حُسن فروشی جاپان میں ایک باقاعدہ پیشہ ہے اور حُسن فروش عورت کو وہاں گھیشا کہا جاتا ہے۔جاپان میںیہ پیشہ صدیوں پرانا ہے ۔اصل میں بات یہ ہے کہ مرد دنیا میں کسی بھی جگہ کا ہو، عورت کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاکر وہ اپنی تفنن ِطبع کی خاطر البیلے اور عاشقانہ رنگ ڈھنگ وضع کرتا ہے ۔گھیشا بھی اسی ضمن کی ایک اختراع ہے ۔گھیشا عورت کا کاروبار رات کو شروع ہوجاتا ہے اور صبح ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے ۔اُس کے پیشے کا مدعا و مقصد اپنے حُسن اور اپنے ’’حُسن ِاخلاق ‘‘سے تھکے ہوئے انسانوں کو آرام پہنچانا اور خلفشار ذہنوں کو سکون و راحت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ایک گھیشا عورت رات کی کسل مندی کو دور کرکے معطر پانی سے نہادھوکر شام تک اپنے آپ کو بنائو و سنگارسے مزین کرکے اپنے دفتر پہنچ جاتی ہے، جہاں سے وہ بکنگ پر مطلوبہ جگہ پر چلی جاتی ہے ۔ وہ خدمات حاصل کئے ہوئے مرد کے ساتھ ہنستی کھیلتی اور کھاتی پیتی ہے۔اپنے ’’حُسن ِاخلاق ‘‘سے اور میٹھی باتوں سے اُس کا دل بہلاتی ہے ،اُس کے سامنے ناچتی گاتی ہے ۔مہذب انداز میں گفتگو کرتی ہے ،اُس کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی ہے اور سیر و تفریح میں اُس کا بھرپور ساتھ دیتی ہے ۔خیال یہی رہتا ہے کہ وہ شخص ہر اعتبار سے سکون و راحت محسوس کرے ۔صبح ہوتے ہی وہ اپنے گھر کو لوٹ آتی ہے اور اس طرح سے یہ اندھیرے کی دوستی اندھیرے میں ہی اختتام پذیر ہوجاتی ہے ۔یہ بتانا بہرحال ضروری ہے کہ ایک گھیشا عورت حُسن فروش ضرور ہوتی ہے مگر عصمت فروش بالکل نہیں ہوتی ۔اُس کو بچپن سے ہی اعلیٰ آداب کی تربیت دی جاتی ہے ۔رقص و موسیقی کے علاوہ اُس کو گفتگو کرنے کا سلیقہ بھی سکھایا جاتا ہے ۔ تہذیب یافتہ انداز و اطوار کے ساتھ ایک اجنبی مرد کو کیسے خوش کیا جائے ،اُس کا دل بہلایا جائے ،کسل مندی اور تھکاوٹ دور کی جائے ، اُن سب باتوں سے اُسے واقف کرایا جاتا ہے۔
گھیشا عورت بہت خوبصورت اور جاپان کی قدیم تہذیب او ر لباس کی نمائندہ ہوتی ہے ۔گرچہ اُس کے پاس اپنا گھر اور کافی دولت ہوتی ہے مگر اُ س کے باوجود دل سے دُکھی ،غمگین اور غیر مطمئن ہوتی ہے کیونکہ اُس کی پہلی بد نصیبی یہی ہے کہ ہر ایک راحت و سہولت اور عیش و آرام ہونے کے باوجود روایات کے مطابق تیس سال کی عمر ہونے تک اُس کو شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔گویا تیس سال تک وہ گھریلو زندگی کی ذمہ داریوں ،مصروفیتوں اور نعمتوں سے محروم رہتی ہے ۔وہ بچوں کی کلکاریاں نہیں سن سکتی اور نہ ہی میاں کے ناز و نخرے اٹھا سکتی ہے۔گھیشا عورتوں کو اپنے وجود سے بے حد نفرت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس طرح کی زندگی کو نسوانیت کی توہین سمجھتی ہیں ۔وہ دوسروں کو ضرور خوش کرتی ہیں مگر خود ہمیشہ مغموم رہتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ سماج میں اُن کو کوئی باعزت مقام حاصل نہیں ہے ۔وہ اکیلے میں کڑھتی ہیں، تاسف سے ہاتھ مَلتی ہیں اور آنسو بہاتی ہیں ۔اُن عورتوں کا خیال یہ بھی ہے کہ وہ عورتیں نہیں بلکہ مردوں کے لئے ایک کھلونا ہیں ،ایک جیتا جاگتا کھلونا۔ایک بے حد معروف و مشہور اور بے انتہا خوبصورت گھیشا نے چند سال قبل خود کشی کرلی ،مرنے پر اُس کے تکیے کے پاس سے ایک تحریر ملی، جس میں لکھا تھا :’میں اپنے ذلیل پیشے سے تنگ آچکی ہوں ،اسی لئے خود کشی کررہی ہوں۔‘
حق بات تو یہی ہے کہ ایک عورت انسانی سماج میں ایک بلند و بالا اور باعزت مقام رکھتی ہے مگر مرد اُس کو بے عزت کرکے کبھی کوٹھا دے دیتا ہے ،کبھی گھنگروں باندھ کر اُسے مجلسوں اور محفلوں میں نچاتا ہے اور اکثر حالات میں اُس کی معصومیت اور سادگی کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اُسے متاع ِ کوچہ و بازار بھی بنا دیتا ہے۔حالانکہ مرد خوب جانتا ہے کہ وہی عورت اُس کو جنم دینے والی بھی ہوتی ہے ۔وہ ایک مرد کے سامنے بیوی،بہن ،بیٹی ،خالہ ،پھوپھی ،چاچی ،دادی ،نانی اور سب سے بڑھ کر ایک عظمت اور وقار کے ساتھ ماں کے روپ میںآتی ہے اور ہر جگہ ،ہر منصب پر ،ہر رشتے میں وہ اپنا کردار ڈھنگ اور بحسن و خوبی نبھاتی ہے ۔ایک جگہ یہ دُلہن ہے تو دوسری جگہ خوشدامن ہے ۔ایک جگہ سالی کے روپ میں آتی ہے تو دوسری جگہ بہن کا بہناپا نچھاور کرتی ہے ،ایک جگہ بیوی کے ناطے نوکرانی بن جاتی ہے تو دوسری جانب دادی نانی کے روپ میں اپنے کندھوں کو گھساتی ہے ۔
دوسرا پہلو بھی دیکھئے ،وعدہ ٔا ور وفا شعاری میں یہ عورت ایک طرف ہیر بن کر محبت کا تاج سر پر رکھتی ہے تو دوسری طرف لیلیٰ ٔ صحرا بن کر مجنوں کے پیار کی امانت دار ہوجاتی ہے ۔ایک طرف شیریں بن کر سنگ آستان پر سر پھوڑتی ہے تو دوسری طرف سونی بن کر شہید محبت ٹھہرتی ہے ۔ایک طرف صاحبان ہوکر مرزا سے التجا کرتی ہے :ع ڈاچی والیا موڑ مُہاروے
تو دوسری طرف بالو کے روپ میں زور و شور سے گڑ گڑ ا کر لوگوں سے التجا ئیں کرتی ہے : ع ۔۔پرے ہٹ وے بابو سانوں ماہیا دیکھن دے۔
عورت اپنی زندگی کے یہ سارے پارٹ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیتی ہے اور اپنے لامحدود پیار و شفقت اور اُنس و الفت کے خزانے بے حساب اور بے لوث لٹاتی ہے ،نچھاور کرتی ہے اور بانٹتی ہے ،تبھی تو مرد ہوکر بھی حضرت گوہر عثمانی صاحب یہ کہنے کے لئے مجبور ہوگئے ؎
حیا و شرم زیور ہیں خلوص و اُنس فطرت ہے
ہے پیکر حُسن کا عشق و وفا کی جان ہے عورت
بنا دیتی ہے گھر کو رشک ِجنت یہ سلیقے سے
ہر ایک رشتے میں عالی ظرف عالی شان ہے عورت
کوئی گوہر سمجھ پایا نہ اُس کو ساری دنیا میں
وفا دشمن یہی کہتے رہے کہ نادان ہے عورت
مگر یہ کس قدر شرم و افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم تحفۂ قدرت کو اور باغِ آدم کے حسین اور خوشبودار پھول کو، مرد نے ہمیشہ بے وقعت کیا،بے عزت کیا ۔
………………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995