مسعود محبوب خان
دنیا کی ہنگامہ خیز زندگی میں ہم سب ایک ناپیدا کنار اضطراب سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی خوشی کی ایک جھلک ملتی ہے، تو کبھی دکھ کا بادل گھیر لیتا ہے۔ کبھی انسانوں کی بھیڑ میں خود کو تنہا محسوس ہوتا ہے اور کبھی خاموشی کے شور میں دل چیخ اٹھتا ہے۔ ایسے میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب انسان اپنی ساری ظاہری و باطنی طاقتوں کے باوجود ٹوٹنے لگتا ہے۔ لفظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، تعلق بوجھ بننے لگتے ہیں اور امید کی طنابیں ہاتھ سے چھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ایسے ہی لمحوں میں دل کسی ایسے سہارے کی تلاش کرتا ہے جو کبھی نہ چھوٹے، جو فقط باتیں نہ کرے بلکہ دل کو تھام لے، آنکھوں کے نم کو سمجھ لے اور روح کی تھکن کو اپنی محبت سے دھو ڈالے۔ تب آسمان سے نہیں، زمین پر اُتری ہوئی ایک کتاب’’ القرآن‘‘ دل پر دستک دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’میں یہاں ہوں۔تمہارے درد کو جانتا ہوں، تمہارے آنسوؤں کا حساب رکھتا ہوں اور تمہارے دل کے زخموں پر اپنے ربّ کی معیت کا مرہم رکھتا ہوں۔‘‘قرآن، محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ دل رکھنے والے انسان کے لیے الٰہی رفاقت کی زبانی تصویر ہے۔ یہ کتاب تنہا انسان کے پاس آتی ہے، اُسے تھامتی ہے، چپکے سے کان میں کہتی ہے: ’’میں جانتی ہوں تم پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘ اور پھر ایک آیت، صرف ایک آیت وہ کام کرتی ہے جو دنیا کی تمام نفسیاتی تھیراپی، مشاورتی گفتگو اور دلاسے نہیں کر سکتے۔ ’’لَا تَخَافَا ۚ اِنَّنِى مَعَكُمَا اَسمَعُ وَ اَرٰى‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت 46)۔ ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ آیت محض ایک جملہ نہیں، یہ ایک وجود کا سہارا ہے۔ یہ ایک اعلان ہے کہ ’’اے انسان! میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری خاموشیوں میں، تمہارے سجدوں میں، تمہاری بےبسیوں میں، میں ہوں۔‘‘
انسانی زندگی میں سب سے گہرا دکھ وہ ہوتا ہے جب دل اپنا حال سنانا چاہے اور سننے والا کوئی نہ ہو۔ جب آنکھوں کی نمی کو لفظوں کی حاجت نہ ہو، مگر سامعین صرف رسمی کلمات میں الجھے ہوں۔ قریبی چہروں کا اجنبی بن جانا اور سہاروں کا صرف ظاہری ہونا، دل کو اس مقام تک لے آتا ہے جہاں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے ہجوم میں اکیلا رہ گیا ہے۔ ایسے ہی لمحوں میں الٰہی معیت کا تصور ایک ٹھنڈی چادر کی مانند روح پر اترتا ہے۔ یہ صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ ایک وجودی یقین ہے کہ کوئی ہے جو تمہاری ہر آہ سنتا ہے، ہر خاموشی کو پڑھتا ہے، ہر آنسو کا وزن جانتا ہے۔ اللہ کی معیت کا یہ احساس ایک مجروح دل کے لئے وہ تسکین ہے جسے الفاظ بھی نہیں بیان کر سکتے۔
دنیا کے تعلقات اکثر مفادات کے ترازو میں تولے جاتے ہیں، وعدے وقت اور حالات کی دھوپ میں اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ مگر جو وعدہ ربّ العالمین کرتا ہے — ’’إِنِّي مَعَكُمَا‘‘ — وہ نہ وقت کی گرد سے دھندلا ہوتا ہے، نہ زمانے کے تغیرات سے کمزور پڑتا ہے اور نہ ہی موت یا مصیبت اسے منقطع کر سکتی ہے۔ یہ ایک دائمی وعدہ ہے ازل سے ابد تک قائم، ہر سچے دل کے لیے زندہ و مؤثر۔ یہ قرآنی اعلان صرف تسلی نہ تھا بلکہ یہ ہر اس دل کے لیے ابدی پیغام ہے جو کسی بھی فرعونی قوت، باطنی بےیقینی یا جذباتی تنہائی کا سامنا کر رہا ہو۔ جب تمہارے قدم لرز رہے ہوں، سجدوں میں آنکھیں بھیگ رہی ہوں اور تمہارے الفاظ تمہارا ساتھ چھوڑ دیں تب یہ آیت گویا دل پر دستک دیتی ہے: ’’میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘ اس ایک جملے میں دنیا و مافیہا کی سب سے بڑی طاقت سمیٹ دی گئی ہے۔
معیتِ الٰہی، صرف جسمانی ساتھ کا نام نہیں۔ یہ روحانی قربت، قلبی ہمراہی اور شعوری اعتماد کی وہ دولت ہے جو انسان کو خوف سے امن اور کمزوری سے حوصلے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ معیت اس وقت بھی باقی رہتی ہے جب ہر دروازہ بند ہو جائے، ہر شمع بجھ جائے، ہر راستہ دھندلا جائے۔ یہی وہ نور ہے جو تنہائی کے اندھیروں کو چیر کر دل میں سکینت کی روشنی بکھیر دیتا ہے۔ پس، اے دلِ مضطر! جب دنیا تمہیں نہ سمجھے، جب تعلقات کا بوجھ تمہیں تھکا دے، جب تمہاری دعائیں سنائی نہ دیں، تو اللہ کی معیت پر یقین کو سینے سے لگا لو۔ یہی وہ ہاتھ ہے جو تمہیں گہرے اندھیروں سے نکالے گا، یہی وہ ہمراہی ہے جو تمہیں تم سے بھی زیادہ جانتی ہے اور یہی وہ ربّ ہے جو تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔
جب قرآن لمسِ ربّ بن جائے۔
کبھی کبھی زندگی کی خاموش راتوں میں، جب ہر آواز سو چکی ہوتی ہے، ایک دل ایسا بھی ہوتا ہے جو جاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ دل جو دنیا کی بھیڑ میں کھو گیا، الفاظ کی بھیڑ میں سنّا ہو گیا اور رشتوں کی موجودگی میں بھی تنہا ہو گیا۔ ایسی ہی ایک ساعت میں جب وہ دل ربّ کے حضور جھک جاتا ہے اور پیشانی سجدے میں بھیگتی ہے ،تب آسمان خاموش ہوتا ہے، مگر ایک خاموش ہمکلامی برپا ہو جاتی ہے۔ وہ سجدہ، جس میں نہ کوئی لفظ ہوتا ہے، نہ کوئی شکایت صرف آنسو ہوتے ہیں اور ایک ٹوٹا دل ایسے لمحے میں اگر قرآن کی کوئی آیت دل سے ٹکرا جائے تو وہ محض ایک آیت نہیں رہتی۔ وہ لمسِ الٰہی بن جاتی ہے، وہ کلام خدا گویا خود اپنی ذات سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ دل کو تھامتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات کے ربّ نے اپنا ہاتھ تمہارے شکستہ دل پر رکھ دیا ہو اور کہہ رہا ہو: ’’میں جانتا ہوں،تمہارے دل پر کیا بیت رہی ہے۔ میں جانتا ہوں تم کیوں ٹوٹ رہے ہو۔ لیکن یاد رکھو، تم میرے قبضۂ رحمت میں ہو، میں نے تمہیں تھاما ہوا ہے۔‘‘
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب قرآن محض تلاوت کی چیز نہیں رہتا، وہ ایک زندہ ہمراز بن جاتا ہے۔ وہ تمہارے گریہ کو سنتا ہے، تمہاری خاموشیوں کو سمجھتا ہے اور تمہاری فریادوں کا ترجمہ خود ربّ کے حضور پیش کرتا ہے۔ قرآن کو محض پڑھنے کے لیے نہ اٹھاؤ، اسے اپنے دل پر رکھنا سیکھو۔ جب تمہارا دل بکھرنے لگے، آنکھیں بے سبب چھلکنے لگیں اور زبان پر الفاظ آنے سے انکار کر دیں، تو اسی خاموشی میں قرآن کی ایک آیت کو اپنے اندر دہرا لینا — ’’لَا تَخَافَا، إِنِّي مَعَكُم‘‘۔ ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ یہ صرف الفاظ نہیں، یہ ایک الٰہی یقین ہے۔ یہ وہ لمس ہے جو خوف کو پگھلا دیتا ہے، دل کی درزوں کو بند کر دیتا ہے اور روح کی تھکن کو مٹا دیتا ہے۔
انسانوں کی تسلیاں، چاہے وہ کتنی بھی مخلص کیوں نہ ہوں، اکثر دل کی اس گہرائی تک نہیں پہنچ پاتیں جہاں ٹوٹ پھوٹ کا اصل مرکز ہوتا ہے۔ مگر جب قرآن خود تم سے بات کرے، تو وہ تمہارے دل کی سب سے آخری پرت تک اتر جاتا ہے۔ وہ وہاں پہنچتا ہے جہاں صرف ربّ کی محبت پہنچ سکتی ہے۔ پس، اے دل شکستہ! جب تمہیں کسی آغوش کی ضرورت ہو، کسی کاندھے کی تلاش ہو، کسی ایسی آواز کی طلب ہو جو تمہارے اندر کی صداؤں کو سمجھے تو قرآن کو تھام لو۔ وہ کتاب نہیں، ربّ کی آغوش ہے۔ وہ تمہیں تسلی نہیں دیتا، تمہیں اپنے ساتھ لے لیتا ہے۔
اللہ کی معیت! یہ محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور زندگیاں بدل دینے والا احساس ہے۔ یہ وہ نور ہے جو محض آنکھوں کو نہیں بلکہ دلوں کے اندھیروں کو منور کرتا ہے۔ جب خوف، مایوسی، بےیقینی اور تنہائی اپنے پنجے گاڑتی ہیں، تب یہی ربّ کی معیت ہے جو تاریکی کے پردے چاک کرتی ہے اور قلبِ خائف کو سکینت اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہ معیت ایک ایسا نادیدہ سایہ ہے جو طوفانوں میں بھی اپنے محبوب بندے پر سایہ فگن رہتا ہے۔ جب انسان اپنی حدوں سے مایوس ہو جاتا ہے، تب ربّ کی معیت اپنی لا محدود وسعتوں کے ساتھ اس کے وجود پر چھا جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو ظاہری سورج کے بجھ جانے کے بعد بھی دل کے اندر جلتی رہتی ہے۔
یہ صرف نور ہی نہیں بلکہ حرارت بھی ہے ،ایسی حرارت جو سرد تنہائیوں میں امید کی تپش پیدا کرتی ہے۔ وہ تنہائیاں جو عام حالات میں انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہیں، جب ربّ کی قربت کا احساس ان کے اندر اترتا ہے تو وہی تنہائیاں روحانی خلوت میں بدل جاتی ہیں۔ بندہ پھر ان لمحوں کو بےرنگ خاموشی نہیں سمجھتا بلکہ انہیں ربّ کی قربت کے خاص لمحات جانتا ہے، جہاں ہر آہ کو جواب ملتا ہے اور ہر خاموشی میں صدا چھپی ہوتی ہے۔ پھر یہ معیت صرف جذباتی سہارا نہیں بلکہ عملی طاقت بھی بن جاتی ہے۔ وہ دل جو تھکن سے بوجھل ہو چکا ہو، جس پر دنیا کے دباؤ، تعلقات کے بوجھ اور ناامیدی کے دھندلے سایے چھا چکے ہوں جب ’’اِنِّی مَعَكُمَا‘‘ کی صدا اس دل سے ٹکراتی ہے، تو وہ دل پہاڑ جیسا حوصلہ پا لیتا ہے۔ شکستہ ارادے پھر سے جڑنے لگتے ہیں اور لرزتے قدموں کو سمت اور ثبات مل جاتا ہے۔
تو اے مسافرِ زندگی! جب زندگی اپنی بےرحمیاں دکھائے، جب حالات کی گرد تمہارے حوصلوں کو دھندلا دے اور جب تمہیں یوں لگے کہ کوئی تمہارے ساتھ نہیں ،بس اتنا یاد رکھنا: ’’اِنِّی مَعَكُمَا‘‘۔’’میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘ یہ جملہ کوئی ماضی کا واقعہ نہیں، یہ ایک ابدی پیغام ہے۔ یہ آیت تمہارے ساتھ طلوع ہوتی ہے، تمہارے ساتھ چلتی ہے اور تمہارے سونے کے بعد بھی تمہاری روح کی رکھوالی کرتی ہے۔ یہ صرف قرآن کی سطر نہیں، یہ ربّ کا وعدہ ہے۔ ایسا وعدہ جو وقت سے بالا تر، جگہ سے آزاد اور حالات سے بےنیاز ہے۔ یہی آیت تمہارا سہارا ہے جب سب سہارے چھوٹ جائیں۔ یہی آیت تمہاری روشنی ہے جب ہر طرف اندھیرا چھا جائے۔ یہی آیت تمہاری امید ہےجب سب در بند ہو جائیں۔ پس، اس روشنی کو بجھنے نہ دینا، اس حرارت کو سرد نہ ہونے دینا، اس طاقت کو بھولنے نہ دینا۔ کیونکہ یہی وہ معیت ہے جس نے موسیٰؑ کو فرعون کے سامنے بےخوف کھڑا کر دیا اور یہی وہ معیت ہے جو تمہیں تمہارے ہر فرعونِ وقت کے خلاف ثابت قدم رکھے گی۔
زندگی کی آزمائشیں، زخم، تنہائیاں اور نامعلوم راستے یہ سب ہمارے سفر کا حصّہ ہیں۔ مگر اس سفر میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ ہمارا ربّ، جو سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے اور دلوں کا حال جاننے والا ہے، وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب دل تھک جائے تو یاد رکھو: تمہیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے کسی بڑی طاقت کی نہیں، صرف ایک یقین کی ضرورت ہے! ’’اللہ کی معیت پر یقین‘‘ یہ معیت وہ سرمایہ ہے جو بندے کو کائنات کی سب سے بڑی طاقت سے جوڑ دیتی ہے۔ جسے یہ احساس ہو جائے کہ ’’ربّ میرے ساتھ ہے‘‘ وہ شکست سے نہیں ڈرتا، تنہائی سے نہیں گھبراتا اور اندھیروں میں بھی راستہ پا لیتا ہے۔ تو اے دلِ مضطر! جب بھی ہمت ہارنے لگے، صرف اتنا کہہ دینا: ’’حسبیَ اللّٰہ، لا اِلٰہَ اِلّا ہُو، عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ، وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ میرے لیے اللہ کافی ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہی، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا ربّ ہے۔
رابطہ۔ 09422724040