اس حقیقت سے کوئی لا علم ہی منہ موڑ سکتا ہے کہ دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو کا شعری گلستان بھی رنگ برنگے خوبصورت پھولوں کی خوشبو چہار سو پھیلا رہا ہے۔ اس گلستان کی رونق بڑھانے کے سلسلے میں جس طرح قدیم شعراء نے سمجھ داری کے ساتھ اپنی فنی صلاحیتوں کو کام میں لایا تھا ،اسی طرح جدید شعراء بھی اپنی بساط کے مطابق اس میں رنگ بھرنے میں مشغول ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ نئے شاعر اس گلستان میں رنگ بھرنے سے زیادہ بھنگ بھرتے نظر آرہے ہیں۔اساتذہ کا کلام پڑھنے سے دل ودماغ تر و تازہ ہوجاتے ہیں اور نئے شاعروں کی نظموں کے عنوان جیسے ایٹم بم، کلاشنکوف، ایمبولنس ، اسپتال ،زخمی،موت ‘نیندوغیرہ دیکھ کر حقیقتاً دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوکر نیند ہی آجاتی ہے۔نیند پر یاد آیا کہ ایک شاعر نے اپنی نظم کا عنوان ہی ’’نیند‘‘رکھا ۔پہلے لکھا’’مجھے نیند کیوں نہیں آتی‘ ‘ جب اسے پڑھا تو سوچنے لگا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ تیرے نیند نہ آنے کے بارے میں سوچ کر اپنی نیند خراب کریں ۔بھئی یہ تو تمہارا مسئلہ ہے کہ تجھے نیند کیوں نہیں آتی، ویسے بھی میاں بیوی کے ہزار مسئلے ہوتے ہیں خود گھر میں سلجھاؤ‘دوسروں کو جج بنانے کی ضرورت کیا ہے؟‘کیا انہیں نیند آتی ہوگی۔
ایک دن جب میں دفتر سے گھر وآپس آرہا تھا تو نزدیکی مارکیٹ میں ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ہر طرف افراتفری مچ اٹھی اور چند ہی لمحوں میں قانون کے رکھوالوں نے مارکیٹ کا کریک ڈاون کر کے لوگوں پر ڈنڈے برسانے شروع کردئے۔جب اپنی اپنی قسمت کے ڈنڈے کھاکر لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف خوشی خوشی روانہ ہوئے تو میں بھی جب باعزت پٹائی کھا کر شام کے وقت گھر میں حاضر ہوا ، گھر والے میری معصوم صورت دیکھ کر تھوڑا سا پریشان ہوگئے کیونکہ اُن کو میرے گھر میں داخل ہونے کی ہٹلری ادا معلوم تھی۔خیر چائے پیتے پیتے میرا ذہن ابھی مارکیٹ کی خوفناک صورتحال سے آزاد نہیں ہو پایا تھا کہ اچانک میرے چھوٹے لڑکے، جو ابھی تیسری جماعت کا طالب علم تھا، نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا کہ ابو جان! آپ کی لائبریری میں کلاشنکوف ہے۔یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔میں سوچنے لگا کہ پتہ نہیں کہ کس دشمن نے مجھے پھنسانے کے لئے یہ خطرناک سازش رچی ہوگی۔آخر میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟ میں اپنے چھوٹے بیٹے کو بڑی نرمی سے سمجھانے لگا کہ بیٹا کسی کو مت بتانا اور ٹوٹے قدموں سے اُس کو اپنا رہبر بناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا۔جب مجھے تمام کتابوں کو اُلٹ پھیر کر کہیں بھی کلاشنکوف نظر نہیں آیا تو میں نے اُسے کلاشنکوف کے بارے میں پوچھا۔وہ زور زور سے ہنستے ہوئے بولا کیا ابو جان! آپ اصلی کلاشنکوف ڈھونڈرہے ہیں، میں نے تو اس کتاب پر کلاشنکوف دیکھا ہے۔یہ کہتے ہوئے جب اُس نے کتاب میرے حوالے کردی تو وہاں پر ایک شاعر کی کتاب کا نام ’’کلاشنکوف ‘‘تھا اور ساتھ ہی کلاشنکوف کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔یہ دیکھتے ہی مجھے اُس شاعر پر اتنا غصّہ آیا کہ اگر وہ اُس وقت میرے سامنے ہوتا تو جتنے ڈنڈے مجھے مارکیٹ میں پڑے تھے اُسے زیادہ ڈنڈے اُس پر مارتے ہوئے اُس سے پوچھتا کہ کتاب کا نام’’ کلاشنکوف ‘‘ کیوں رکھا؟کیا کلہاڑی یا چاقو نہیں رکھ سکتا تھا؟
میرے ایک قریبی ساتھی نے جب شاعری کی دنیا میں زبردستی گھسنا شروع کردیا تو اپنی پہلی ہی غزل مجھے سنا کر پوچھنے لگا کہ تجھے یہ غزل میرؔ کی غزل سے کتنی اچھی محسوس ہو رہی ہے؟میں نے سوچا کہ اُس کی طفلانہ سوچ کا بھرم توڑ کر اُسے کہوں کہ ایک غلام کو کسی شہنشاہ سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے لیکن بعد میں سوچا کہ مفت میں ناراض ہوکر مجھے وہ تعصب اور تنگ دلی کی تہمت سے نوازے گا‘ اس لئے میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ مشق سخن جاری رکھو کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اُس کی مشق صرف جاری ہی رہے گی۔ مجھے تو کئی ایسے شاعروں سے واسطہ پڑا ہے کہ دیکھنے میں بڑے سنجیدہ مزاج اور بزرگ صورت نظر آتے ہیں لیکن جب کبھی ان کے ساتھ ناگہانی آمنا سامنا ہوجائے، چاہے کسی سڑک پر یا کسی بس میں‘یا کسی دفتر میں یا کسی تعزیتی مجلس میں‘بس پھر کیا اپنا کلام سنانے پر اُتاولے نظر آرہے ہیں ‘یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ موقع محل کلام سنانے کا ہے بھی یا نہیں۔
ایک مرتبہ مجھے کسی کام سے یونیورسٹی جانا تھا ۔بس اڈے پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ بسوں کے ڈرائیور ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ادھر اُدھر نظریں دوڑا کر مجھے تقریباً ڈیڑھ درجن سواریوں کا گروہ نظر آیا۔نزدیک جاکر معلوم ہوا کہ وہ بھی بڑی بے قراری کے ساتھ گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی دوران ایک ٹرک وہاں پر آکر نمودار ہوا۔ٹرک کا ڈرائیور ایک پنجابی سردار تھا ۔ان میں سے ایک آدمی نے جب ڈرائیور سے انہیںشہر تک لے جانے کے لئے کہا تو وہ مان گیا۔میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ٹرک میں سوارہوگیا۔ان لوگوں نے اپنے اپنے بیگ سے کاغذات نکالنے شروع کردئے اور ہر ایک اپنا کلام پہلے سنانے پر اصرار کرنے لگا۔میں نے جب تنگ آکر ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ؟ سب ایک ہی گردان میں بول پڑے کہ مشاعرے میں جانا ہے۔ میں نے کہا اچھا آپ شاعر ہیںتو ٹھیک ہے، اگر آپ لوگ ٹرک کے پلیٹ فارم کو ہی منچ بنا کر مشاعرہ منعقد کرنا چاہتے ہیں تو کسی کو ناظم مشاعرہ منتخب کرو اور آرام سے اپنا کلام سناؤ۔یہ سنتے ہی وہ ایک دوسرے کو تکنے لگے، شاید سوچ رہے تھے کہ وہ تو سب ناظم بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی سوچ نے جب ان میں کسی کا بھی ناظم بننے کا شوق پورا ہونے نہیں دیا تو انہوں نے مجھے ہی کھانڈ کی بوری پر بیٹھا کر مسند نظامت عطا کی۔میں نے بار بار ان سے کہا کہ میں شاعر نہیں ہوں لیکن وہ اپنے لوگوں میں کسی کی نظامت قبول کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔بہرحال مشاعرہ شروع ہوا۔
ایک درمیانہ درجے کے شاعر نے اپنا کلام شروع کرنے سے پہلے ہی اُس کی تعریف یوں کی کہ یہ کلام آج صبح سویرے میں نے بغیر سوچے سمجھے اچانک لکھ ڈالا۔میں یہ سنتے ہی خود سے کہنے لگا کہ جو کلام بغیر سوچے سمجھے لکھا جائے وہ تو ضرور معیاری ہوگا۔اُس نے شروع کیا ؎
میں تو باتھ روم میں جارہا تھا
پانی شاور سے آرہا تھا
وہ تو ٹھنڈا ٹھنڈا بہا رہا تھا
میں تو ڈر ڈر کے گا رہا تھا
وہ ابھی اپنا کلام سنا ہی رہا تھا کہ تمام شعراء نے واہ واہ کی گونج سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔شور سن کر پنجابی سردار نے سپیڈ بریکر پر گاڑی روک کر پریشانی کے عالم میں پوچھا ’’کیا ہوا ؟ کوئی مر گیا کیا ؟‘‘ یہ سنتے ہی تمام شاعر سہم گئے ۔میں نے کہا کہ آہستہ آہستہ واہ واہ کہو۔پہلے تو میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے اور تم بغیر سوچے سمجھے واہ واہ کئے جارہے ہو۔یہ شاعر اب مجھ سے مخاطب ہوا کہ جناب ناظم صاحب میرے کلام پر کچھ تبصرہ فرمائے۔میں نے کہا محترم اس پر تبصرے کی کیا ضرورت ہے یہ تو آمد ہے آمد ۔شاور کا پانی سیدھے اوپر والی ٹینکی سے آتا ہے اس پر تبصرہ کون کر سکتا ہے!!!
مشاعرہ بڑے زوروں پر تھا۔اب ایک کہنہ مشق شاعر نے غالبؔ کی زمین میں غزل سناتے ہوئے کہا کہ میں صرف ایک شعر سناؤں گا۔ہر طرف ارشاد ارشاد کی صدائیں گونجنے لگیں ؎
تاعمر رہی یہ حسرت کہ مجھ میں وقار آتا
یہ شاعری کون کرتا اگر کاروبار ہوتا
ہر طرف مکرّر مکرّر کی گردان لگ گئی۔ کئی بار یہ شعر دہرانے کے بعد جب اُس ستر سال کے شاعر نے خاموشی اختیار کر لی، تو میں نے ڈرائیور کوآواز دی کہ کسی ہوٹل پر گاڑی روک دینا کیونکہ بھوک لگ رہی ہے۔پنجابی ڈرائیور نے واپس جواب دیا کہ اُدھر کیا شورہورہا ہے ؟جب ہم نے کہا کہ یہ شاعروں کی باوقار مجلس کا شور ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھااورفی البدیہہ شعر کہا ؎
میرے ساتھ رہوگے تو بھوکے رہ جاؤ گے
پانی پینا چھوڑ دو سانس بھول جاؤ گے
جب ڈرائیور نے بھی شعر سنایاتو ایک جذباتی شاعر اپنے شعری سفر کی غم ناک روداد سناتے ہوئے بول پڑا کہ اُس کے کئی شعری مجموعے بغیر تبصروں کے چھپ چکے ہیں۔کئی نامو رشاعروں اور ناقدروں کو اعزازی نسخے دینے کے باوجود نہ کسی شاعر نے ان پر کوئی تبصرہ لکھا اور نہ کسی ناقد نے آج تک اس کے کلام کو پڑھنے کی زحمت اٹھائی۔وہ دل برداشتہ ہو کر اپنا احتجاجی کلام پڑھنے لگا ؎
اٹھو اپنے گمنام شاعروں کو جگا دو
تنقید نگاروں کے در و دیوار ہلا دو
جس اخبارمیں تمہارا کلام نہ شامل ہو
اُس اخبار کے پڑھنے کو تم بھی بھلا دو
مشاعرہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ گاڑی شہر پہنچ گئی اور کئی شاعر اپنا کلام سنائے بغیر بڑی بددلی سے نیچے اترے۔
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
E.mail;[email protected]
m.9906834877