سرینگر// عالی کدل میں25برس قبل ہوئی ہلاکتوں پر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں ۔ 1992میں سرینگر کے عالی کدل میں لبریشن فرنٹ کے کئی کمانڈروں سمیت شہری اس وقت جان بحق ہوئے تھے،جب وہ دریائے جہلم کو عبور کر رہے تھے،اور فورسز نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔کمیشن کے سامنے عرضداشت میں کہا گیاہے ’’ اس واقعہ میں22 افراد ہلاک ہوئے تھے، فوج نے جمالٹہ،گرگری محلہ،نواب بازار میں تلاشی آپریشن کے دوران فائرنگ کی،فورسز نے دو شکاریوں پر بھی فائرنگ کی،اور موٹر گولے بھی داغے،جبکہ انہیں حراست میں لینے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی فائرنگ کی وجہ سے شکارا ڈوب گئے،اور اس میں سوار لوگوں نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں، جن لوگوں نے پانی سے باہر آنے کی کوشش کی،انہیں بھی باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی،اور واقعہ میں9 لوگوں کو ہاتھوں سے جان دھونا پڑا‘‘۔کمیشن نے اس سلسلے میں پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔پولیس نے جولائی2016میں رپورٹ پیش کی۔جس میں کہا گیا کہ مذکورہ روز فورسز نے گرگری محلہ،جمالٹہ اور نواب بازار میں تلاشی کارروائیاں شروع کیں،جبکہ جنگجوئوں نے فورسز پر فائرنگ کے علاوہ گرینیڈ داغے، فورسز نے جوابی کارروائی کی،اور جھڑپ میں کچھ لوگ زخمی ہوئے۔پولیس کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا پولیس نے دریائے جہلم سے7جنگجوئوں کی لاشوں کو برآمد کیا،جن کی شناخت عبدالحمید شیخ، ایڈوکیٹ جمیل چودھری ساکن پاکستانی زیر انتظام کشمیر، مشتاق احمد لون،مشتاق احمد کوٹے، غلام احمد گوجری،فیاض احمد شیخ اور ظہور احمد شامل ہیں،جو لبریشن فرنٹ سے وابستہ تھے،اس کے بعد کیس کو بند کیا گیا۔ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں اس کیس کی شنوائی کے دوران جسٹس (ر) بلال نازکی نے پولیس کے رپورٹ میں محمد احسن اونتو کی طرف سے جواب داخل کرنے کے بعد ایس پی حقوق انسانی کمیشن کو ایک ماہ کے اندرگواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایت دی۔اس سلسلے میں انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے2012میںدرخواست دائر کی تھی۔