جموں/یو این آئی/ نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پاکستان زیرانتظام کشمیر کے حوالے سے اپنے حالیہ بیانات پر ہونے والی تمام تر تنقید اور قانونی مہم جوئی کو نظرانداز کرتے ہوئے رواں ماہ میں تیسری مرتبہ کہا ہے کہ سرحد کے اس پار والا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ہفتہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر شیر کشمیر بھون میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تہنیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نیشنل کانفرنس صدر نے اپنے حالیہ بیانات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ’ہاں میں کہتا ہوں کہ وہ (پاکستان زیر انتظام کشمیر) ان کا (پاکستان کا) ہے۔ کیا وہ چوڑیاں پہنے ہوئے ہیں، ان کے پاس بھی ایٹم بم ہیں، ان سے ہمیں مروانا ہے کیا، تم لوگ تو محلوں میں بیٹھے ہوئے ہو، اُس غریب کا سوچو جو سرحد پر ہے اور روز وہاں بم پھٹ رہے ہیں،اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ میرے افراد خانہ گھر آئیں گے یا نہیں، تمہارے فوجی مر جاتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں میں اتھل پتھل مچی ہے، فاروق عبداللہ کے کہنے سے مرچی لگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں نے کہا کیا، میں نے کہا کہ وہ حصہ جو ہے جس کو آپ پاکستان انتظام کشمیر کہتے ہیں، اور وہ اسے آزاد کشمیر کہتے ہیں (پاکستان کا ہے) ۔ میں نے کہا کہ 70 سال سے وہ پاکستان کے پاس ہے،ستر سال سے آپ نے وہ پاکستان سے لیا نہیں، چار جنگیں ہوئیں،پچھلی جنگ کرگل میں ہوئی، اس میں خود بی جے پی کے وزیر اعظم (اٹل بہاری واجپائی) کہتے ہیں کہ ہمیں ایل او سی کو پار نہیں کرنا ہے، آج یہ دھاڑے مار رہے ہیں کہ ہمیں وہ علاقہ لینا ہے، ارے نیشنل کانفرنس نے تمہیں کب روکا وہ علاقہ لینے سے، جو تم یہاں دھاڑے مار رہے ہو ، یہاں میرے پتلے جلا رہے ہو،بندوق لیکر سرحد پر جاؤ ، لڑو، لڑیں گے نہیں صرف دکھائیں گے، وہ کشمیر ہمارا ہے، وہ کشمیر ہمارا ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ 1965 ء کی ہند و پاک جنگ کے دوران ہندوستان نے حاجی پیر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا، لیکن تاشقند معاہدہ کرکے اس نے پاکستان کو وہ حصہ واپس دے دیا۔ انہوں نے کہا ’حال دیکھو۔ 65 ء میں جنگ ہوئی،کتنے ہمارے سپاہی اور افسر مارے گئے؟ اور ہم نے حاجی پیر حاصل کیا۔ اس حاجی پیر حاصل کرنے سے ہمیں اتنا فائدہ تھا کہ پونچھ اور اوڑی کا جو فاصلہ ہے وہ آپ ایک یا دو گھنٹے میں طے کرسکتے تھے، مگر معاہدہ کس نے کیا، ہندوستان کی حکومت نے کیا نا، تاشقند معاہدہ روسی صدر کی موجودگی میں کیا گیا۔ پاکستان کے صدر بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے وہ زمین واپس کرلی، کیا نیشنل کانفرنس سے اس وقت پوچھا گیا کہ زمین واپس کردی جائے یا نہیں، آج ہمیں دھاڑے مار رہے ہیں، مجھے کورٹ میں بھی لے جارہے ہیں، مبارک ہو، اللہ کا شکر ہے، وہاں بھی ہم سچ بولیں گے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اٹانومی کا مطالبہ پاکستان یا چین سے نہیں کررہی ہے بلکہ اس اٹانومی کا مطالبہ کررہی ہے جو ریاست کو پہلے حاصل تھی۔ انہوں نے کہا ’ہم نے آزادی نہیں مانگی، مودی جی سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ کب نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ہم آزادی چاہتے ہیں، کب ہم نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ جانا ہے، نیشنل کانفرنس نے اپنی خودمختاری مانگی ہے، وہ خودمختاری جس کو ہم نے اسمبلی میں منظور کیا ہے، وہ خودمختاری ملک کے آئین میں ہے، پاکستان کے آئین میں نہیں،وہ چین کے آئین میں نہیں ہے، وہاں لکھاہے کہ دفعہ 370 آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ اس زمین کے مالک ہیں‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی دفعہ 35 اے کے خلاف ہورہی سازشوں کے حوالے سے کہا ’لیکن اٹانومی دینے کے بجائے وہ 35 اے کو نکالنا چاہتے ہیں، شور کرنے والے یہ جموں والے (بی جے پی والے) جنہوں نے 26 سیٹیں لی ہیں، ان سے کہئے کہ پہلا حملہ آپ پر ہوگا، پہلے لوگ آپ کی زمینوں پر حملہ کریں گے، یہ صرف الیکشن کے لئے فراڈ کررہے ہیں۔،مسلمانوں اور ہندؤں کو لڑانے کی کوشش کررہے ہیں‘۔ بی جے پی لیڈر رنجیت بہادر شریواستوکی مسلمانوں کو دھمکی کے حوالے سے فاروق عبداللہ نے کہا ’آج دیکھئے اترپردیش میں مسلمانوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار تم نے ہمیں ووٹ نہیں دیا تو ہم تمہیں دکھائیں گے۔ ارے یہ ہندوستان تمہارے باپ کا ہندوستان نہیں ہے، یہ ہندوستان سب کا ہے، انہیں آئینی حق ہے کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور کس کو نہیں دینا چاہتے ہیں۔،کسی سے آپ زور زبردستی نہیں کرسکتے ، ان حرکتوں سے تم نے ایک پاکستان تو بنا ڈالا اور کتنے پاکستان بناؤ گے، کتنے اور ٹکڑے کرو گے ہندوستان کے، ہم نے تو مضبوط ہندوستان کے لئے ووٹ دیا ہے، ہم نے کمزور ہندوستان کے لئے کبھی ووٹ نہیں دیا ، اگر انہیں یہ چیزیں کرنی ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ نیشنل کانفرنس ان سے لڑنے کے لئے تیار ہے۔،شیطان تھوڑی دیر کے لئے کامیاب ہوسکتا ہے، آخر کار شیطان کو گرنا ہے اور وہ گرے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’شیو سینا بکواس سینا اور اس طرح کی دوسری تنظیموں سے وابستہ لوگ اصلی پاکستان ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’حال ہی میں نے ان حصوں کا دورہ کیا جو پاکستان کے بالکل قریب ہیں۔ میں ٹیٹوال اور مژھل میں حیران ہوگیا کہ پہاڑ کے اُدھر (پاکستان زیر قبضہ کشمیر میں) سڑک بہترین اور پہاڑ کے ادھر سڑکیں انتہائی خستہ ہیں۔ جیسے وہ ہندوستان کا حصہ ہی نہیں۔ وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو صرف اللہ اس کا محافظ ہوتا ہے۔ میں اس اسٹیج سے حکومت سے کہتا ہوں کہ ان کی طرف بھی تو نظر ڈالو۔ اب وہ علاقے برف پڑنے سے چھ مہینوں کے لئے بند ہوجائیں گے۔ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ ہمیں پاکستان نہیں جانا ہے۔ ہم ہیں تو اس بڑے وطن کے ساتھ ہیں۔ یہ جو ہمارے سیو سینا اور بکواس سینا ہے، انہیں یہ دیکھنا چاہیے۔،جو ہمیں پاکستانی کہتے ہیں، ارے پاکستانی تو تم ہو،جو ملک کا بھیڑہ غرق کررہے ہو، مذہب کے نام پر لڑائی کرا رہے ہو، ہم مذاہب کے نام پر لڑائی نہیں چاہتے ‘۔ فاروق عبداللہ نے ریاست کی محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے کرسی کے لئے سب کچھ قربان کردیا۔ اگر ہمیں جی ایس ٹی میں کسی رعایت کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیں جی ایس ٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ ہمیں مالی خودمختاری حاصل تھی لیکن اس حکومت نے وہ بھی سرینڈر کردی۔ آج حالت یہ ہے کہ چور دروازے سے لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں۔ اور پڑھے لکھے ہمارے بچے بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی وہ اننت ناگ گئیںاور افسروں سے کہا کہ یہ لوگ ہیں، صرف انہیں بھرتی کرنا ہے۔ اس نے یہ نہیں دیکھا کہ خدا سب کا ہے صرف ایک کا نہیں ہے۔ ایک دن آئے گا جب تمہیں حساب دینا پڑے گا‘۔