عاقب شاہین۔ قطر
ادب ایک ایسا عمل ہے جو سدا دوسروں پر اچھا تاثر چھوڑتا ہے اور وہ آپ کے بارے میں حسن ظن رکھیں گے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں ؟ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ کیا کام کرتے ہیں ؟ چاہے آپ گھریلو امورمیں مصروف ہوں یا احباب کی انجمن میں ہوں، اعلی اخلاق آپ کی پہچان ہے ۔بہت سے لوگ ماضی میں ایسے گزرے ہیں اور بہت سے آج بھی ہیں جو محض خوش اخلاق کی وجہ سے بہت آگے نکل گئے۔اخلاق سب سے کار آمد ذریعہ ہے ،جس کے حصول کے لئے کسی جدو جہد کی ضرورت نہیں نہیں۔جبکہ خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دل عزیزی حاسل کرنے کے لئے ’اخلاق‘ سب سے بہتر اور سب سے آسان ذریعہ ہے۔
اگر آپ کے عمل کی کسوٹی اخلاق عالیہ ہے تو آپ دراصل اپنے اردگرد موجود لوگوں کو دکھا رہے ہیں کہ آپ ان کے جذبات کا خیال اور ان کا احترام کرتے ہیں، آپ دوسروں کے رویّے کے لیے بھی معیار قائم کر کے مزید ان کی حوصلہ افزائی کا کام کر رہے ہیں ۔ہر انسان چاہتا ہے کہ جسں طرح وہ دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتاہے تو اگلا بندہ بھی اسں کے ساتھ ویسے ہی پیش آئے ۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے کہ حسن اخلاق دراصل اس عمل کا نام ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کرے تو ہم پھر بھی اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں، یہ صفت عالیہ دراصل اعلیٰ درجے کے لوگوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ، اور یہی چیز دراصل انسان کو حضرت انسان بنا دیتی ہے۔ حیوان اور انسان کے مابین جو فرق ہے، وہ اسی سے واضح ہوتا ہے۔ کیوں کہ حیوان کو صرف اپنے بارے میں فکر لاحق ہوتی ہے اور ایک انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہر ایک کی فکر ہوتی ہے، وہ ایک دردمندانہ دل رکھتا ہے یہ اس کی خوش اخلاقی کا سب سے بڑا محرک ہے ۔چنانچہ جب آدمی اپنے اخلاق کو جان لیتا ہے ،اس کو جاہلوں کی ملامت سے کوئی رنج یا کسی طرح کا کوئی افسوس نہیں ہوتا ۔
اگر ہم حسن اخلاق کی اہمیت کو نظر انداز کر دیں گے تو بغیر اس کے اسلام پر عمل کرنا پھر ممکن ہی نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم صفائی کو نظر انداز کر دیں تو ہم سچے مسلمان نہیں ہو سکتے (جیسے حدیث پاک میں آیا کہ صفائی نصف ایمان ہے)۔ نصف ایمان سے محروم ہونےوالا شخص کبھی مومن نہیں ہوسکتا جبکہ مومن کی یہ صفت ہے کہ وہ اسلام کے تمام تر احکام و قوانین اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بجا لاکر اسکو عملی جامہ پہناتا ہے۔ بغیر صفائی کے جس کو رسولؐ نے نصف ایمان کہا ،کوئی شخص سنت رسولؐ سے محروم رہے تو وہ مومن نہیں ہوسکتا کیوں کہ مومن ان کاموں کی پاسداری کرتا ہے ۔
اسلام میں حسن اخلاق پر زور دیا گیا ہے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اور قیامت میں نامہ اعمال میں سب سے وزنی چیز حسن اخلاق ہو گا ۔ حسن اخلاق وہ چیز ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم اسلام قبول کرنےکےلیے پیش پیش ہوجاتے ہیں ۔ اور ہم سب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے پیغمبر آخر الزماں رحمت للعالمین جناب رسول اللہ ؐ نے دین کی دعوت کو اپنے اخلاق کے ذریعے کامیاب بنایا اور سب سے زیادہ رسول اللہ ؐ اخلاق کی بلندیوں پر فائز تھے ۔ دنیا میں آج تک کسی کے اخلاق اتنے اعلی نہیں تھے جتنے آپ کے ۔ طائف میں اتنے ظلم و ستم ہوئے کہ جسم مبارک لہو لہان ہوا لیکن پھر بھی ان کے لیے بددعا نہیں کی بدلے میں ہدایت کی دعا فرمائی۔ یہ تھے رسول اللہؐ کےاخلاق اس لیے قرآن میں ارشاد ربانی ہیں کہ بےشک رسول اللہ خلقِ عظیم پر فائر ہیں ۔ ایک شیخ کا ایک اقتباس جو ایک بار لیکچر میں دیا گیا تھا: مسلمان آداب سے بنتا ہے۔
پہلے دیکھتے ہیں کہ قرآن اور رسول اللہ نے اخلاق کے بارے میں کیا فرمایا:موطا امام مالک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک مجھے کسی اور وجہ سے نہیں بھیجا گیا، سوائے اس کے کہ میں اعلیٰ صفات کو مکمل کر سکوں۔‘‘دوسرے لفظوں میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد میں سے ایک اصل مقصد کمال تھا۔ لوگ کیسا برتاؤ کرتے ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ حسن اخلاق کا تقاضا کیسے اور کہاں ہوتا ہے۔
خاندان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
اسی طرح دعوت دینے میں بھی اچھے اخلاق کا ہونا لازمی ہے، بغیر اس کے داعی ناکام ہے اور اس کا وعظ و نصیحت لوگوں پر کوئی اثر نہیں کرسکتا جب تک اس کا اخلاق اچھا نہ ہو ۔
آپ اس پر یقین کریں یا نہیں! لیکن حسن سلوک دعوت کی بہترین شکل ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ کوئی شخص لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے اور ایک خدائےحق کی عبادت کرنے کے لیے گھومتا پھرتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی اخلاق نہیں ہے تو کیا کوئی اس کی پیروی کرے گا؟ یا اس کی بات بھی سنیں گے؟ یقینی طور پر جواب نہیں ہونا چاہیے۔
کوئی بھی اس طرح کی زندگی کی پیروی کرنے کو تیار نہیں ہوگا جس پر ایسا شخص (اوپر والا) عمل کرتا ہے۔خواہ وہ فصیح و بلیغ تقریریں ہی کیوں نہ کرے، جب اس کے اعمال، گفتار اور عقائد مخالف ہیں، اس لیے ان غلط صفات کی بنیاد پر کوئی اس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ اعمال الفاظ سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اسلام اپنے ابتدائی دور میں ہندوستان اور مشرق بعید کے کئی ممالک میں عرب کے مسلمان تاجروں کے ذریعے پھیلایا گیا تھا جو مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ تجارت میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان کی ایمانداری اور عمل کو دیکھ کر ان ممالک کے لوگوں نے اس قدر سراہا اور ان کے حسن سلوک کو دیکھ کر وہ ان سے متاثر ہوئے اورآخر کار انہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کر لیا ۔ اگر ہم واقعی دنیا میں انقلاب لانے کی جد وجہد میں لگے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اخلاق کی درستی اور خود میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے، تب جاکر ہم دنیا سے کوئی بھی جنگ لڑ سکتے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ہمارے قدم چومے گی ۔ بس اس بات پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ خود کی تصحیح کرکے اخلاق کی درستی کریں اور سیرت النبی ؐ کا مطالعہ کریں اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی خاصی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم ثابت کر سکیں کہ ہم اللہ کے محبوب کے امتی ہیں اور عاشقان رسول کی صف میں کھڑا ہونا ہمارے لئے دنیا و آخرت میں باعث عزت و شرف ہے ۔خلیفہ الارض ہونے کے ناطے اللہ تبارک وتعالی کی ذات ہم پر فخر کرے اور فرمائے ۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
����������������