہ دونوں اس آرٹیکل کے دشمنوں کو ریاست میں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ایک مثالی اتحاد کی داغ بیل ڈالیں گے۔ لیکن اُدھر اسمبلی تحلیل ہوئی، ا دھر اس اتحاد کے غبارے سے ہوا خا رج ہو گئی اور دونوں نے ثابت کردیا کہ ان کا ایک ساتھ آنے کا مقصدفقط یہ تھا کہ پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو روکا جاسکے تاکہ کوئی نئی طاقت بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں حکومت نہ بناسکے۔حکومت نہ بنانے کی حد تک تو یہ پینترہ کامیاب رہا لیکن پی ڈی پی کو ٹوٹ پھوٹ سے نہ بچا سکا۔
اسمبلی تحلیل ہوتے ہی دونوں پارٹیوں کے بیچ ایک بار پھر شدت سے الفاظ کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر سنگین الزامات کے تیر برسا رہی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو ریاست کی غیر یقینی صورتحال کا ذمہ دار گردان رہی ہیں۔ این سی کو اخوان اور ٹاسک فورس کے طعنے دئے جارہے ہیں تو پی ڈی پی پر ریاست کو ہندوتوا سیاست کی زد میں لانے کا ا لزام ہے۔ عمر عبداللہ مرحوم مفتی محمد سعیدپر تنقید کرتے ہیں تو محبوبہ مفتی ان پر وار کرتی ہیں کہ ایک ایسے شخص کو کیوں نشانہ بنایا جائے جو زندہ نہیں اس لئے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عمر عبداللہ در جواب کہتے ہیں کہ اُن کے دادا مرحوم شیخ محمد عبداللہ بھی تو حیات نہیں پھر پی ڈی پی ان کو ہدف تنقید کیوں بناتی رہتی ہے، وغیرہ، وغیرہ۔
ملک بھر میں جو مہا گٹھ بند ھن بن رہا ہے، اُس سے ملک بھر کی تمام جمہور پسند اور سیکولر طاقتوں کو بہت حوصلہ ملا ہے۔ ایک بہتر مستقبل کے حوالے سے اُن کی امیدیں پھر سے جاگ اُٹھی ہیں ۔ خدشات اور وسوسے اپنی جگہ، لیکن اس گٹھ بندھن نے مودی کی نیند حرام کردی ہے۔لیکن ہمارے یہاں گٹھ بندھن کا صرف ایک مقصد تھا، کرسی حاصل کرنا۔ کرسی حاصل نہ ہو سکی تو ’وسیع تر ریاستی مفاد‘ کا نقارہ بھی بند کر دیا گیا۔ ہمارے یہاں کی سیاسی پارٹیوں کو جب کسی چیز کی طلب ہو تو اسے حلال قرار دیتے ہیں اور جب ضرورت نہیں رہتی تو وہ غلیظ اور حرام قرار دی جاتی ہے۔ بقول کسے۔
جتھے ساڑا نور جمال، کتا کھوتا سب حلال
……………………
ماخوذ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم ‘‘ سری نگر