گزشتہ30؍برسوں کی پارلیمانی چنائوی تاریخ میں سرینگر ضمنی انتخابات کے لئے الیکشن کا دن بھارت کی جمہوریت کے لئے ایک سیاہ ترین دن ثابت ہوا جس میں 8 نوجوان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے اور ارض کشمیر کو ایک بار پھرنوجوانوں کے گرم گرم خون سے لال زار کر دیا گیا جبکہ30سال میں پہلی بار لوگوں نے انتخابات کی اعتباریت کو پارہ پارہ کر کے کشمیر کی سیاست پر تحریک مزاحمت کی رِٹ بحال کر دی ہے۔تازہ شرح رائے دہی وادی کی سبھی الحاق نواز پارٹیوں بشمول پی ڈی پی اورنیشنل کانفرنس کے لئے قابل تشویش ہی نہیں بلکہ اگریوں کہاجائے کہ یہ ان کی سیاست کے لئے بڑا دھچکہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اس حقیقت کا اعتراف ریاستی حکومت کے وزیر اور ترجمان نعیم اختر نے یہ کہہ کر کیا کہ’’الیکشن بائیکاٹ کے بجائے بڑے مارجن سے ہارنا ان کے لئے بہتر تھا ‘‘۔ ووٹنگ عمل کے دوران جس طرح فورسز نے خون کی ہولی کھیلی ،اس کی شاید ہی دنیا میں کہیں اور مثال ملتی ہو ۔اس خون آشام الیکشن عمل نے جہاں کشمیرکے زمینی حقائق سے پردہ اٹھایا وہیںیہ ثابت کردیا کہ کشمیری عوام بھارتی جمہوریت سے بہت بیزارہیںجو ا س بات کا برملا اعلان ہے کہ کشمیری عوام اقتداری سیاست سے اکتا چکے ہیں جب کہ سخت فوجی اور پولیس بندو بست کے سائے میں الیکشن کاانعقاد جمہوریت کی عین ضد ہے ۔
برناڈ شاہ نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’ جمہوریت گرم ہوا سے بھرے غبارے کی مانند ہے جسے بے وقوف لوگ اڑتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن مکار اور چالاک اپنی جیبیں پکڑ کر اس کے انتظار میں رہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح کی صورت حال کشمیر میں بہت پہلے سے ہو رہی ہے ۔ حاکمان ِدلی جموں وکشمیر میں انتخابات کے انعقاد کو عوامی ریفرنڈم کا متبادل سمجھ کر بین الاقوامی سطح پریہ دعویٰ کر تے ر ہے ہیں کہ مقامی لوگوں کو بھارت کی جمہوریت پر پورا یقین ہے جس کی پاسداری میں وہ الیکشن عمل میں حصہ لے کر مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے کے علاوہ بھارتی پارلیمنٹ کے لئے بھی اپنے اُمیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، حقیقت حال یہ ہے کہ عام لوگ انتخابات اورمقامی حکومتوں کو معرضِ وجود میں لانے کے عمل کو روز مرہ زندگی سے جڑے مسائل جیسے سڑک ،پانی اور بجلی کے حل کے لئے انتظامی مشنری فراہم کئے جانے سے کے طور پر لیتے رہے اور کبھی بھی ا لیکشن عمل کو سیاسی مستقبل طے کر نے میں تقدیر سازی سے تعبیر نہ کیا ۔ حقیقت یہ ہے کشمیری قوم پچھلے 70؍سال سے آزادانہ استصواب رائے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے اورکسی بھی طرح کا انتخابی عمل رائے شماری کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس سے تنازعہ کشمیر کے حل میں کوئی مدد مل سکتی ہے جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے 70؍سالہ تجربے سے یہی ثابت ہو اہے کہ بھارتی سیاست دان کشمیریوں کے د رد اور تکلیف کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ انسانیت ،جمہوریت اورکشمیریت پر ان کے دعوے صرف پارلیمنٹ تک ہی محدود ہیں۔ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس ،کانگریس،بی جے پی ،پی ڈی پی یا کل کوئی نئی پارٹی برسر اقتدار ہو لیکن کشمیریوں کے تقدیرکا ا سکرپٹ ہمیشہ نئی دلی میں ترتیب دیا جاتاہے اوریہاں کی منتخب مقامی حکومتیں اپنے لوگوں کے بجائے دلی میں بیٹھے آقائوں کے لئے زیادہ وفادارثابت ہوتی ہیں اوریہ مین سٹریم اورآدم خور سیاسی تاجر بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ دلی کی ایماء پر کام کرنے والے ملازم ہیں اور اپنے پیشے سے کسی بھی طرح کی بغاوت کے انجام سے واقفیت رکھتے ہیں۔سیلف رُول،اَٹونامی،ہیلنگ ٹچ،اَفسپا اور بجلی پروجیکٹوں کی واپسی یہاں کے عام لوگوں کو استحصال کرنے کے سیاسی دائو پیچ اور مکر وفریب ہیں ۔ تاہم کشمیر کی نئی نسل اس مکر وفریب کو سمجھ چکی ہے ،جس کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ چنائو کے دوران کیا۔موجودہ کشمیری نوجوان نسل، جو90 کی دہائی میں کشیدہ حالات کے دوران پیدا ہوئی ، بھارت کے ظلم وجبر اورماردھاڑکے سامنے کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے کے لئے بالکل ہی تیار نہیں ہے، تاہم یہاں جان بوجھ کرنوجوان نسل کے اس جائز جذبہ کو مختلف رنگت دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور سرینگرپارلیمانی نشست اُمیدوار کے ریمارکس کہ پی ڈی پی نے اقتدار کی ہوس میں نیشنل کانفرنس کے مضبوط قلعہ کو گرانے کے لئے پڑے لکھے نوجوانوں کو نوٹ دے کر سنگ بازی کے لئے اُکسایا،حقیقت سے بعید ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ مرکزی دھار ے میں شامل یہاں کے مین سٹریم سیاسی تاجر اپنے اقتدار کے حصول کے لئے امن وقانون کی صورتحال کے آئینے میں سیاسی حربوں اورپولیس و انتظامی مشینری کا استعمال عمل میں لاکر کشمیر میں قتل وغارت اورماردھاڑ کا سلسلہ شروع کر کے عوام کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھلواڑ کر کے انہیں مکرو فریب کے جھال میں پھا نستے آرہے ہیں اور عوام کو انہی سیاسی مفادات کے تناظر میں ملے دھوکہ کے ردعمل میں یہ اضافی ناراضگی سنگ بازی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔کشمیر کے سیاسی منظر نامے کا دوسرا پہلو مزاحمتی سیاست کے نقطہ نظر کے ارد گرد گردش کرتا ہے۔علیحدگی پسند سیاست کی وکالت نہ کرتے ہوئے اس بار بھی ان کی جانب سے معمول کے مطابق رسمی طور پر الیکشن بائیکاٹ کی کال سامنے آئی ، حالانکہ ماضی میں اُن کی جانب سے دی گئی بائیکاٹ کالوں کے باوجود لو گو ں نے بھاری رائے دہی ہوئی ۔اس بار در اصل انتخابات 2016ء ایجی ٹیشن کے فوراً بعد ہوئے او ر اس حقیقت سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں کہ برہان وانی کے جان بحق ہو نے کے بعد یہاں نہ صرف عوامی سطح پر ہند بیزاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ عسکریت کے تئیں لوگوں کی ہمدردیاں دوبارہ زندہ ہوگئی ہیں ، جب کہ آج کا نوجوان اپنے آپ کو جذباتی طور عسکریت پسندوں سے زیادہ ہم آہنگ پاتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں یہی عسکریت پسند اس کا رول ماڈل ہے نہ کہ مزاحمتی قائدین ۔یہ اسی والہانہ عقیدت کا نتیجہ ہے کہ آج کل مسلح تصادم آرائیوں کے مقام پر لوگ اُمڈ کر آتے ہیں اور محصور جنگجوئوں کو بچانے میں جان کی بازی لگا دیتے ہیں ۔اسی تسلسل نے حالیہ چنائو میں بائیکاٹ کو یقینی بنایاکیونکہ لوگ ایک با ر پھر مزاحمت کی جانب مائل ہوچکے ہیں اور اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ مزاحمت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے دلّی کے ایجنڈے کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔وجوہات کچھ بھی ہوں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب مزاحمتی جذبہ کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی مزاحمتی قیادت کے لئے یہ الیکشن نتائج ایک بہت بڑی فتح تھی، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فتح 10؍انسانی جانوں کے زیاں کے عوض ملی جو بہت بھاری قیمت ہے اور مہنگا سودا بھی ہے ۔
حالیہ ایام میں کشمیر کے سیاسی منظر عامہ پر برق رفتار سے ہوئیں تبدیلیاں جہاں اقتدار نوازوںکیلئے بالعموم اور دہلی کیلئے بالخصوص کسی چیلنج سے کم نہیں ہے کہ ان کے لئے احتساب کا وقت آچکا ہے، وہیں مزاحمتی قائدین کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ کر بیش قیمت قربانیوں سے مزین اس تحریک کو نئی سمت دینے کیلئے اختراعی ذہن سے کام لینا چاہئے۔ کیونکہ گزشتہ ستر برس سے قیادت کی ناکام سیاست اور سفارت کاری کی وجہ سے ہی کشمیری عوام بیش بہا قربانیوں کے باوجود بے لنگر جہاز کی طرح ساحل ِ مراد تک رسائی حاصل نہ کر پائے، حالانکہ کئی بار ہمیںایسے سنہری مواقع نصیب ہوئے لیکن ناکام سفارت کاری آڑے آئی کہ قوم جیتی ہوئی بازی ہار گئی ۔ الغرض کشمیر کے حوالے سے دلّی میں الیکشن کے بعد اُبھرتی ہوئی صورتحال پر غور وفکر چل رہا ہے اور کچھ حلقوں کی جانب سے یہ اشارے بھی دئے جار ہے ہیں کہ شاید مستقبل میں مزاحمتی قیادت سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی جائے گی ،جب کہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ بات چیت کے عمل کے ساتھ ساتھ دلی کی جانب سے زمینی سطح پر آہنی ہاتھوں سے نوجوان نسل کو دبانے کچلنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس ساری پیچیدہ صورت حال میں مزاحمتی قیادت کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ کس طرح طویل مدت کے بعد عوامی قربانیوں کی وجہ سے ملی اس اخلاقی فتح کو کنسالیڈیٹ کرکے تحریک کو ایک نئی سمت دے اور کس عنوان سے دلی اوراس کے مقامی حاشیہ برداروں کو کامیاب حکمت عملی سے زیر کریں گے ۔
نوٹ:مضمون نگار کشمیر عظمیٰ سے وابستہ ہیں۔
رابطہ :9797205576،[email protected]