پی ایم اے وائی کی فہرست سے باہر اور خالی جاب کارڈ،دیہی ترقی محکمہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
محمد بشارت
کوٹرنکہ // ضلع راجوری کے سب ڈویڑن کوٹرنکہ کے بلاک بدھل نیو کی پنچایت اپر ترگائیں کی وارڈ نمبر 1کا رہائشی غلام محمد ولد سعید ایک ایسے عام شہری کی مثال ہے جو سرکاری اعلانات، اسکیموں اور فلاحی وعدوں کے باوجود زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے ترستا ہوا نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے غریب طبقے، بالخصوص بی پی ایل زمرہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی باز آبادکاری اور مدد کے لئے چلائی جانے والی درجنوں اسکیموں کے باوجود غلام محمد آج بھی ہر طرح کی سرکاری مدد سے محروم ہے۔غلام محمد کا گھر بوسیدہ ہو چکا ہے، دیواریں دراڑوں سے بھری ہیں اور چھت کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ رہتا ہے۔ جہاں سرکار پی ایم اے وائی آواس پلس اور آواس پلس پلس جیسے پروگراموں کے تحت غریبوں کو گھر بنانے کے لئے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے فراہم کرتی ہے، وہیں غلام محمد کو ان میں سے کسی بھی اسکیم کا فائدہ نہیں ملا۔غلام محمد کے بیٹے نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اْن کے والد گزشتہ کئی برسوں سے کٹرہ اور ماتا وشنو دیوی دھام میں مزدوری کرکے گھر کا گزارہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا کہ ’ہر انتخاب میں سابقہ پنچ، سرپنچ اور سیاسی کارکن صرف ووٹ لینے آتے رہے، مگر کسی نے ہمارے دکھ درد کو نہیں سْنا‘۔انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی ایک اور اہم اسکیم منریگا کے تحت جہاں ہر مستحق بالغ فرد کو سالانہ 100 دن کا روزگار ملنا چاہیے، وہاں ان کے گھر کے جاب کارڈ سالہا سال سے خالی پڑے ہیں۔ نہ کوئی کام ملا، نہ کوئی مدد۔یہ صورتحال اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ محکمہ دیہی ترقی کی کارکردگی اور نگرانی پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک غریب خاندان، جو باضابطہ طور پر بی پی ایل فہرست میں شامل ہے، اسے نہ رہائشی سہولتیں ملیں، نہ روزگار، اور نہ ہی کوئی دوسری عوامی اسکیم؟ اس خاموش بے حسی نے غلام محمد جیسے کئی خاندانوں کو معاشی اور سماجی طور پر انتہائی کمزور کر دیا ہے۔غلام محمد کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت اور مقامی نمائندوں سے صرف انصاف چاہتے ہیں، کوئی احسان نہیں۔ انہوں نے موجودہ منتخب حکومت کے ساتھ ساتھ کوٹرنکہ کے ایم ایل اے جاوید اقبال چوہدری سے درد مندانہ اپیل کی کہ ان کے خاندان کی حالتِ زار کا نوٹس لیا جائے، انہیں سرکاری اسکیموں کا جائز حق فراہم کیا جائے، اور ان کے بوسیدہ مکان کی ازسرِنو تعمیر میں مدد کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر سرکار اور عوامی نمائندے حقیقی معنوں میں زیرِ دست اور پسماندہ طبقوں کی بہبود میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو غلام محمد جیسے بے شمار افراد کی زندگی بدل سکتی ہے۔