ریاست میں موسم کی نامہربانی کانزلہ اکثرو بیش تر جموں سری نگر شاہراہ کی بندش کی صورت میں نکلتا رہتا ہے ۔ یہ ہمارے لئے معمول کا قصہ ہے کہ کبھی برف باری سے اور کبھی بارشوں سے اس شاہراہ پر پسیاں گر آتی ہیں اور یہ دفعتاً ناقابل عبورومرور ہوجاتی ہیں ۔ بارہا یہ سڑک دھنس کر بھی ٹریفک کی آمدورفت کے قابل ہی نہیں رہتی ۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جو روزا ول سے ریاستی عوام سنتے اور سہتے رہے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ وادی ٔ کشمیر کا دنیا سے رابطہ بنانے والی ا س واحد شاہراہ پر جب بھی آمدورفت مسدود ہو جاتی ہے تو عوام الناس کو بیک وقت کئی قیامت خیز مسائل کا منہ دیکھنا پڑتا ہے : مثلاً شاہراہ بند ہو تو سرراہ رُکے پڑے مسافر مشکلات کی چکی میں پس جاتے ہیں ، اُن کے عزیزواقارب نفسیاتی اضطراب میں اس قدر ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں کہ مانئے اُن کی نبضیں تھم جاتی ہیں ۔ درماندہ مسافروں کے لئے یہ بات خصوصاً سوہان ِ روح ہوتی ہے کہ ان حالات میں ان کا پالا زیادہ ترخود غرض و لالچی دوکانداروں اور ہوٹل والوں سے پڑتا ہے ۔ان کے ہتھے چڑھے بغیر یہ کم نصیب مسافر روح و جسد کا رشتہ قائم رکھ ہی نہیں پاسکتے،اس لئے یہ خود کو لُٹ جانے، نیم جان ہو نے اور کنگالی کا سامنا کرنے پراُف کرنے تک کا اختیار بھی کھو بیٹھتے ہیں ۔ دوم شاہراہ پر مسافر گا ڑیاں اور سا مانِ زیست سے لدی گاڑیاں قافہ در قافلہ درماندہ ہو جائیں تواس کے سبب وادی ٔ کشمیر میں ساگ سبزی سے لے کر اشیائے خوردونی تک ہر چیز کاکال فوراًپڑتا ہے ، جب کہ ذخیرہ اندوز، گراں فروش اور منافع خور اس صورت حال کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر گاہکوں کو دودو ہاتھوں لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اسی کے ساتھ فضائی کمپنیوں اور ٹراؤل ایجنسیوں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ یہ کمپنیاں ہوائی ٹکٹیں سینما بلیکروں کی مانند منہ مانگے داموں بیچ کر مجبور لوگوں کے کس بل نکالنے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ بالفاظ دیگر شاہراہ کا بند ہونے کا مطلب ہے متاثرہ لوگو ں کا ایسے انسان نما گِدھوں کے پنجے میں آجا نا جو ان کی تکا بوٹی کر نا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تادم تحریر یہی تماشے جموں شہر سے لے کر شاہراہ کے مختلف پڑاوؤں پر رُکے پڑے مسافروں اور وادی ٔ کشمیر کے لوگ پھر ایک بار اپنی روایتی شدت وحدت کے ساتھ بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں ۔ اس بار بھی وادی میں سردی کی شدت اور شاہراہ کی بندش کے بعدایک پل بھی ضائع کئے بغیر فضائی کمپنیوں نے بے حسی کی حدیں پھلانگتے ہوئے ہوائی ٹکٹوں کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھاڈالی ہیںکہ دلی سے جدہ جانے کا ہوائی کرایہ سری نگر سے دلی جانے والے ٹکٹ سے بہت کم ہے۔ اس استحصالی ہتھکنڈے کو محسوس کر تے ہوئے اگرچہ گورنر ستیہ پال ملک نے بھی فضائی کمپنیوں سے کرایے کی شرحوں پر ہمدردانہ نظر ثانی کر نے کی اپیل کی مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی ۔ ناگفتہ صورت حال کے حوالے سے قابل صد تاسف بات یہ بھی دیکھی گئی کہ انتظامیہ عملی طور کچھ ٹھوس کر نے کی بجائے صرف اپنے شیش خانوں سے روایتاً لوگوں کو طفل تسلیاں دیتی رہی کہ متاثرہ مسافروں اور عوام کے لئے یہ کیا گیا،وہ کیا گیا ۔ یہ صرف رَٹے رَٹائے جملوںکا گورکھ دھندا ہے ، لیکن اس بیچ اگر کہیں سے انسانیت اور احساسِ مروت کی کوئی جوت جگتی دکھائی دی تو یہ بعض مذہبی تنظیموں ، رضاکاروں اور عام لوگوں کی طرف سے جموں شہر سمیت شاہراہ پر پھنسے بے یارویاور مسافروں کے لئے مختلف جگہوں پرقیام وطعا م کی مفت سہولیات اور دیگر ضروری خدمات کی بہم رسانیاں ہیں ۔ کئی ایک مساجد اور بعض گردواروں میں ہنگامی بنیادوں پر متاثرین کے لئے لنگر پکانے اور انہیں مہمانوں جیسی رہائشی سہولیات میسر رکھنے سے نہ صرف انسان دوستی کی اعلیٰ مثالیں دوبارہ قائم کی گئی ہیں بلکہ ریاستی عوام کو بھی یہ پیغام بزبان حال ملا کہ دُکھ درد میں کسی کے کام آنا مذہب اور دین دھرم کا سب سے بڑا مطالبہ ہے ۔ یہ انسان دوستی اور سماجی خدمت کا ایک ایسا مستحسن پیغام ہے جو ہمیں مذہب وملت اور نسل و زبان کی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانیت کے کام آنے کی ترغیب وتحریک دیتا رہے گا۔ اہل کشمیر بلاشبہ انسانی خدمات کی تاریخ میں ہمیشہ سر فہر ست رہے ہیں ۔ اس بارے میں تاریخ کے اوراق زیاد کھنگالئے بغیر اگرہم ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ ء قیامت خیز زلزلے اور ۶؍ستمبر ۲۰۱۴ء کے تباہ کن سیلاب کے پس منظر میں کشمیر یوں کی انسانیت نوازی کے تاب ناک مناظر کو یاد کریں تو یہ دیکھ کر ہمارا سر فخر سے اونچا ہوگا کہ کشمیر یوں نے ان دونوں نازک مواقع پر رضاکارانہ خدمت کی چوٹیاں سر کر کے ثابت کر دیا کہ یہ قوم خرابی ٔ بسیار کے باوجود ا پنی آدمیت اور اُخوت میں کوئی ثا نی نہیں رکھتی ۔ متذکرہ زلزلے سے شمالی کشمیر میں علی الخصوص وسیع پیمانے پر قیامت جیسی تباہیاں بپا ہوئی تھیں ، لیکن کشمیر یوں نے کمر ہمت باندھ لی اور ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر نقد وجنس کی صورت میں دل جوئی کی غرض سے زلزلہ زدگان کی خدمت کر کے ان کے دل موہ لئے۔ پھر ۹؍ سال بعد جب کشمیر کے طول وعرض میں عدیم المثال سیلاب اپنے ساتھ جانی ومالی نقصانات کی تباہ کاریاں لایا تو آزمائش کی ان بھاری بھرکم ساعتوں میں کشمیری نوجوانوں نے متحد ومنظم ہوکرا نسانی خدمات کی ایسی نادر نظریں قائم کیں کہ ان کا اعتراف اپنے تو اپنے غیروں کو بھی کر نا پڑا۔ ان دنوںکشمیری رضاکار نوجوانوں کا اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانا ، اُن کی ہر ممکن بے لوث خدمت کر نا ، انہیں بے گھر ہونے کے باوجود گھر جیسی سہولیات فراہم کر نے میں کوئی کسر نہ اُٹھانا ، یہ ایک ایسی روشن تاریخ ہے جس پر اور تو اور بادامی باغ سری نگر میں تعینات اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی ان نوجوانوں کے جذبہ ٔ انسانیت ومروت کی سراہنا کئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیری رضاکاروں نے غیر ریاستی باشندوں کے علاوہ کئی جگہ وردی پوشوں کو بھی سیلابی لہروں کی نذر ہونے سے بچانے میں کوئی بھید بھاؤ نہ کیا ۔ الغرض ریاست میں کافی دیر سے سیاسی اختلافات اور نظریاتی صف آرائیوں کے باوجود جب بھی ہنگامی حالات میں یہاں جذبۂ انسانیت پر کھنے کا وقت آیا تو لوگوں نے اپنے آپ کو انسان ودستی کے تعلق سے خود کو کھرا ثابت کیا ۔ آج کی تاریخ میں جموں سری نگر شاہراہ کی بندش کے سبب باشندگانِ جموں آزمائش کی کسوٹی پر چڑھے اور مقام ِشکر ہے کہ یہاں کی مقامی مسلم اور سکھ برادری کے علاوہ دوسرے بھائیوں نے درماندہ مسافروں کے لئے مستحسن کام کر کے اپنے جذبہ ٔ انسانیت کی دھاک دلوں میںبٹھادی۔ اس جذبے کو تقویت دینے اور پروان چڑھانے کی ہمیں ریاست بھر میں اَشد ضرورت ہے۔