ملک منظور
انس والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔گھر کے سبھی افراد اس کو بہت پیار کرتے تھے۔ انس کے والد ایک بڑے تاجر تھے اور والدہ ایک انجینئر تھیں۔ چونکہ انس چھ بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا اس لئے اس کی ہر مانگ پوری کی جاتی تھی ۔بہنیں اس کو بیحد پیار کرتی تھیں ۔والدین کا حکم بھی یہی ہوتا تھا کہ کسی بھی صورتحال میں انس کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے ۔ انس کی بہنوں کو سارے دکھ برداشت کرنے کی ہدایت دی جاتی تھی ۔ بہنیں تو بھائیوں کے لئے رحمت ہوتی ہی ہیں لیکن اگر بھائی ایک ہی ہو تو سب کا دلار بھائی کو ہی ملتا ہے ۔ بہرحال انس اسی پیار اور دلار میں بڑا ہونے لگا ۔ وہ بہنوں کے بال اور کان کھینچتا تھا ۔ ان کی کتابیں پھاڑتا تھا اور کبھی کبھی چیزیں اٹھا کر ان کے سر پر مارتا تھا۔والدین انس کی ان حرکتوں پر غصہ ہونے کے بجائے خوش ہوجاتے تھے ۔درد کی وجہ سے جب کوئی بہن انس کو کبھی ٹوکتی تھی تو والدین غصہ ہوتے تھے ۔ اس لئے بہنیں یا تو چپ چاپ درد برداشت کرتی تھیں یا انس سے دوررہتی تھیں ۔ایک دن انس نے چاقو سے چھوٹی بہن جو اس کے ساتھ کھیل رہی تھی، کے گال کو ذخمی کیا ۔ بیچاری کے چہرے سے بہت خون بہنے لگا ۔وہ درد کی وجہ سے رونے لگی ۔ والدین نے فوراً بیٹی کو ہسپتال پہنچا کرعلاج کرایا۔ انس کی یہ حرکتیں دن بہ دن بڑھتے دیکھ کر والدین پریشان ہوگئے ۔اس کی شرارتوں پر قدغن لگانے کے لئے انہوں نےمختلف قسم کے الیکٹرانک کھلونے لائے ۔انس ان کھلونوں کے ساتھ کچھ دن کھیلتا تھا اور پھر توڑ دیتا تھا ۔گھر والے پھر نئے اور دلچسپ تماشےلاتے تھے وہ پھر استعمال کرکے توڑ دیتا تھا ۔گھر والوں کو جب کوئی صورت نظر نہیں آئی تو انہوں نےویڈیو گیمز کا سہارا لیا ۔انس ان گیمز میں محو ہوگیا ۔وہ روزانہ گیم کھیلنے لگا ۔اس کی شرارتوں کے ساتھ ساتھ اس کا کھانا پینا بھی کم ہوگیا ۔وہ اسکول سے واپس آتے ہی ویڈیو گیم شروع کرتا تھا اور دیر تک کھیلتا رہتا تھا۔ دھیرے دھیرے وہ سستی کا شکار ہوگیا ۔وہ باہر کی دنیا سے بیزار رہنے لگا۔ اس کی نظریں کمزور ہوگئیں۔آنکھوں پر بڑے شیشوں والی عینک لگائی گئی ۔ورزش نہ کرنے کی وجہ سے وہ موٹا ہونے لگا۔
انس کو اس بحران سے نکالنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں ۔ انس جو مانگتا تھا وہ والدین اس کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔انس کی صحت بگڑنے لگی۔ والدین پریشان ہوگئے ۔بہنیں بھائی کی حالت دیکھ کر روتی تھیں ۔گھر کے سبھی افراد انسکی ہدایت اور سدھار کے لئے دعائیں مانگتے تھے۔
انس کی والدہ انس کے تجسس اور توانائی کو تعمیری کاموں میں لگانا چاہتی تھی۔ اس لئے انہوں ایک ورچوئل رئیلٹی ہیڈسیٹ لانے کا ارادہ کیا۔ تاکہ انس کی سوچ کو اس کی دلچسپی کے ذریعے اختراعی کاموں کی طرف موڑ دیا جائے۔ والدہ نے بازار سے ایک اچھا سیٹ لایا۔انس نے جب ورچوئل رئیلٹی ہیڈسیٹ سر پر لگایا تو اس کو ایک بچوں کی ٹرین نظر آئی ۔ چھک، چھک ،چھک کرکے ریل گاڑی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی ۔ ریل گاڑی میں سوار کچھ بچے خوشی سے جھوم رہے تھے، کچھ گا رہے تھے اور کچھ ناچ بھی رہے تھے۔ ریل گاڑی ایک بڑے ٹنل میں داخل ہوگئی اور ایک خوبصورت طرح طرح کی روشنیوں سے سجے پلیٹ فارم پر رک گئی۔ ریلوے سٹیشن کا ماحول نرالا تھا ۔وہاں خدمات فراہم کرنے کے لئےانوکھے چوہے تھے ۔ چوہوں کو دیکھ کر انس سوچنے لگا :” یہ کیسے چوہے ہیں جو دو ٹانگوں پر انسانوں کی طرح چل رہے ہیں اور شائستگی سے بول بھی رہے ہیں۔ ”
” ٹیکنالوجی کی اس نئی اور عجیب دنیا میں آپ کا خیر مقدم ہے انس ۔ ہم نئے زمانے کے چوہے ہیں اور یہ ہماری سلطنت ہے ۔یہاں آپ کو گندگی اور بدبو نہیں ملے گی ۔” ایک چوہے نے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے کہا ۔
” آپ کو میرا نام کس نے بتایا ؟ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟” انس نے حیرانی سے پوچھا ۔
” ہماری سلطنت میں نہ ہی کسی کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے نام پوچھنے کی ۔ بس ہاتھ کی ایک انگلی کو چھوکر یا آنکھوں کو سکین کرنے سے ہم کو سب کچھ معلوم ہوجاتا ہے۔ ” چوہے نے کہا
” یہ کونسی دنیا ہے جو اتنی ایڈوانسڈ ہے ؟ ” انس نے پوچھا
” لگتا ہے آپ باہر کی دنیا سے بےخبر ہیں۔ یہ انسانوں کی بنائی ہوئی ایڈوانسڈ دنیا ہے۔ جس میں ہر چیز ٹیکنالوجی سے جڑی ہوئی ہے ۔” چوہے نے کہا
” ٹیکنالوجی کی دنیا میں آپ کا کیا کام ہے؟ ” انس نے پوچھا
” آپ کو نہیں معلوم کہ ہم ٹیکنالوجی کا ایک بڑا شاہکار ہیں۔چلو میں آپ کو ہماری سلطنت کی سیر کراتا ہوں ” چوہے نے کہا ۔
” اس سلطنت کا بادشاہ کون ہے ؟ ” انس نے پوچھا
” اس سلطنت کا خالق و مالک ایک ذہین اور فہیم انسان ہے ۔ہم اس انسان کی ایجاد ہیں اور اس کے غلام بھی۔” چوہے نے کہا ۔
” آپ کسی کے غلام نہیں ہوسکتے ۔” انس نے کہا
” ہم انسانوں کی طرح نہیں ہیں کہ اپنے خالق و مالک کو بھول جائیں۔” چوہے نے طنزاً کہا۔
انس چوہے کے پیچھے پیچھے چلتے چلتے ایک بڑے بازار میں پہنچ گیا ۔بازار کی دکانیں کھلی تھیں ۔دکانوں پر انسانوں کی جگہ الگ الگ سائز کے چوہے تھے۔
” یہ دکاندار کہاں ہیں ؟” انس نے پوچھا
” دکانوں کے مالک اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور دکان چلانے والے ہم ہیں ۔” چوہے نے کہا۔
” کیوں ؟” انس نے پوچھا ۔
” کیونکہ اس سلطنت میں کوئی کسی کو دھوکہ نہیں دیتا ہے، نہ چوریکرتا ہیں اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں کو پامالکرتاہے۔” چوہے نے کہا۔
” کیا ایسا سماج پنپ سکتا ہے؟ ” انس نے پوچھا
” بالکل اگر انسان قرآن سنت پر عمل کریں گے تو ممکن ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہیں۔” چوہے نے کہا ۔
” آپ کو اتنی جانکاری کہاں سے ملی۔” انس نے حیرانی سے پوچھا ۔
” ہا! ہا! ہا! یہ علم ہمیں انسانوں نےہیسکھایا ہے ۔” چوہے نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” سچ میں انسان اعلیٰ اقدار کے مالک ہیں۔” انس نے کہا ۔
” نہیں انسانوں میں اب انسانیت نہیں ہے اور آپ کی دنیا میں بھید بھاؤ ہے۔آپ لڑکوں کو بہتر اور لڑکیوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ “۔ چوہے نے کہا ۔
” نہیں یہ جھوٹ ہے ۔؟ ” انس نے کہا ۔
“ذرا اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھو ۔آپ نے اپنی بہنوں پر کتنا ظلم ڈھایا ہے اور آپ کے والدین نے آپ کی خاطر ان کو کتنا نظرانداز کیا ہے ۔” چوہے نے تلخ لہجے میں کہا ۔
انس کو اس بات پر شرمندگی محسوس ہوئی ۔ وہ جانتا تھا کہ کس طرح والدین نے ہمیشہ اس کی طرفداری کی ۔
” لیکن تم تو چوہے ہو تم کو یہ باتیں کیسے معلوم ہوجاتی ہیں ۔” انس نے پوچھا ۔
” ہم وہ چوہے نہیں ہیں جو گھروں کے اندر بلوں میں رہتے ہیں ۔ وہ خدا کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور ہم انسانوں کی اختراعی سوچ کا نتیجہ ہیں ۔” چوہے نے کہا ۔
” مطلب تم مصنوعی چوہے ہو۔” انس نے پوچھا ۔
” ہاں ہاں ہم ورچوئل چوہے ہیں جو انسان کی ایجاد ہیں اور اسی کے علم و حکمت کا نتیجہ ۔” چوہے نے کہا۔
” لیکن تمہارا وجود کیسے ہوا ؟” انس نے پوچھا
” تم کیا سمجھتے ہو کہ سب لوگ ویڈیو گیمز یا دوسرے فضول کاموں میں وقت برباد کرتے ہیں۔ نہیں آپ میں سے بہت بچے ایسے بھی ہیں جو خداداد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
وہ کائنات پر غوروفکر کرتے ہیں اور تخلیقی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں” چوہے نے سنجیدگی سے کہا ۔
” ہاں ہاں میں بھی سمجھ گیا کہ مجھے بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے تاکہ انسانوں کا بھلا ہو ۔” انس خود سے کہہ رہا تھا کہ امی نے ورچوئل رئیلٹی ہیڈسیٹ اس کے سر سے اتار کر پوچھا” بیٹےکیا بڑبڑا رہے تھے؟ ”
” کچھ نہیں امی ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور میں کہاں کھوگیا۔
” بیٹے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔تمچاہو تو سب کچھ بہتر ہوسکتا ہے ۔” والدہ نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔
” علم وعرفان کے اس جدید دور میں بھی میں بہنوں کو مارتا ہوں اور آپ کو تنگ کرتا ہوں۔میں آج کے بعد فضول باتوں پر وقت ضائع نہیں کروں گا اور نہ ہی بہنوں کی بے عزتی کروں گا۔”
انس نے ماں سے لپٹ کر کہا ۔
” بیٹے خدا نے ہم سب کو صلاحیتوں کی عظیم نعمت سے نوازا ہے ۔عقل وشعور دے کر احسن التقویم کہا ہے ۔ کتنا اچھا مقام ہے ۔ہمیں اس مقام کے تقدس کو قائم رکھنا چاہیے ۔”
ماں نے پیار سے کہا ۔
اس کے بعد انس نے دھیرے دھیرے سارے غلط کام چھوڑ کر انسانیت کی بقاء اور بہبودی کے لئے کوششیں شروع کیں اور ایک دن وہ روبوٹکس کا ایک مشہور انجینئر بن گیا۔ آج انس جہاں بھی بحیثیت مہمان خصوصی جاتا ہے تو اپنی تقریر میں یہ الفاظ ضرور دہراتا ہے ” ہر بچے میں ایک شرارتی توانائی ہوتی ہے اگر اس توانائی کو مثبت سمت میں نہ لگایا گیا تو بچے منفی عادات کے شکار ہوتے ہیں اور تہذیب سے عاری شخصیت کو فروغ ملتا ہے۔”
���
کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛9906598163