الیاس متوی لموچن
سورج غروب ہو چکا تھا، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ایک عورت نے پاس والے گھر کے دروازے پر زور زور سے دستک دی۔
“رشید بھائی، دروازہ کھولئے، بھائی جان، دروازہ کھولئے! جلدی سے دروازہ کھولئے!”
اندر سے آواز آئی: “جی، کون بول رہا ہے؟”
“میں آپ کی ہمسایہ ہوں، دروازہ کھولئے!”
رشید نے دروازہ کھولا اور حیرانگی سے بولا: “ارے سادیہ، تم؟”
سادیہ گھبرائی ہوئی بولی: “بھائی رشید، آپ کو جلدی گھر بلایا ہے، شکیل نے!”
رشید کیوں “سب خیریت تو ہے؟”
سادیہ “میرا بچہ بہت بیمار ہے، وہ آنکھیں نہیں کھول رہا، دیکھو تو کیا ہوا ہے!”
شکیل “بھائی صاف دیکھو میرے لختِ جگر کو کیا ہوا ہے! میں کب سے پکار رہا ہوں، کوئی جواب نہیں دے رہا، آنکھیں بھی نہیں کھول رہا، کچھ بول بھی نہیں رہا! میں کیا کروں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ میرے لال کو کیا ہوا ہے!”
رشید “گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا، آپ پریشان نہ ہوں۔”
بچے کو لے کر اسپتال پہنچے۔ وہاں ڈاکٹر صاحبہ موجود نہیں تھیں، انہیں فون کرکے بلایا گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ ہسپتال پہنچی۔ شکیل غصے میں بھرے لہجے میں بولا:
“اگر میرے بچے کو کچھ ہو گیا تو ٹھیک نہیں ہوگا! ہمیں یہاں آئے ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا، کوئی پوچھنے والا نہیں!”
شکیل بہت تیز مزاج کا آدمی تھا، اس کی بہت کم لوگوں سے بنتی تھی ۔ ہر بات پر لڑائی کرنا اس کی عادت بن چکی تھی۔
ڈاکٹر صاحبہ نے آنکھیں دیکھتے ہوئے جواب دیا: ” ابھی مجھے بچے کو دیکھنے دو۔ شور زیادہ مت کرو! اگر شور مچانا ہے تو بچے کو یہاں سے لے جاؤ! بچوں کا خیال نہیں رکھتے، اور اب جب بچہ آخری سانسیں گن رہا ہے، تو اسپتال آ جاتے ہو!”
ڈاکٹر صاحبہ نے نرس کو کچھ انجکشن لگانے اور دوا دینے کو کہا۔
نرس نے شکیل سے کہا: “جلدی جا کر دوا لے آؤ!”
شکیل دوا لینے کے لیے بھاگا، تبھی رشید نے نرس سے پوچھا: “نرس میم بچے کو کیا ہوا ہے؟”
نرس نے چپکے سے کہا: “پتہ نہیں! ویسے بھی، اس میڈم کو کچھ نہیں آتا! اس نے پچھلی بار بھی ایک مریض کو غلط دوا دی تھی، وہ تو اللہ نے بچا لیا! آپ میری بات مانئے، اس کو فوراً کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیے!
ان کا اشارہ باہر کلنک کی طرف تھا۔ رشید فوراً شکیل کے آنے سے پہلے بچے کو قریبی کلینک لے گیا۔ وہاں ڈاکٹر نے معائنہ کر کے اسپتال کی دی گئی تمام دواؤں کو غلط قرار دیا اور جلد از جلد ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جانے کی ہدایت دی۔
یہ سن کر بچے کی ماں رونے لگی: “کیا ہوا ہے میرے جگر کو؟ کوئی بتاتا کیوں نہیں؟”
رشید نے تسلی دی: “سادیہ بہن، خاموش ہو جائیں! بچہ ٹھیک ہو جائے گا، بس ہمیں جلدی سے ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جانا ہوگا۔ اس طرح رونے سے کچھ نہیں ہوگا، جلدی کیجیے!”
ڈسٹرکٹ ہسپتال کافی دور تھا۔ رشید گاڑی کو تیز چلانا چاہتا تھا، لیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ گاڑی پر کوئی بھاری چیز لدی ہوئی ہے۔ جب اس نے یہ بات شکیل سے کی تو شکیل اور اس کی بیوی ایک دم بول پڑے:
“بھائی صاحب ہمیں بھی لگتا ہے کہ ہمارے بچے کو کسی جن یا پری نے جکڑ لیا ہے! ورنہ کھیلتے کھیلتے اچانک اس کی یہ حالت کیوں ہوجاتی؟ یہی جن اب گاڑی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے!”
رشید: “میں ان باتوں کو نہیں مانتا!”
شکیل بضد تھا: “بھائی، مان لینا چاہیے! یہ جنات بڑے خطرناک ہوتے ہیں! جب انہیں غصہ آتا ہے تو لوگوں کی حالت خراب کر دیتے ہیں! ہمیں اسے کسی پیر، آغا یا آخوند کے پاس لے جانا ہوگا، اسپتال میں اس کا علاج ممکن نہیں!”
رشید “رات کافی ہو چکی ہے، اب تو سب سو گئے ہوں گے، ہمیں اسپتال ہی لے جانا ہوگا!”
وہ کسی طرح ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے، جہاں بچے کا فوری معائنہ کیا گیا۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے، اور جب رپورٹس آئیں تو ڈاکٹر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
ڈاکٹر نے شکیل سے پوچھا: “کیا کام کرتے ہو؟”
شکیل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے: “سر، دو سال ہو گئے، کورونا کی وجہ سے کوئی کام نہیں ملا!”
ڈاکٹر نے کہا: “بچے کو فوراً سرینگر کے صدر اسپتال لے جانا ہوگا! یہاں سے ایمبولینس ملے گی، جلدی کرو!”
یہ سنتے ہی شکیل بے بس ہوکر زمین پر بیٹھ گیا۔ شکیل کی بیوی نے رو رو کر اسپتال سر پر اٹھا لیا، لوگ جمع ہو گئے اور بغیر سوچے سمجھے تعزیتی الفاظ کہنے لگے۔
“میرے بچے کو کچھ نہیں ہوا!” وہ چیخنے لگی۔
ایک آدمی بولا: “پھر رو کیوں رہی ہو؟”
شکیل پریشان تھا: “ہمارے پاس پیسے ہی نہیں کہ بچے کو صدر ہسپتال لے جا سکیں! ہمیں وہاں کے بارے میں کچھ معلومات بھی نہیں، کیا کریں؟”
تبھی ایک بزرگ آدمی نے دس ہزار روپے نکال کر دیئے، اور آس پاس کے لوگوں نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی۔
دوسرے دن دوپہر دو بجے، شکیل بچے کو لے کر صدر اسپتال پہنچا۔ اسپتال میں افرا تفری کا عالم تھا، ہر کوئی جلدی میں تھا، کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ کوئی لیٹا ہوا تو کوئی کھڑا کوئی دوڈتا ہوا تو کوئی چلاتا ہوا غرض نفسا نفسی کا عالم تھا ۔ شکیل کو ٹکٹ نکالنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا ۔ ڈاکٹر کے معائنہ کے بعد آپریشن تھیٹر کی روشنیاں جل اٹھیں امید اورخوف کے سائے ایک ساتھ لرز رہے تھے۔
���
کرگل دراس ، لداخ
موبائل نمبر؛9469732903