تبصرہ ٔ کتب
محمد شاہد الاعظمی
اس وقت ہمارے سامنے ہمارے انتہائی مشفق و مربی اور قابل صد احترام استاد پروفیسر محمد طاہر صاحب کی اہم ترین کتاب ’’اردو زبان وادب تاریخ وتنقید‘‘ ہے، مطالعہ کے دوران بار بار یہ داعیہ پیدا ہوا کہ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں چند بنیادی باتیں سپرد قلم کی جائیں، ہمیں احساس ہے کہ صاحب کتاب اہل علم و فن کے یہاں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور نہ میری اس بے ربط تحریر سے کتاب کی اہمیت و عظمت میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی صاحب کتاب کی عزت و وقار اور شہرت و ناموری میں ہی کچھ مزید اضافہ ہوگا، تاہم مجھ جیسے کم مایہ شاگرد کے لئے اپنے مشفق استاد کی کتاب پر چند تعارفی کلمات لکھنا جہاں ایک طرف شرف و سعادت کا باعث ہوگا وہیں دوسری طرف تشنگان علم وفن اور ادبی ذوق کے حاملین کے لئے اس کتاب کے بارے میں مزید واقفیت کا ذریعہ ہوگا۔
پروفیسر محمد طاہر صاحب اردو زبان و ادب کے ممتاز اسکالر، کہنہ مشق نقاد، محقق اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کا تعلق گہوارۂ علم وادب شہر اعظم گڑھ یوپی کے معروف ادارے شبلی نیشنل کالج سے ہے۔ آپ کی علمی، تحقیقی اور تنقیدی خدمات اردو زبان و ادب کے مختلف شعبوں میں نہایت وقیع، قابل قدر، اعلی، مثالی اور نموذجی ہیں۔پروفیسر صاحب نے اردو ادب کی تدریس اور تحقیق کو اپنا شعار و دثار بنایا، اردو تنقید، تاریخ و ادب، شعر وسخن اور تحقیق و تدوین جیسے دقیق و باریک موضوعات پر آپ کی عمیق نظر قابل صد رشک ہے، آپ کی تنقیدی بصیرت، ادبی فہم اور تحقیقی انداز میں جہاں اعتدال و توازن پایا جاتا ہے، وہیں زبردست گیرائی و گہرائی بھی پائی جاتی ہے۔اردو ادب کے مختلف گوشوں پر ان کی تحقیقی تحریریں ادبی حلقوں میں بہت وقیع ہوا کرتی ہیں۔آپ نے اردو تنقید و تاریخ کے حوالے سے کئی اہم موضوعات پر لیکچرز، مقالات اور ریسرچ گائیڈنس فراہم کی ہیں۔آپ کی تحریروں کا اسلوب نہایت شستہ، رواں، علمی و تحقیقی نوعیت کا ہوتا ہے، جس میں تاریخی شعور اور معروضیت نمایاں ہوتی ہے۔آپ نے ادب کو صرف جمالیات نہیںبلکہ ایک سماجی، فکری اور تہذیبی مظہر کے طور پر برتا ہے۔ بطور پروفیسر تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے آپ نے کئی نسلوں کو اردو ادب کی باریکیوں سے روشناس کرایا ہے، آپ کے شاگرد نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک بھی اردو کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ آپ کی شخصیت تدریس، تحقیق، تنقید اور تعلیم و تربیت کا حسین امتزاج ہے۔ آپ نئی نسل کے لیے علم و ادب کا ایک مشعل راہ ہیں اور اردو زبان و ادب کے روشن مستقبل کی ایک مضبوط بنیاد۔اسی کے ساتھ آپ معاشرے کو صاف ستھرا بنانے اور اسلامی اقدار و روایات کو زندہ و تابندہ کرنے کے لیے حد درجہ فکرمند رہتے ہیں۔آپ کے بقول امہات المومنین کی حیاتِ مبارکہ کو متعارف کرانا میری زندگی کا مقصد ہے ۔ سماج میں جو برائیاں پھیل رہی ہیں اس کے لئے ذمہ دار مرد اور عورت دونوں ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ خواتین کی تربیت پہ توجہ کی آج خاص اور سخت ضرورت ہے ، گھر کا سارا نظام انھیں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس لئے اگر وہ بچے بچیوں کی صحیح تربیت دیں اور گھر میں دینی ماحول کی فضا کو برقرار رکھیں ، حرام و حلال کی تمیز، صوم و صلاۃ کی پابندی، صحیح غلط کا امتیازاور اپنے بچوں کی نگہ داشت پہ مکمل توجہ دیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی اب تک کی زندگی کا مقصد کیا رہا؟تو آپ نے نہایت جچے تلے جملوں میں کہا کہ’’زندگی کا ہر پل ایک نعمت ہے اور بیش قیمتی ہے جس کی قد ر ہونی چاہئے۔ زندگی کا کوئی پل یونہی نہیں گزرنا چاہئے بلکہ روزانہ اس کا احتساب ہونا چاہئے کہ آج ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ کہا جاتا ہے کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو سونے کے بعد دیکھے جاتے ہیں بلکہ اصل خواب وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہ دیں ۔ کھلی آنکھ سے خواب دیکھنا اور پھر اس کی تعبیر میں جٹ جانا یہی زندگی کا مقصد ہے ، خود بیدار رہنا اور دوسروں کو بیدار رکھنے کی کوشش کرنا بھی زندگی کے مقاصد میں سے ہے ، نیکیاں اتنی کریں کہ بائیں کندھے پر بیٹھے ہوئے فرشتے کو بھی نیند آنے لگے، بے داغ کردار ، بہترین اخلاق اور لبوں پہ تبسم کے ساتھ زندگی کے ہر لمحے کا استقبال کرنا چاہئے یہی زندگی کا مقصد ہے۔‘‘
آپ کی اب تک بیس کے قریب کتابیں تحقیق، تالیف اور ترتیب کے ساتھ منظرعام پر آچکی ہیں، جیسے ’’سیرت امہات المومنین، مومنوں کی مائیں، صحابیات طیبات، نصاب اردو، طلاق، مشتاق احمد یوسفی کی ادبی خدمات اور سوشل میڈیا اور اردو زبان وادب ‘‘وغیرہ۔
زیر تعارف کتاب ’’اردو زبان وادب۔ تاریخ وتنقید‘‘ میں اردو ادب کے تمام اہم موضوعات (زبان ،تعریف و تعارف، اردو زبان کا عہد بہ عہد ارتقاء، ترجمہ,فن اور روایت، اردو صحافت۔ آغاز و ارتقاء، سوانح نگاری، فن اور روایت، خود نوشت، فن اور روایت، اردو خاکہ نگاری، اردو مکتوب نگاری، داستان، اردو افسانہ، مضمون نگاری، اسی طرح قصیدہ نگاری، مثنوی نگاری، مرثیہ نگاری اور غزل گوئی) کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ کتاب اردو ادب کا عطر اور نچوڑ ہے، جسے ہزاروں کتب ورسائل سے استفادہ کرکے گویا دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور ان گنت لیل ونہار قربان کرکے اردو ادب کی تاریخ پر یہ کتاب ڈیڑھ ہزار صفحات میں رقم کی گئی ہے، جس کا ہر لفظ قابل قدر، ہر جملہ موتی، ہر اسلوب جدا گانہ حیثیت کا حامل، ہر مضمون اہم اور ہر سطر قابل اعتبار و استناد ہے۔
اس کتاب سے متعلق مصنف رقم طراز ہیں:’’اردو ادب کی عمر بہت طویل نہیں، اس کے باوجود یہ ایک بحر بیکراں کی طرح ہے، اس کتاب میں اردو ادب کے تمام اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن کسی ایک کتاب میں تمام موضوعات کو سمیٹنا دریا کو کوزے میں بند کرنے جیسا ہے، پھر بھی ہم نے ادب کے تمام اہم مباحث کو اس کتاب میں شامل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے، یہ کتاب ایک نوع سے اردو ادب کا عطر ہے جس طرح پھولوں کے ڈھیر سے تھوڑی سی مقدار میں عطر کشید کی جاتی ہے، ویسے ہی اس کتاب کی تیاری میں سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ اور زیادہ کتب و رسائل سے استفادہ کیا گیا ہے، مواد کا حصول جہاں جہاں سے ممکن ہوا ہے اسے حاصل کر لیا گیا ہے، لیکن اسے دانستہ طور پر مخفی بھی رکھا گیا ہے اور مکمل حوالے نہیں دیئے گئے ہیں کہ کچھ محنت آپ کے ذمے بھی رہے۔‘‘
ہر موضوع پر مواد کو آسان اور اپنی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ مطالعہ کے بعد تشنگی باقی نہ رہے، بہت جاں فشانی اور عرق ریزی کے بعد یہ منزل آئی ہے کہ اس ایک کتاب کی تیاری کی خاطر اتنی کثیر کتابیں زیر مطالعہ رہی ہیں کہ آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہوگئی ہے، اس کا صلہ یہی ہے کہ آپ اسے از اول تا آخر سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیجئے، اس یقین کے ساتھ کہ مطالعہ کے بعد آپ اردو زبان و ادب کی مبادیات سے باخبر ہو جائیں گے، ادب کا مطالعہ سنجیدگی اور عشق کے ساتھ کیا جانا ضروری ہے، ایسا عشق جس کے متعلق خلیل الرحمن اعظمی نے اشارہ کیا تھا کہ ؎
ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو
صاحب کتاب نے اس کتاب کے جمع و ترتیب میں انتھک محنت کی ہے اور اس تعلق سے تمام اہم اور بنیادی مواد کی تلاش و جستجو میں اس درجہ سعی پیہم کی ہے کہ موضوع کا ہر ممکن احاطہ آسان ہو گیا ہے اور کتاب اپنی اہمیت و جامعیت کے لحاظ اس درجہ اعلی معیار پہ پہنچ گئی ہے کہ اصحاب فکر و نظر کو دعوت مطالعہ دیتی ہے اور باذوق قارئین کا دامن دل اپنی طرف بے ساختہ کھینچتی ہے، یہ ایک روشن حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ یہ کتاب اپنے ادبی محاسن کے حوالے سے نہایت جامع اور وقیع ہے، تاہم ذوقی اختلاف کے زیر اثر کچھ باتوں کے اظہار کی پھر بھی گنجائش باقی رہتی ہے، مثلا آپ نے لکھا ہے کہ’’مواد کا حصول جہاں جہاں سے ممکن ہوا ہے اسے حاصل کر لیا گیا ہے، لیکن اسے دانستہ طور پر مخفی بھی رکھا گیا ہے، اور مکمل حوالے نہیں دیئے گئے ہیں کہ کچھ محنت آپ کے ذمے بھی رہے۔‘‘یہ درست ہے کہ استاد محترم نے ایک نیک جذبے کے تحت حوالہ جات کو مخفی رکھا ہے تاکہ نسل نو کو محنت کرنے اور اصل حوالہ جات تک رسائی حاصل کرنے کی مشق ہو سکے، بلاشبہ اس کا یہ افادی پہلو ہے جسے آپ نے اپنے تدریسی و تحقیقی طویل تجربے کی روشنی میں مفید جانا اور اس پر عمل پیرا ہوئے، لیکن اولا تو موجودہ تحقیقی مزاج کے اعتبار سے حوالہ جات کے ذریعہ ہی باتوں میں وزن پیدا ہوتا ہے، ثانیاً ہم جیسے میدان علم و ادب کے نو آموز طالب علموں کو اس عظیم سرمایہ سے محرومی کا احساس ہوتا ہے کہ کاش وہ حوالہ جات بھی منظر عام پر آ گئے ہوتے تو ان تک رسائی آسان اور ان سے استفادہ ممکن ہوتا۔
صاحب کتاب کے یہاں ادبی حسن، فکری توازن اور لسانی چابکدستی کا امتزاج ایسا ہے کہ قاری ہر صفحے پر نہ صرف ایک علمی لذت محسوس کرتا ہے بلکہ ایک روحانی طمانینت سے بھی ہمکنار ہوتا ہے۔خلاصہ یہ کہ یہ کتاب یو جی سی(UGC)، نیٹ(NET)، جے آر ایف (JRF)، سیٹ، گریجویشن و پوسٹ گریجویشن کی سطح کے تمام داخلہ جاتی امتحان میں معاون اور این ای پی( NEP20) کی گائڈ لائن کے مطابق جدید تعلیمی پالیسی کے تحت، تمام یونیورسٹیوں کے بی اے، ایم اے سطح کے تمام نصابی موضوعات کا مکمل احاطہ کرنے والی ایک منفرد تحقیقی، تنقیدی، مستند اور معتبر کتاب ہے۔ہم استاد محترم کی اس اہم کاوش پر خوب خوب مبارکباد پیش کرتے ہیں اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے ساتھ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی اس کی افادیت کو عام و تام کرے اور ہمیں ان سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین