قیصر محمود عراقی
اردو زبان پر اتنا مواد موجود ہے کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے اور اس کے کئی پہلوئوں پر مضامین بھی تحریر کئے گئے ہیں ۔ لیکن قلم کاروں کی اس نشست میں ہم اردو کی تاریخی اہمیت ، ضرورت اور اثرات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے ۔ اردو کو مسلمانوں کی قومی زبان کہا جا تا ہے ، لیکن یہ الگ بات ہے کہ اسے آزادی کے بعد ابھی تک سرکاری دفاتر میں رسائی حاصل نہیں ہو سکی ، حالانکہ ایک وقت تھا جب فلموں میں ، عدالتوں میں اردو کا چلن تھا ، فلموں میں بولی جا نے والی مکالے میں زیادہ تر اردو الفاظوں کا استعمال ہو تا تھا ، عدالتوں میں وکلاء اردو میں بحث و مباحثہ کر کے اپنے موکل کی پیروی کر تے تھے ۔ جج صاحبان تازیراتِ ہند اور قید با مشقت جیسے الفاظ استعمال کر کے مجرم کے لئے فیصلہ صادر کیا کر تے تھے ۔ لیکن اب فلموں سے بھی اردو غائب ہو تی جا رہی ہے اور عدالتوں میں بھی اردو کی گونج دم توڑتی نظر آ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو اپنے حقیقی مقام کی تلاش میں ہے اور اردو بولنے والے ، اردو لکھنے والے اور اردو کی روٹی کھانے والے سبھی نیند کی گولیاں لے کر سو رہے ہیں ۔
اردو زبان کی مٹھاس الفاظ کی روانی اور مفہوم کی ادائیگی کسی شاعر کے تخیل سے بھی زیادہ بلند اور حسین تر ہے ۔ یہ زبان اپنے کئی انفرادی پہلوئوں اور خاصیتوں کی وجہ سے دنیا کی تمام زبانوں پر فوقیت رکھتی ہے ۔اردو زبان ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی موجوں میں پوشیدہ لفظوں اور فقروں کے گوہر نایاب کسی رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر دنیا بھر کے انسانوں کی ضرورت اور خواہش بن سکتے ہیں ۔ اردو زبان ہی شاعری ، مضمون نگاری اور طرز گفتگو ،باد نسیم کے معطر جھونکوں کی طرح فرحت آمیز اور سکون بخش ہے ،جس کا ایک ایک لفظ بلند و بالا کو ہساروں کی چوٹیوں سے شبنم کے قطروں کی طرح ٹپکتا محسوس ہو تا ہے ۔ اردو کا لہجہ اور انداز گفتگو لذت و سرور کا جام روح افزا بن کر دل کی گہرائی میں اُتر جا تا ہے ۔ اس کی ترویج و اشاعت اور عملی نفاذ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی زبان کو بھلا دیا جا ئے یا یکسر نظر انداز کر دیا جا ئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی انفرادی زبان ہی اس کی پہچان اور اس کے نقطہ نظر اور تہذیب و ثقافت کے سمجھنے ہی معاون ہو تی ہے ۔ برصغیر ہندو و پاک میں بسنے والے لوگوں کے رویے اور بہت سی قدریں آپس میں مشترک ہیں ، چونکہ انگیریزوں کی آمد سے قبل یہاں انگریزی کا کوئی وجود نہیں تھا، اس لئے انہوں نے صرف اپنے مخصوص مفادات اور اپنی تہذیب و ثقافت کو بر صغیر اور جنوبی ایشیا کے بعض ممالک میں پر وان چڑھانے کے لئے انگریری کو ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کیا ، جس سے یہاں کی تہذیب و ثقافت اورطرز معاشرت میں دراڑیں پڑنے لگیں ۔ انگریز تو برصغیر سے چلے گئے ، لیکن ان کی تہذیب و ثقافت کا اثر و نفوذ تا حال ہماری زندگی میں موجود ہے ۔
اردو کا خمیر عربی ، فارسی ، ہندی اور تر کی سے اُٹھا ، یہ برج بھا شا کے بطن سے پیدا ہو ئی ۔ یہ محلات کے جگمگاتے قمقموں ، تیرہ و تار ، جھونپڑیوں، فلسفوں کی گتھتیوں ، معانی کی گہرائیوں ، خطیب کی شعلہ بیانی اور ادیب کی سخن طرازیوں میں اپنا آپ منواتے ہو ئے لہجو کے زیر و بم خیالات کے بہتے تلاطم ، سوز و ساز کے نغموں کے ساتھ فاتح ٹھہری ۔ صوفیہ نے اظہار و خیال کے لئے اسے بر تا ، اسے عزت بخشی ۔ شعراء اردو میر ؔسے غالب ؔ اور غالب ؔ سے اقبال ؔ نے اس گلشن کو اپنا خون ِ جگر پلایا تب اردو اپنے عروج کی منزلیں طے کر کے فکر و فن کی بلندیوں تک جا پہنچی ۔ ادب تخلیق ہو ا، سفر نامے ، ناول ، تاریخ ، داستان گوئی ، سائنس ، معاشیات ، قانون لکھا گیا اور قرآن و حدیث ، فقہ و منطق ، کتب تصوف و تذکرہ کے اردو تراجم وجود میں آئے ۔ یہ اور بات ہے کہ انگریزی روز برو ز ہماری انفرافی اور اجتمائی دونوں زندگیوں پر چھائے چلی جا رہی ہے اور آج کی نسبت بہت زیادہ چھا چکی ہے۔ آج اعلیٰ طبقے کے جو بچے انگریزی اسکولوں میں جو تعلیم پا رہے ہیں وہ ایسی تعلیم و تر بیت سے آراستہ ہو کر حکومت کے اعلیٰ مدارس پر پہنچ چکے ہو نگے ۔ اس وقت ان سے یہ تو قع رکھنا وہ انگریزی کی جگہ اردو کو حق دلانے کی کوشش کرینگے تو وہ ایک دیوانے کا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر بر آمد نہ ہو گی ۔
جو لوگ بر صغیر کی مٹی کے خمیر سے پیدا ہوئے اور یہاں سے پرورش پاکر جوان ہوئے ہیں اور انگریزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں وہ اپنی زندگی کی سنگین غلطی پر ہیں، ایسے لوگ اپنے خمیر سے جدا ہوکر اپنی منزلِ مقصود کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنے حقیقی جوہر اور عکس سے روگردانی کرتے ہوئے خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اور جن لوگوں نے اردو زبان کی خدمت کی اور جدید تقاضوں کے مطابق اس پر تحقیق و جستجوں جاری رکھی ،وہ اردو کی تاریخ کے تابندہ ستارے ہیں ، آئندہ آنے والا وقت ان کے احسانات کا ممنون رہیگا ۔ اردو زبان کسی ایک فرد یا فرقے کی زبان نہیں جسے تعصب کی بھینٹ چڑھادیا جائے، یہ تو لوگوں کے آپس میں رابطے اور ایک دوسرے کے احساسات وافکار وعمل سے آشنا کی زبان ہے ۔ اردو کے داخلی جواہر کو سمجھنے کے بعد بر ملا کہا جاسکتا ہے کہ یہ زبان دنیا میں امن ، محبت اور دوستی کا ذریعہ بن سکتی ہے، اردو کا اپنا ایک مخصوص اور منفرد انداز ہے جس کی وجہ سے اس کے لہجے کی شیرنی شہد کے قطروں کی مانند دل میں اترتی جلی جاتی ہے ، یہ اس دھرتی کی وہ زبان ہے جس کی دل فریب خوشبوں پوری آب وتاب اور نہایت سرعت سے تمام کرہ ارض سے پھیلتی چلی جارہی ہے ۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ایک وقت تھا جب حکومت فرنگیوں کی تھی لیکن اردو کا بول بالا تھا ، اس وقت ہم لوگوں نے اردو کی قدر نہیں کی اور آج جب کہ ملک میں جمہوریت ہے لیکن اردو کی کوئی اہمیت نہیں۔ آج ہم اردو کے حق کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ، تحریکیں چلا رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں۔ بہر حال یہ زبان زندہ تھی اور زندہ رہے گی ۔
موبائل6291697668
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)