عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
واشنگٹن//سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان ہونے والا پہلا مباحثہ کھٹائی میں پڑگیا۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کملا ہیرس کے ساتھ 10ستمبر کو ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے ۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مباحثے کیلئے طے شدہ ٹی وی چینل کو جانبدار قرار دیدیا ہے ۔ترجمان کملاہیرس کے مطابق کاملاہیرس کی جانب سے گفتگو کے دوران دوسرے فریق کا مائیک کھلا رکھنے پر زور ہے ، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مائیک کھلا رہنے سے عوام کو ٹرمپ کی اصلیت معلوم ہوسکے گی۔واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مباحثے کے دوران دوسرے فریق کا مائیک بند کرنے کی پابندی عائد تھی۔دوسری جانب امریکہ کے شہر شکاگو میں جاری ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن کے آخری روز کملا ہیرس نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نامزدگی کو باضابطہ طور پر قبول کر لیا۔اس موقع پر کملا ہیرس نے کہا کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کا اب وقت آگیا ہے اور انہوں نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت بھی کی۔نامزد صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے پارٹی کنونشن سے خطاب میں کہا کہ ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ساتھ دیا ہے اور بھرپور حمایت کی ہے ۔ادھرمیٹا کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے تقریبا تین برس بعد اعتراف کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے 2021 میں ‘فیس بک’ ویب سائٹ پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘کووڈ 19’ سے متعلق مواد کی نگرانی کرے ۔العربیہ کے مطابق زکربرگ نے اس دباؤ میں آنے پر ندامت کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں اس طرح کی کوششوں کو مسترد کر دیں گے ۔ زکربرگ کا یہ موقف امریکی ایوان نمائندگان میں جوڈیشری کمیٹی کے سربراہ جِم جارڈن کو بھیجے گئے ایک خط میں سامنے آیا۔جوڈیشری کمیٹی کی جانب سے ‘X’ پلیٹ فارم پر جاری خط میں زکر برگ نے خیال ظاہر کیا کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے دباؤ کا ڈالا جانا غلط تھا۔ انھوں نے کہا کہ “ہمیں افسوس ہے کہ اس حوالے سے ہم نے زیادہ سچ نہیں بولا”۔زکر برگ نے مزید کہا کہ “مجھے شدت سے احساس ہے کہ ہمیں کسی بھی انتظامیہ کی جانب دباؤ کے سبب اپنے مواد کے معیار پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے ، اگر اس طرح کوئی چیز دوبارہ ہوئی تو ہم رد عمل کے لیے تیار ہیں”۔اس سے قبل وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ‘کوویڈ 19’ کے بحران کے دوران میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ اس کی بات چیت کا مقصد ویکسین کی مہم کو فروغ دینا اور صحت عامہ کے حوالے سے دیگر امور کی آگاہی پھیلانا تھا۔امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ نے گذشتہ ماہ جولائی میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ‘فیس بک’ نے وائٹ ہاؤس کے دباؤ کے سبب کرونا وائرس کے مصنوعی “اصل” کے بارے میں پوسٹوں کو ہٹا دیا تھا۔