یونان سے قریباًساٹھ کلومیٹر دور ایک جزیرہ نما میں ایک پہاڑی ہے جس کو کوہِ آتھوس کہتے ہیں ۔اس پہاڑی پر ایک چھوٹا سا ملک آباد ہے ،جس کو جمہوریہ آتھو نایٹ کہتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق جمہوریہ آتھونایٹ کی آبادی آج سے لگ بھگ تیس برس قبل زائد از سات ہزارمردوں پرمشتمل تھی ،جن میں تقریباً چار ہزار راہب اور بقیہ غیر راہب یعنی عام انسان تھے۔یہ علاقہ زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک ملک ہے ۔عجوبۂ روز گار ایک آزاد ملک جہاں اپنا قانون ،اپنا دستور اور اپنا نظام حکومت ہے مگر اس ملک میں نہ فوج ہے اورنہ پولیس ، جس کی شاید ضرور ت ہی نہیں پڑتی ۔
سن 1868ء یعنی ایک سو اڑتالیس برس قبل اتھانا سیاسی نام کے ایک عیسائی راہب نے اُس علاقہ میں پہنچ کر راہبوں کی ایک نئی بستی قائم کی۔یہاں کے راہب دیہاتوں اور قصبوں میں رہتے ہیں مگر عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پورے ملک کے طول وعرض میں کوئی عورت نہیں رہتی ۔عورت تودرکنارمادہ جانوروں میں گائے ،بھینس ،بکری اور کُتیا تک نہیں پائی جاتی ۔اس ملک کے قدامت پسند راہبوں کا اعتقاد ہے کہ کنواری مریم ؑنے ایک بار اس پہاڑی یعنی کوہِ آتھوس پر کچھ عرصہ کے لئے قیام کیا تھا ۔اس لئے مریمؑ کے احترام میں انہوں نے اس علاقہ میں عورتوں کی آمد پر پابندی لگا رکھی ہے ۔پابندی صرف عورت ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس علاقہ میں کوئی مادہ جانور نہ لایا جاسکتا ہے اور نہ پالا جاسکتا ہے ۔اُن کا بس چلتا تو وہ اُڑنے والے پرندوں پر بھی اپنا بے تکا قانون لاگو کرتے مگر یہ دیوانے ہوا میں اُڑ نہیں پاتے ہیںاور اس طرح سے کوہِ آتھوس کا یہ علاقہ موجودہ دنیا کے لئے ایک عجوبہ بن کے رہ گیا ہے کیونکہ اس پہاڑ کی ،اس کے چاروں اطراف پھیلی ہوئی زمین اور اس ملک کے رہنے والوں کی ایک اپنی ہی تاریخ ہے،اپنا ہی طریقِ زندگی ہے اور زندگی کا ایک انوکھا انداز ِ فکر ہے ۔
دنیاکی اُلجھنوں اور ازدواجی زندگی سے بالکل بے نیاز ہوکر یہ عیسائی راہب اور دیگر عام انسان دن و رات اپنی خانقاہوں اور گھروں میں عبادت کرتے رہتے ہیں اور اکثر دودو سال تک اپنی خانقاہوں اور گھروں میں مراقبے میں ڈوبے رہتے ہیں ۔اگرچہ ضروریات زندگی کے لئے سادھن جُٹاتے رہتے ہیں مگر مجموعی طور عادات و اطوار راہبانہ ہی ہیں۔
جمہوری آتھو نایٹ کی سر حدیں ہر اُس مرد کے لئے ہر وقت کھلی رہتی ہے جو روح کا سکون چاہتا ہو اور جس کا دل دنیا سے اُکتا گیا ہو،مرنے سے قبل نجات پانے کا خواہش مند ہر مرد کو یہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔یہاں سب انسان ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔نجات نروان یاروحانی سکون اُن لوگوں کو مل جاتا ہے کہ نہیں، مگر یہ عجوبۂ روزگار دیوانے اس بات کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ اُن کا جنم بھی عورت کا ہی مرہونِ منت تھا ۔
ملک کی راجدھانی کا نام کریاس ہے جہاں بیس نمائندہ راہبوں کی ایک انتظامی مجلس ملک پر حکومت کرتی ہے ،ملک کی بعض خانقاہیں بے پناہ مال دار ہیں ۔اُن کی آمدنی اور دولت کا ذریعہ وہ عظیم جائدادیں ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔کچھ خانقاہیں البتہ غریب بھی ہیں ۔یہ وہ خانقاہیں ہیں جن کی املاک غریب ممالک میں ضبط ہوگئی ہیں ،اُن میں رہنے والے راہب کھیتی کرکے اور سمندر میں مچھلیوں کا شکار کرکے خانقاہ کے اخراجات چلاتے ہیں ۔یہ راہب خوب محنت کرتے ہیں اور کاریگر راہب مصنوعات بناتے ہیں جو یورپی ممالک میں فرخت کیلئے پہنچ جاتی ہیں۔
اب جمہوریہ آتھو نایٹ کی رونق دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے کیونکہ مرنے والوں کی جگہ مشکل سے پُر ہوتی ہے مگر وہاں کے ارباب اختیار مایوس نہیں ہیں کیونکہ ہپی ٹائپ لوگ ، تارک الدنیا چنڈو نوشوں ،افیم چیوں اور چرسیوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے اور خیال کیاجاتا ہے کہ بہت سارے دنیا سے بیزار ذہنی مریض وہاں آئے دن پہنچ رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ۔دنیا سے گھبرائے ہوئے ان قنوطی انسانوں کی آمد میں ہر سال کمی ہوتی جائے گی کیونکہ سارے یورپ میں آسان ،دلکش اور فطرت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی اسلامی تعلیم بڑے زوروں سے عام انسانوں کو اپنی طرف راغب کررہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ملک ویران ہوجائے گا ۔کوہ بھی ہوگا اور جزیرہ نما بھی رہے گامگر کھنڈروں میں بولنے والا کوئی جانور بھی نہ ہوگا ۔
اس ملک کا ایک درد ناک انجام اس لئے ہونے والا ہے کیونکہ وہاں چند سر پھرے آشفتہ خیالوں کا راج ہے ۔اُلٹی نہج پر سوچنے والے کچھ ہندوستانیوں کی طرحی یہ یونانی راہب بھی عورت ذات کو یکسر کالعدم قرار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ انسانی زندگی کا وجود ہی ایک عورت کے بغیر ناممکن ہے ،جس مریم ؑکے احترام میں ذہن سے کورے دیوانوں اور قانون قدرت کے باغیوں نے یہ سب کھڑاگ کھڑا کیا ہے اُن کو یہ تو سوچنا چاہئے تھا کہ مریم ؑ بھی تو آخر ایک عورت ہی تھی،ایک ماں تھی—————
کوہِ آتھوس کی چٹانیں اُداس اانکھوں ،مایوس نظروں سے ویرانی اور تنہائی سے گھبراکر ایک دن چیخ اُٹھیں گی کہ ہماری گود میں آباد یہ لہلہاتے کھیت ،پھلوں سے باغ اور یہ ہنستا مسکراتا چمن______خاک کے انباروں میں کیوں تبدیل ہوگیا ________کیوں؟ وجہ روز روشن کی طرح عیاں ہے _________کیونکہ وہاں عورت نہیں تھی ،عورت کا وجود نہیں تھا _____
عورت ——-جو کرۂ ارض پر گزشتہ اور آنے والے قوموں کی نقیب ہے ۔
عورت——-قدرت کی طرف سے مرد کے لئے بہت بڑا عطیہ ہے۔
عورت——-باغ آدم کا ایک حسین اور خوشبودار پھول ہے۔
عورت——-گھروں کی رونق اور خاندانوں کی بقا ہے۔
عورت——-ایک پاکیزہ اور فردوسی نور ہے ۔
عورت——جھیلوں کا سکوت اور مرگوں کا سکون ہے۔
عورت——گلستانوں کی مہک اور پھولوں کی رعنائی ہے ۔
عورت——جھرنوں کا ترنم اور ندیوں کی روانی ہے۔
عورت——-شبنم کا ایک فروزاں اور شفاف قطرہ ہے ۔
عورت ——-جب تک زندہ ہے محبت اور ہمدردی کا سر چشمہ ہے۔
عورت ——-پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں محترم ہے اور
عورت——-کے دم سے دنیا کی ساری رونقیں درخشاں و تاباں ہیں کیونکہ———–سب سے بڑھ کر عورت ——-ایک ماں ہے —–ماں—–دنیا کی بیشتر زبانوں کا ایک مشترک لفظ—-پُر کیف——-مسرو کن ——اور نغماتی ——عورت رانی ہو یا رنک—-غلام ہو یا آزاد——کُلٹا ہو یا پردہ نشین—–پھوہڑ ہو یا سلیقہ مند—-کمینہ ہو یا بااخلاق —–گوری ہو یا کالی——مگر اپنی اولاد کے لئے ہر صورت میں صرف ماں ہوتی ہے۔
ماں —–جس کے پائوں کے نیچے جنت ہے——کاش اس حکیمانہ فرمان ِنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھتے ؎
بنا دیتی ہے گھر کو رشکِ جنت یہ سلیقے سے
مکمل زندگی کی شان ہے عرفان ہے عورت
گوہرؔ عثمانی
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995