زبان کی اہمیت وافادیت ہر زمانے میں مسّلم رہی ہے۔زبان ہی آپ کے پیغام کو حقیقی طور پر عوام تک پہچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔یہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ایک دوسرے کے در میان رابطے کے لیے زبان اپنی جدا خصوصیت کی متحمل ہوتی ہے۔زبان ہی کے ذریعہ ہم اپنی بات ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتے ہیں گرچہ اس کام کو انجام دینے میں دوسرے ذرائع کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔زبان کو مشینی زبان میں تبدیل کرکے ہم اپنے مقاصد کے لحاظ سے اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن جب میڈیا کے تعلق سے زبان کی بات کی جاتی ہے تو اہم پہلوؤں کی نشاندہی ہوتی ہے،چاہے ہم پرنٹ میڈیا کی بات کریں یاالیکٹرانک میڈیا یاپھر سائبر میڈیا جسے نیومیڈیا کے نام سے بھی جانا جاتاہے ، ان سب میں زبان کی اہمیت واضح ہے۔ زبان کے عام فہم اور خوبصورت استعمال سے اخباری تحریر ،ریڈیو پروگرام یا پھر ٹیلی ویژن نشریات ،اشتہارات وغیرہ مقبول بنائے جاسکتے ہیں۔ دوسرا خاص پہلو یہ ہے کہ میڈیا کے کسی بھی ذرائع چاہے وہ تحریری ذریعہ ہو ، سمعی یا بصری سب میں یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ ہمارا ٹارگیٹ آڈینس کا ہے ۔مطلب یہ کہ ہم کن لوگوں کے لیے مذکورہ چیزوں کو پیش کر رہے ہیں ۔اس کے مطابق ہی زبان کا تعین کیاجاتاہے۔
ہم اپنے جذبات واحساسات ،خیالات ،محسوسات، مشاہدات وغیرہ کو جب اپنے سے کسی دوسرے شخص کے یہاں بھیجتے ہیں یا دوسروں کو اپنے خیالات و اظہارات سے واقف کراتے ہیں تو ایسا عمل ہی ترسیلی کے دائرہ میں آتا ہے ۔لفظ ترسیل کا عربی مادہ ر،س ،ل ہے جس کے معنی ٰ ہیں :بھیجنا یا پہنچانا ۔ ترسیل کا انگریزی متبادل communicationہے جو کہ بنیادی طور پر لاطینی لفظcommunis سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’اشتراک‘‘ ہوتے ہیں ۔ویر بالااگروال اور وی ایس گیتا کی مشترک تصنیف ’’ ہنڈبُک آف کمیونکیشن ‘‘میں ترسیل کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے۔
’’ترسیل اطلاع بھیجنے یا حاصل کرنے کا عمل ہے۔یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم انسانی رشتوں کو ہموار کرتے ہیں اور فروغ دیتے ہیں۔‘‘ترسیل ایک دو طرفہ سماجی عمل ہے جو انسانی سماج ومعاشرے میں اپنا عملی سلسلہ استوار کرتا ہے۔اس عملی سلسلے کے لیے سماج ومعاشرہ ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اسی کے ذریعے یہ انجام پذیر ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام ترپہلوؤں پر ترسیل اثر اندازہوتی ہے۔ یا یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اس کے بغیر کوئی کام انجام نہیں پاسکتا۔تہذیبوں کا وجود اس میں مضمر ہے۔ آج کے معاشرے میں جب انسان اپنی گزشتہ تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اور اس سے موازنہ کرتا ہے تو اپنے کو بہت ترقی یافتہ تصور کرتا ہے۔عہد حاضر میں ترسیلی عمل میں بہت واضح وسعت نمودار ہوئی ہے، عوامی ذرائع ترسیل میں جو کردار اطلاعاتی ٹیکنالوجی کاہے وہ بہت واضح اور مسلّم ہے۔
دنیا جس برق رفتار سے ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہے اسی رفتار سے عوامی ذرائع ترسیل میں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔عوامی ذرائع ترسیل وقت کے تقاضے کے لحاظ اپنے کو جدید ترین ذرائع سے آراستہ ہوئے ہے ۔آج کا دور اطلاعاتی دور تسلیم کیا جارہا ہے،اطلاعاتی جنگ(Info War )جیسی اصطلاحات ہمارے سامنے ہیں۔آج ریڈیو ،ایف ۔ایم ریڈیوز،ٹیلی ویژن ،سٹیلائٹ،ٹیلی فون ،فیکس مشین وغیرہ ترسیلی عمل کے اہم ذرائع ہیں۔آج کے ترسیلی عمل میں جن دو ذرائع کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ ہیں موبائل فون اور انٹرنیٹ ۔موبائل فونز آج انسانی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکے ہیں اور اس کی رسائی ایک بڑی عوام تک ہے۔لیکن ان ذرائع میںجس کو سب پرفوقیت حاصل ہے وہ انٹرنیٹ ہے، جو بہت ہی فعال ہے۔ حالانکہ اس کی رسائی موبائل فونز کے مقابلے میں کم ہے اور یہ مخصوص طبقے تک ہی اپنی رسائی حاصل کرسکا ہے۔لیکن یہ ترسیلی ذریعہ بہت ہی پُراثر ہے ۔اس نے ترسیل کے منظر نامے کوہی بد ل ڈالا ہے۔جس کے لئے دنیا کے امیر ترین شخص اور کمپیوٹر کمپنی مائیکروسافٹ کے مالک ’’بل گیٹس‘‘نے اپنی کتاب ’’انٹرنیٹ از دی فیوچر‘‘(Internet is the future )میں لکھا ہے: ’’انٹرنیٹ ایک طلاطم خیز لہر ہے جو کمپوٹر انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور وہ بہت سے لوگ جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ،اس میں ڈوب جائیں گے۔‘‘
وقت کے ساتھ عوامی ترسیل کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور نئے زمانے میں اس نے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا نیا روپ اختیار کیا ہے ۔ اطلاعاتی ذرائع میں یوں تو اخبار ،میگزین ،خطوط ، ریڈیو، ٹیلی ویژن،ٹیلی فون وغیرہ شامل ہیں۔لیکن جب ہم اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہماری مراد کمپیوٹر وانٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے ہوتی ہے عہد حاضر کی سب سے فعال ترسیل کے ذرائع میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مانا جاتا ہے اور کم و بیش دنیا کی تمام ممالک اور زبانوں میں اس کی مدد سے ترسیلی کام انجام دئیے جارہے ہیں۔لیکن ابھی یہ ذریعہ لوگوں تک نہیں پہنچ پارہا ہے ۔خود ہندوستان میں بڑے شہروں کوچھوڑ ،قصبات اور دیہی علاقوںمیں اس کے استعمال کا تناسب بہت کم ہے۔حالانکہ بہت تیزی سے اس کے تعلق سے بیداری لوگوں میں پیدا ہوتی ہے اور اور لوگ اس سے وابستگی کے خواہاں ہیں ۔ابھی بھی گاؤں میںریڈیو کے گرد جمع ہوکر خاموشی سے خبریں اور خصوصاََ کرکٹ میچوں کو سننے کا چلن ہے ۔حالانکہ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد ریڈیو کا استعمال کم ہوگیا ہے۔لیکن ایف۔ایم چینلوں نے شہری علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
عوامی ترسیل کو جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایسے بہت پہلو آتے ہیں جو اس کی اہمیت اور فعالیت کو بڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ عوامی ترسیل کے میدان میں یہ ذریعہ ایک انقلابی مقام رکھتا ہے جو اتنا فعال ہے کہ پھیلتا ہے تو پوری دنیا پر محیط ہوجاتا ہے اور سمیٹتا ہے تو ایک نقط میں سما جاتا ہے ۔اس لیے عوامی ترسیل میں اس کو ہم سب زیادہ اہمیت دے سکتے ہیں۔اس کا دائرہ اتنا وسیع تر ہوتا چلا گیا ہے کہ ملکوں کی سرحدوں نے اس کی لامحدود یت کے سامنے خود سپردگی کرکے اس کی اسیر ہوگئی ہیں۔اس انقلابی سفر نے ہر زبان کو عالمی مقام عطا کیا۔مثال کے طور پر ایک وہ زمانہ تھا جب ایک محدود دائرے تک اس کی رسائی تھی ۔لیکن آج اس فعال تر سیلی نظام کی بنیاد پر ای پیپرس،ای بکس،ای سرچ انجن،ای ٹرانسلیشن ،مشینی ٹرانسلیشن،بلاگنگ،ای معاشرہ جیسی اصطلاحات ہمارے سامنے آئی ہیں۔ صرف گوگل سرچ انجن کا جائزہ لینے پر دنیا کی تقریباََ ڈیڑھ سو زبانوں کی سہولیات فراہم ہیں۔اسی طرح عوامی ترسیل کا فیس بک کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس نے ایسا پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے جہاں پوری دنیا کے لوگوں نے دنیا عوامی ای معاشرہ تشکیل دے کر آپس میں ہم کلام ہیںاور کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے پیغامات ،خیالات کی ترسیل اپنی زبان میں کررہے ہیں۔اسی طرح اس عہد میں عوامی ترسیل کا اہم ذریعہ بلاگنگ ہے جس کے ذریعہ پوری دنیا کے لوگ اپنی زبان میں ایک دوسرے سے ترسیل میں مصروف ہیں۔ مجموعی طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی لوگوں کے ساتھ ساتھ ہر زبان کی اہمیت کو عوامی ترسیل کے حوالے سے واضح کردیا ہے۔ہاں ابھی یہ پہلو اس میں ضرور ہے کہ ابھی بہت سے لوگ اس سے ہم آہنگ نہیں ہوپائیے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریسرچ اسکالر، فون 9103026088
Email: [email protected]