وسیم نذیر بٹ
اولاد کی تربیت ایک ایسا فریضہ ہوتا ہے جو کہ ہر والدین پر عائد ہوتا ہے اور یہ والدین کی تربیت ہی ہوتی ہے جو بچے کے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس میں ہونے والی معمولی سی غلطی بھی بچے کے کردار میں ایسے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس کی بنا پر بچہ جوان ہونے کے بعد بھی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے ہیں-اولاد انسان کا بہترین سرمایہ ہے۔ یہ اس کی ذات کا تسلسل ہی نہیں، اس کی امیدوں اور خواہشوں کا سب سے بڑا مرکز بھی ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے برے مستقبل کا تصور بھی کر سکے۔ لیکن اولاد کا اچھا مستقبل صرف خواہشوں اورتمناؤں کے سہارے وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ایک واضح اور متعین لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔عام طور پر والدین اولاد کا دامن خوشیوں سے بھر دینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ خوشیوں سے ان کی مراد بالعموم مادی اشیاء کی بہتات ہوتی ہے۔ تاہم خوشی صرف مادی چیزوں سے نہیں ملتی۔ خوشی زندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ اس دنیا میں دکھوں اور ناپسندیدہ حالات سے فرار ممکن نہیں ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں، برے حالات سے اپنی اولاد کو بچا نہیں سکتے۔ہاں ایک طریقہ ایسا ہے جس سے آپ کی اولاد پر مصائب و آلام کی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی اولاد کوزندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر دیں۔ اسے بتائیں کہ دنیا میں سخت حالات ہی بہترین انسانوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سختیاں خدا کی نعمت ہیں۔ یہ ایک طرف انسان کی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے پروان چڑھاتی ہیں اوردوسری طرف آخرت میں خدا کی رضا اور اس کی بہترین نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ چنانچہ بچوں کویہ سبق دیں کہ وہ مشکلات کو چیلنج کے طور پر لیں۔ اس کے بعد وہی دکھ جو دوسروں کو نڈھال کردیتے ہیں انہیں سرشار کردیں گے۔اولاد کو سخت محنت کرنے کی عادت ڈالیں۔ والدین لاڈ پیار میں بچوں کی زندگی آسان بنانا چاہتے ہیں۔ مگر بیجا لاڈ پیار مستقبل میں ان کی زندگی مشکل بنا دیتا ہے۔ لاڈ پیار سے بچے اکثر نکمے ہوجاتے ہیں۔ اس دنیا میں نکمے اور ناکارہ لوگوں کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ کامیابی صرف سخت محنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ ذہانت بھی محنت کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی خود کو نمایاں کرپاتی ہے۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے۔Genius is ninety percent perspiration and only ten percent inspiration.یعنی ذہانت نوے فیصد محنت ہے اور صرف دس فیصد دماغی صلاحیت۔
بچپن سے ہی اولاد کو سخت ذہنی اور جسمانی محنت کا عادی بنائیں۔ اس کام کے لیے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کریں۔ بڑے ہونے پر تو بچوں کی عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں جن کا بدلنا آسان نہیں رہتا۔ عادتیں تو بچپن ہی میں ڈلوائی جاتی ہیں۔بچہ ایک مکمل نقال ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ آپ سے یا آپ کے فراہم کردہ ماحول سے سیکھتا ہے۔ لہٰذا آپ بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، ویسے ہی بن جائیں اور انہیں اُسی طرح کا ماحول فراہم کریں۔ جو بچہ ہر وقت گھر میں جھوٹ سنے گا، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کتاب میں جھوٹ کی برائی پڑھ کر وہ اس سے نفرت کرنے لگے، یہ ناممکن ہے۔
دورِ جدید میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوچکا ہے کہ بچوں کا اکثر وقت والدین سے زیادہ موبائل کے ساتھ گذرتا ہے۔ میڈیا کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کے تحت وہ رومانویت ، جنس اور تشدد کو بہت زیادہ ابھار کر دکھاتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ اپنے بچے کو صرف ٹی وی پر آنے والے پروگراموں کے حوالے کردیں گے تو ان تمام چیزوں کے اثرات ان تک پہنچنا لازمی ہیں۔ اسی طرح مغربی تہذیب اور روایات کے بعض منفی اثرات اسی ذریعے سے آپ کے بچوں میں خاموشی سے منتقل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ سستی تفریح حاصل کرنے کی آپ کی بظاہر بے ضرر خواہش، آپ کی اولاد کی دنیا اور آخرت دونوں تاریک بناسکتے ہیں۔ چنانچہ بہتر ہوگا کہ آپ خود کو اور اپنی اولاد کو بھی میڈیا کے صرف انہی پہلوؤں تک محدود رکھیں جن کا تعلق علم اور اچھی تفریح سے ہواور بچوں کو بھی اس حد سے آگے نہ جانے دیں۔وہ دور گیا جب بچے خود سے پل جایا کرتے تھے۔ اب ہر بچہ ذاتی توجہ چاہتا ہے۔ آپ کی تمام تر احتیاط کے باوجود معاشرے میں موجود شر اور برائیوں کا آپ کے بچے تک پہنچنا لازمی ہے۔ یہ بچے سے آپ کا ذاتی تعلق ہے جو انہیں ان برائیوں کے اثرات سے بچالے گا۔ بچوں سے آپ کا دوستانہ تعلق اور براہِ راست مکالمہ وہ ذریعہ ہے جس سے آپ ہر برائی کے بارے میں ان کے ساتھ کھل کر گفتگو کرسکیں گے اور انہیں یہ بتاسکیں گے کہ یہ چیزیں ہماری مذہبی اور تہذیبی اقدارکے خلاف ہیں۔ اس کے بغیر آپ کے بچے اپنے تجسس کو دور کرنے کے لیے ناسمجھ دوستوں، بیہودہ کتابوں اور دیگر ایسے ذرائع سے رجوع کریں گے جو ان کی ذہنی اور عملی گمراہی کا سبب بنیں گے۔ویسے تو ہمارے بچے ہماری توجہ کا مرکز ہوتے ہیں مگر اس طرح ان کو ہر وقت اہمیت دینے کی عادت کے بجائے ان کو اس بات کا بھی عادی بنائیں کہ نظر انداز ہونے کی صورت میں ان کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے۔ کیونکہ عملی زندگی میں ہر کوئی آپ کے بچے کو آپ جتنی اہمیت دینے والا نہیں ہے اس وجہ سے اس کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہونا چاہیے-
یہ تمام نکات بچوں کی تربیت کرنے والے والدین کو نہ صرف یاد رکھنے چاہیے بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے کے فعال افراد تخلیق کیے جا سکیں-
) شوپیان،رابطہ۔9070931709)
[email protected]