وادی ٔ کشمیر کے بارے میں یہ حد درجہ تشویش ناک اطلاعات گشت کررہی ہیں کہ یہاں شامت اعمال سے شراب نوشی اور شراب فروشی کا گراف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ ام الخبائث کے بارے میں یہ منحوس خبریں ہمیں کیا کیا چیتا ؤنیاں دے رہی ہیں، کوئی حساس دل ، بااخلاق اور شائستہ ذہن ہی اُس فہم و کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس بارے میں دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ برس شراب کی 15 ؍لاکھ 33؍ ہزار شراب کی بوتلیں فروخت ہوچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ برسوں کے مقابلے میں شراب نوشی میں 30؍ فی صد کا اِضافہ ریکارڈ درج کیا گیا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ لداخ میں شراب نوشی کے گناہ ِ کبیرمیں واضح طور کمی نظر آرہی ہے جو واقعی ایک خوش آئندہ امر ہے جب کہ وادی میں حالت اس کے برعکس ہے۔ مقامی ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ اس کر یہہ الصورت نشہ بازی میں بہت سارے بچوں او رزیادہ تعداد میں نوجوان ملوث ہیں۔ رونگٹھے کھڑے کرنے والا یہ امر بھی ہے کہ چند ایک خواتین بھی خباثت کے اس طوفانِ بلا خیز میں ڈبکیاںمار رہی ہیں۔ گو دنیا کا کوئی فلسفہ ٔ اخلاق مے نوشی کی اجازت نہیں دیتا لیکن ہم جس دین ِخدواندی سے منسوب ہیں، اُس نے مے نوشی کو’’ام الخبائث ‘‘ یعنی گناہوں کی ماں کہہ کر اس کے مضرات و نقصانات کو واضح کیا ہے، اس دین کی حیاتِ آفرین تعلیمات میں ہر کسی نشہ بازی سے اہل ایمان کو روکا گیا ہے ، خاص کرکسی مسلمان کے قدم اس جانب لڑھک ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ عمل ِشیطان ہے اور شیطان کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی انسان کے لئے ہمیشہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ قرآن نے واضح انداز میں کہا کہ’’اے ایمان والو! شراب ،جوا، بت اور فال نکالنے والے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی عمل ہیں ا ن سے بچو۔
عصر حاضر کے مشہور عیسائی مفکر اور سرجن ڈاکٹر موریس بوکائے جو قرآن ، بائبل اور جدید سائنس کاسیر حاصل مطالعہ کرچکا ہے، وہ صاف لکھتا ہے کہ ’’قرآن میں ایک بھی بیان ایسا نہیں جو مستحکم بنیادوں پر قائم شدہ جدید معلومات سے عدم مطابقت رکھتا ہو، اس مقدس کتاب اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔اس آفت جاں لیوا کی کتنی ہلاکت خیز یوں کو بیان کیجئے، ایک لمبی داستان سامنے آئے گی۔ میڈیکل سائنس نے اس حوالے سے جو گفتگو ئیں کی ہیں اُن کا ماحصل یہی ہے کہ شراب نوشی فردکی زندگی، انسانی سماج اور صحت عامہ ا ور کا رگاہ ِ معیشت کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔سائنسی تجزئیے اور تجربے بتاتے ہیں کہ شراب براہ ِراست انسان کے مرکزی اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے، غنودگی ، سرچکرانا، آنکھوں کی دُھندلا ہٹ ، زبان میں ہکلاہٹ، چال میں لڑکھڑاہٹ، حواس کی معطلی ، غل غپاڑہ ، شور شرابہ، گالم گلوچ بے ہوشی ، دشنام طرازی ، بے حیائی، جھگڑا لوپن ، وغیرہ یہ ہیں وہ قباحتیں اور خباثتیں جو شراب نوشی کے مرتکب انسان کی شخصیت میں جمع ہوکر اسے بدمستی اور بدحوا سی کے سپر دکر دیتی ہیں او ریہی ہیں وہ منفی اور ناپسندیدہ اثرات جو مے نوش کے روح و بدن اور چال چلن پرپر مر تسم ہوتے ہیں ۔
اعصابی نظام کی ابتری کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس نے واضح طور بتایا ہے کہ اِس لت کے شکار کے لوگ اکثر کینسر،فالج، بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں تیزی سے مبتلا ہوتے ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ عالمی تجز ئیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ دنیا میں 30 فیصد ٹریفک 44؍ فیصد جلنے، 33؍ فیصد ڈوبنے،14 ؍فیصد بچوں سے زیادتی او رتشدد کر نے،2 ؍فیصد خود کشی کاارتکاب کر نے اور 10؍ فیصد صنعتی حادثات شراب نوشی کے زیر اثر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ W.H.O کی 2012 ء کی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق دنیا میں ہر سال 25 لاکھ افراد کی ہلاکتیں جو کل اموات کا چار فیصد حصہ ہے ، شراب نوشی کی وجہ سے ہوجاتی ہیں۔ جدید تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 15؍ سے 29؍ سال کی عمر میں مرنے والا ہر 11؍ میں سے ایک شراب کی لعنت کا شکار ہوتا ہے۔ یہ اس آفت روح و بدن اور پروانۂ موتِ اخلاق و عمل کی مضرت رسانیاں ہی ہیں کہ اسلام نے اس سے جڑے ہر شخص کو اللہ کی لعنت کا حقدار بتا یاہے ۔اشاد نبویؐ ہے ’’کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب کے پینے والے پر پلانے والے پر فروخت کرنے والے پر خرید نے والے پر، کشید کرنے والے پر، جس کے لئے کشیدکی کی جائے اُس پر، اُس کے اُٹھانے والے پر، جس کی طرف لی جائے اُس پر، اسے کسی کو تحفہ کے طور دینے والے پر، او ر اِس کی کمائی کھانے والے پر ___ اندازہ کیجئے کہ کس قدر مہلک گناہ ہے شراب کی بیماری جو ایک انسان کو ملعون ٹھہر اتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس انسان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت وملامت ہو، اُس کے پاس خیر کا کتنا بھی ذخیرہ ہو، ثوابوں کا کتنا بھی خزانہ ہو، وہ سب اللہ کی لعنت سے اُس کے حق میں اکارت جائے گا؟ تاریخ اس بات کی شاہد عادِل ہے کہ جب قرآن نے کلی طور شراب کی حُرمت کا اعلان کردیا تو جو معاشرہ قرآنی تعلیمات کی اساس پر ہی نبی دو عالم ﷺ نے تشکیل دیا تھا، ندائے رُبانی سنتے ہی اسی وقت اپنے ونٹوں سے لگے جام و سبو کو توڑ گئے ، اطاعت ِ خداوندی ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور سمع و طاعت کا یہ عجب نظارہ اُس وقت چشم فلک نے کردیا جب انہوں نے بیک آواز کہا: انتہینا یعنی ہم باز آئے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بادہ و ساغر سے توبہ کرلی او ریوں دنیا نے مدینہ کے بھرے بازار وں اور گلیوں میں شراب کے مٹکوں کو اُلٹتے او رتُڑتے ہوئے دیکھ لیا۔
حیف صد حیف____ !!!!ہم اسی دین مبین کے ساتھ وابستہ ہیں، مسلم اکثریتی خطے میںبود وباش رکھتے ہیں اور ہمارے بھائی بند بھی اس بلا میں گرفتار ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ضمیر بھی جام و سبو کا نام سننے ہی نفرت سے لرز جاتے مگر افسوس کہ اس کے برعکس برقِ ناگہاں جیسی یہ خبر یں ہمارے گوش ِ سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ ہمارے بعض نوجوانوں اور سن رسیدہ لوگ بھی مٹھی بھر ہی سہی، اس لعنت میں گرفتار ہے ، جب کہ حکام بھی ’’سرکاری آمدنی‘‘بڑھانے کے نام پر یا ’’سیاحت کو فروغ‘‘ دینے کے بہانے آزادی کے ساتھ اس کا حصول نشہ بازوں کے لئے ممکن بنارہے ہیں۔ سرکاروں کا کام تو ہوتا یہ ہے کہ وہ عوام کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لئے ہر نوع کے اقدام اُٹھائیں، بہتر سماج کی تعمیر کے لئے ہر اِقدام کریں، معاشرتی تطہیر کے ہر پہلوکو زیر نظر رکھیں، لیکن اس مادہ پرست دنیا او راس کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی سوچ کا کیا کیجئے کہ حرص ِمال و زر اس قدر غالب ہے کہ مے فروشی سے حاصل ہونی والی آمدنی کے چھن جانے کے خوف سے اس پرپابندی عائد کرنے والوں کے مطالبے کی اَن سنی بھی کر تے ہیںاو ربزبانِ حال وقال کہتے ہیں نشہ بندی چاہنے والو ! تم لاکھ سر پیٹو، جگر کوروؤ ،آسمان سر پر اُٹھاو، احتجاج کرو، ہم اپنی سوچ قطعاً بدلنے کو تیار نہیں۔ ان کااسوال یہ وہتا ہے کہ اگر بالفرض محال مے نوشی ومے فروشی پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو خزانۂ عامرہ کے سوکھے کا کیا ہوگا؟ لمحہ ٔفکریہ تو ہے کہ ان حکمرانوں کا بڑا حصہ مسلمانوں یعنی اسلام کے نام لیواؤں پر ہی مشتمل ہے، اور ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ اچھے خاندانوں کے چشم وچراغ ہیں لیکن اسلام اُن کے حلق سے کس قدر نیچے اُتر تا ہے ،اُن کے پاس شراب فروشی کی جوازیت بتارہی ہے کہ ان کی اخلاق باختگی کا حال کیا ہے ۔ ویسے بھی یہ اُن کے بس کی بات نہیں بلکہ اس سے قبل بھی جو لیڈرلوگ مسند اقتدار پر براجمان ہوئے، جنہوں نے ایک مدت تک عوامی تحریکوں کی قیادت بھی کی، اسٹیجوں پر قرآن خوانیاں بھی کیں ، مسلم اداروں کے مالک ومختار بھی ہوئے، اُن کا فتویٰ بھی یہی تھا کہ ٹورسٹ اسٹیٹ ہونے کے ناطے شراب خزانہ عامرہ کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ بانہوں نے اپنے موقع پر کھلے عام اس حرام کو ’’حلال‘‘ بنانے کے کھیل میں جبہ وستار وکو بھی استعمال کیا ۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مکمل نشہ بندی لاگو ہے اور دوایک سال قبل ریاست بہار میں ایک غیر مسلم حاکم نتیش کمار نے کسی خوف اور اندیشہ میں پڑے بغیر بیک جنبش ِقلم اِس لعنت کے خاتمہ کا اعلان کرکے دنیا پر یہ باور کرایا کہ اس بیماری نے میرے عوام کی اخلاقی اور روحانی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ،میں اس کے قلع قمع کا بندوبست کئے دیتا ہوں چاہے سرکاری خزانے کا مالی ا عتبار سے خسارہ بھی ہو۔پہلے تو اس اقدام کو دنیا نے دیوانے کا خواب قرار دیا لیکن جب انہوں نے عملی طور ایسا کر دکھادیا ، تو مزید کئی ریاستیں اچھائی کی اس راہ پر جانے کا ارادہ رکھتی ہیں ، بلکہ عوامی مطالبہ بھی بڑھ رہاہے کہ اُم الخبائث کو سماج میں جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے مگر ہماری ریاست میں کیا ہوتا ہے ۔۔۔ واحسرتا!________
ہمارے حکمران یہ کہہ کر کہ یہ سیاحتی ریاست ہے، یہاں ایسا ممکن نہیں ، اصل میں پیغام یہ دیتے ہیں کہ نہ ان کو عوامی مفاد پیارا ہے ، نہ دین و اخلاق سے کوئی لینا دینا ہے ۔ ان کاتو منتہائے مقصود بس حصولِ زر ہے، اس لئے ایسا کرتے ہوئے چاہے مذہبی تعلیمات کا مضحکہ اڑجائے ، سماج کا اخلاقی زوال بڑھتا جائے ،روحانی دیوار یں ڈھتی جائیں، گھروں کے گھر اُجڑتے جائیں ، حیا و شرم کا جنازہ نکلتا جائے ، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ، حتیٰ کہ شراب نوشی کے زیر اثر مہلک امراض گھروں اور خاندانوںکا آرام و چین لوٹ لیں، یہ آفت وبلاجواں مرگیوں کا سبب بنتی پھرے، ان زر پرست حکمرانوں کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی______ اس سارے معاملے کا زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ نئی نسل کا ایک بڑا حصہ مختلف اسباب کے تحت نشہ بازی کی جانب سرعت سے بڑھ رہی ہے یا جان بوجھ کر بڑھا ئی جارہی ہے۔ ایسے میں کون ہے جو اصلاح احوال کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں سے دامن جھاڑ سکتا ہے،علماء ، خطباء، فضلاء، مدارس سبھوں کو اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے آگے آنا ہ گا ۔ ہمارے بہت سارے قلم کار وں اور تجزیہ کار وں کی تان جرائم، اخلاق سوزیوںاور دیگر برائیوں پر قلم اٹھاتے ہوئے صرف اس بات پر توڑ تی ہے کہ علمائے اس حوالے سے ذمہ داریاں نبھائیں،وہ اس بات سے شایدچشم پوشی کرتے ہیں کہ علماء ومبلغین کا ایک بڑا حصہ ان برائیوں کے انسداد کے لئے خطابات اور دروس میں متوجہ ہوتے رہتے ہیں لیکن اصلاح کا سارا کام اُن پر ہی ڈال کر سماج خود غفلت کی چادر تانے سو نہیں سکتا ۔ ملتِ و معاشرے کے ہر فرد کو اس بارہ میں ضرور چوکنا رہنا ہو گا ، گھر کی چار دیواری کے اندر تریبت گاہ اگر اس تعلق سے لب بستہ رہے تو باہر کی کوئی اصلاح کا آمد ثابت نہیں ہوسکتی ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی ہر حرکت پر نگاہ رکھیں اُس کے شب و روز کو جانچیں ، ا س کے اخلاق و کردار سے باخبر رہیں، بچے کے نکلنے اور واپس گھر آنے کے انداز و اطوار کو پرکھیں، نماز و روزہ سے اس کا کتنا تعلق ہے اوروہ خوداپنے گھروں میں عبادات کا کتنا اہتمام کرتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیں تربیت کے اخلاقی اور اسلامی آداب کا خاص خیال رکھیں۔تربیت اولاد والدین کے ذمہ بھی ہے اور اس نسل کی تہذیب ِنفس کی ذمہ داری بہت حد تک اساتذہ کے ذمہ بھی آتی ہے، کام نازک بھی ہے اور ذمہ دارانہ بھی ہے اور یوں سمجھ لیجئے شیشہ گری کافن ہے ۔ نئی نسل کے اخلاق و کردار کے بناؤ یا بگاڑ کے اصل ذمہ داروں کی حیثیت سے نگا ہ ہمیشہ سب سے پہلے اُن پر ہی جائے گی۔ بہر حال شراب نوشی کا یہ عمل کئی ہوٹلوں میں بھی مبینہ طور جاری بتایا جاتا ہے اور کوچہ و بازار میںبھی ! ظاہر ہے کہ ان ہوٹلوں کے مالکان بھی زیادہ تر ماشاء اللہ مسلمان ہی ہیں۔ وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اِس گندی آمدنی کے بغیر اُن کے گھر کی گاڑی چل نہیں سکتی ، تو بہت دھوکے میں ہیں،۔ا نہیں غور کر نا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا کھلا پلا رہے ہیں، کیا پہنا رہے ہیں اس حرام شئے کی حرام کمائی سے؟ حرام شئے سے پلنا والا جسم یہاں کتنا بھی پھلے پھولے، تن و توش کس قدر مضبوط بنے لیکن انجام کار دوزخ کی بھیانک اوردھکتی آگ میں جلنا جھلسنا !اس سے بڑھ کر اور حرماں نصیبی اور کیا کسی مسلمان کے لئے ہوسکتی ہے ؟ مجھے معا ف فرمائیںبزعم خویش ایسے لوگ خیراتیں کریں ،مدارس کی امدا د میں آگے آئیں،صدقات میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیں، سب اکارت سارا بے کار۔ یہ خواہ کتنے بھی مردہ ضمیر ہوں ،آواز تو کسی نہ کسی خانے سے انہیںآتی ہی ہوگی کہ مال ناپاک ہے، دولت گندی ہے او رپیسہ حرام کا ہے ،اس لئے نجات بھی توبہ و اجتناب کے بغیر قطعی ممکن نہیں_____ اس لئے عرضداشت ہے کہ اس سے پہلے کہ موت کا آہنی پنجہ پکڑے اس غلیظ و ذلیل کا روبارسے خود کو نکالئے اور حلال کمانے کی خُو ڈالئے ، آمدنی کم بھی ہو مگربرکات کا نزول لازماًہوگا________آج کشمیری ملت و معاشرہ کا ہر باضمیر فرد شراب نوشی کی شامت کے خلاف سراپا حتجاج ہے، تو یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس کا یہاں لانے والا پہنچانے والا، دینے والا، کوئی اور نہیں بلکہ ’’لاالہ الا اللہ ‘‘ کا وارث ہے جس کے ذمہ بدیوں اور برائیوں کے خلاف نبرد آزمازما ہونا فرض عین ہے ، جسے امر بالمعروف نہی عن المنکرکا مکلف بنایا گیا ہے ،اگر وہی اس عمل شیطان میں ملوث ہو اور اس خباثت کا پر موٹر ہو تو یہ قلم خون کے آنسو روتے روتے ان سے مخاطب ہے: کچھ تو اپنی عاقبت کی فکر کرو ، کچھ تو قبر کا خیال کرو ، کچھ تو شرم وحیا کرو، کچھ توخدا کے قہر سے ڈرو، اپنی مسلمانیت پر رحم تو کھاؤ ۔ آج بلکہ ابھی سے اس ناپاک دھندے کو ترک کر کے اپنے آپ کو آنے والے آسمانی وزمینی مصائب سے بچاؤ! !!
فون 9419080306