امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نئی افغان پالیسی کے ضمن میں بیاں پرانی شراب نئی بوتلوں میں ڈالنے کے متراوف ہے۔سیاسی مبصرین کی تقریباََ متفقہ رائے ہے کہ ٹرمپ کے اعلانیہ میں کوئی نئی بات نہیں بجز اِس کے کہ نئے امریکی صدر نے اپنی صدارتی مہم کے دوران اور وائٹ ہاوس میں اپنی صدارت کے ابتدائی مہینوں میں افغانستان سے ہاتھ کھنچنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ اپنے فیصلے پہ قائم نہیں رہ سکے ۔امریکہ کے پالیسی ساز ادارے صدر ٹرمپ کے ارادے کے آڑے آئے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اِن اداروں سے امریکہ کی افغانستان میں ناکامی ہضم نہیں ہوتی ۔ جب سے امریکہ نے افغانستان میں9/11کے بعد 2001ء میں براہ راست مداخلت کی تب سے آج تک امریکہ افغانستا ن میں اپنے احداف کی تکمیل نہیں کر سکا۔یہ صیح ہے کہ امریکہ نے طالباں کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اپنی مرضی کی سرکار کابل میں قائم کر لی لیکن کچھ ہی سالوں میں طالباں نے افغان صوبوں کو ایک ایک کر کے زیر کرنا شروع کیا اور آج ایک اندازے کے مطابق کم از کم 40فیصد افغان اراضی پہ طالباں قابض ہیں ۔
امریکہ کی افغان پالیسی کا اہم ترین جز پاکستان ہے چونکہ افغانستان جغرافیائی طور پہ زمینی قفل بندی کا شکار ہے۔سمندری ساحل سے محروم ہونے کی وجہ سے افغانستان میں کسی قسم کی فوجی مداخلت پاکستان کی رضایت کے بغیر ممکن نہیں چناچہ جب 9/11کے بعد 2001ء میںامریکہ نے فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا تو پاکستان سے راہداری کا تقاضا ہوا۔دنیا کا تک و تنہا سپر پاور ہونے کے نشے میں چور امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے پاکستان سے اجازت نہیں چاہی بلکہ پاکستانی صدر مشرف سے یہ کہا گیا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو ہمارے خلاف ہیں۔دھمکی آمیز لہجے نے پاکستان کو مجبور کیا کہ امریکہ کو راہداری دے کر اُس حکومت کا خاتمہ کرنے دیں جو پاکستان کی حمایتی مانی جاتی تھی۔سچ تو یہ کہ1947ء میں پاکستان بننے کے بعد مغربی سرحد پہ پاکستان کو سکوں کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ایک کے بعد ایک افغان حکومت نے پختون مسلے کو لے کے پاکستان کے تئیں سخت لہجہ اپنایا۔یہ صورت حال تب تک قائم رہی جب تک کہ سوؤیت یونین نے1979ء میں افغانستان پہ حملہ کیااور پاکستان اِس حملے کو روکنے کیلئے فرنٹ لائن سٹیٹ بنا ۔سوؤیت یونین نے جب پسپائی اختیار کی تو جو بھی حکومتیں کابل میں طالباں کے دور حکومت تک بر سر اقتدار آئیں اُن کا رویہ پاکستان سے دوستانہ رہا لیکن امریکی حامی حکومت جب سے بر سر اقتدار آئی چاہے وہ حامد کرزائی کی حکومت تھی یا اشرف غنی کی اُن کا رویہ پاکستان سے دشمنی کا رہا صرفنظر از اینکہ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجر سکونت پذیر ہیں۔پاکستان سے دشمنی بھارت سے دوستی پہ منتج ہوئی جس سے پاکستان نہ صرف بھارت کے ساتھ اپنی مشرقی سرحد پر دباؤ میں رہا بلکہ افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر بھی دباؤ بنا رہا۔ یہ سب ایک ایسے دور میں ہوا جبکہ پاکستان کو امریکہ نے اپنا نان نیٹو الئی یعنی ساتھی مانتا رہا۔
پاکستان نہ صرف اپنی سرحدوں پہ دباؤ میں رہا بلکہ داخلی محاز پر بھی شدت پسند تنظیمیں مزاحم رہیں۔ یہ شدت پسند تنظیمیں نہ صرف افغانستان سے جڑی سرحد پہ پاکستان کیلئے پریشانی کا سبب بنیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی جنگجو تنظیموں کا عمل دخل رہا۔ شدت پسند تنظیموں میں تحریک طالباں پیش پیش تھی اور فاٹا اور وزیرستان میں پاکستان کوضرب عضب کے عنواں سے ایک لمبی جنگ لڑنی پڑی تب کہیں پاکستان کو نسبتاََ سکوں کا سانس میسر ہوا البتہ پاکستان میں ابھی ملٹنسی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اب ایک نئے منصوبے کے تحت رد الفساد کے نام سے ایک اور فوجی مہم شروع ہوئی ہے جو ابھی جاری ہے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعہ سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو یہ الزام دے رہیں ہیں کہ اُن سے بر سر پیکار جنگجو تنظیموں کو وہ اپنے ممالک میں پنا ہ دے رہیں ہیں۔افغانستان کا دعوہ ہے کہ افغان طالباں او حقانی گروپ کہ پناہ گاہیں پاکستان کے اندر ہیں جبکہ پاکستان کا دعوہ ہے کہ تحریک طالباں پاکستان اور جمعیت احرار کے دستے مشرقی افغانستان میں پناہ لیتے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف اِن الزامات میں بھارت بھی اُلجھاہوا ہے۔افغانستان کی مانند بھارت بھی الزام دے رہا ہے کہ کشمیری جنگجو تنظیموں کی پشت پہ پاکستان ہے جبکہ پاکستان کا دعوہ ہے کہ بھارتی اور افغانی انٹیلی جنس ایجنسیاں مل کے پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو مدد دے رہی ہیں۔
علاقائی ممالک کی اِس الزام ترا شی میں کسی میں یہ احساس اجاگر نہیں ہوتا کہ اُن کے اِس باہمی چقلش کا فائدہ امریکہ کو مل رہا ہے جو اُن کے بیچوں بیچ ایک ریفری کی مانند کبھی ایک ملک کی طرفداری کرتا ہے اور کبھی دوسرے ملک کی کبھی ایک کو مورد الزام قرار دیتا ہے اور کبھی دوسر ے کو اگر چہ دن بدن یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ آجکل سارا امریکی نزلہ پاکستان پہ گر رہا ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ افغان طالباں اور حقانی گروپ کے پاکستان میں ٹھکانے ہیں اور یہ ایسی جنگجو تنظیمیں ہیں جو کہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں لہذا امریکہ پاکستان پہ دباؤ بڑھا رہا ہے کہ اِن تنظیموں کے خلاف وہ امریکہ کا ہمرکاب رہے۔امریکہ کا یہ کلمہ کہ ’ڈو مور‘ یعنی جتنا کر رہے ہو اُس سے زیادہ کرو اب سنجیدگی کی حدوں سے بڑھ کر مذاق بنتا جا رہاہے!’ڈو مور‘ ایک رٹ بنتی جا رہی ہے حالانکہ بیچ بیچ میں کبھی کبھی یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ پاکستان جنگجو تنظیموں کے خلاف عمل پیرا ہے لیکن پھر ’ڈو مور‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔کچھ عالمی مبصروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ افغان رژیم کے خصومت آمیز رویے نے پاکستان کیلئے سفارتی،سیاسی و فوجی دائرے میں مشکلات کھڑی کر رکھیں ہیں ثانیاََ افغانستان نے بھارت کو سفارتی میدان میں کافی سہولیات فراہم کر رکھی ہیں اور بھارت سرمایہ کاری سے افغانستان میں اپنی لئے زمین ہموار کر رہا ہے جو پاکستان کو بالکل گوارا نہیں۔بھارت کی اِن کوششوں کو پاکستان کے دونوں محازوں یعنی مشرقی اور مغربی محاز پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں سے تعبیر دی جا رہی ہے ۔اِس صورت حال میں افغان طالباں کو پاکستا ن کیلئے ایک سفارتی سرمایہ مانا جاتا ہے ایک ایسا ذخیرہ جو پاکستان کے قدم افغانستان میں جمائے ہوئے ہے۔امریکہ کے تھینک ٹینک یعنی پالیسی ساز انجمنیں جن کا امریکی پالیسی بنانے میں خاصہ ہاتھ رہتا ہے یہی سوچ لئے ہوئے ہیں کہ افغان طالباں پاکستان کیلئے سفارتی سرمایہ ہے۔امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان طالباں کو ایک تو ڈائیلاگ ٹیبل پہ لائیں ثانیاََ طالباں سے امریکی شرطیں بھی منوائے۔پاکستان پہلا مرحلہ طے کرنے کیلئے راضی ہے اور کچھ سال پہلے طالباں ڈائیلاگ کے لئے آمادہ بھی ہوئے اور اِس ضمن میں قطر میں طالباں نے ایک دفتر بھی کھولا لیکن پاکستانی سفارتی حلقوں کا یہ مانناہے کہ وہ طالباں سے امریکی شرطیں منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ یہ طالباں کا اپنا فیصلہ ہو گا کہ وہ کس حد تک مراعات دینے پہ راضی ہو جائیں۔
افغان طالباں کا جو مطالبہ منظر عام پہ ہے وہ خارجی افواج کے مکمل انخلا پہ ہے اور چونکہ وہ کم و بیش نصف افغانستان پہ حاوی ہیں لہذا کسی قسم کی مراعات دینے پہ راضی نظر نہیں آتے۔اِس صورت حال میں امریکہ کی حکمت عملی یہی نظر آتی ہے کہ طالباں کو اِس حد تک کمزور کیا جائے کہ وہ امریکی ڈکٹیشن کو بے چوں و چرا مان لے ۔ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی صدارتی مہم کے دوران اوروائٹ ہاوس میں سکونت و حکومت کے ابتدئی ایام میں رول بیک کا عندیہ دیا ہے لیکن اب کئی عالمی مبصرین کا یہی ماننا ہے کہ ٹرمپ نے فوجی کاروائی کو سفارتی مہم پہ ترجیح دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغان فوجیوں کی تعداد میں 3,900فوجیوں کے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے کی مانند امریکی واپسی کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے بلکہ ایسا کہا گیا ہے کہ یہ حالات پہ منحصر ہو گا۔عالمی مبصرین کا یہ بھی مانناہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ میں سفارتی عملے کی سنی ان سنی کی گئی ہے اور وزارت دفاع کے جرنیل ٹرمپ کے فیصلے پہ حاوی ہو گئے ۔اِس کے ساتھ ساتھ ’ڈو مور‘ کی گونج میں پاکستان پہ دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔اِس صورت حال میں پاکستان کیا رویہ اپنائے گا اور امریکی خصومت کے مد مقابل پاکستان کی حکمت عملی کیا ہو گی اِس بارے میں کچھ کچھ تو منظر عام پہ آ رہا ہے اور قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں۔
امریکہ نے جب 2001ء میں 9/11کے بعد براہ راست افغانستان پہ فوج کش کی تو پاکستان کو راہداری دینے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا۔سوؤیت یونین کے بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کا تک و تنہا سپر پاور بن گیا۔جہاں 1979ء میں جب سوؤیت یونین نے افغانستان پہ حملہ کیا پاکستان نے تن و من سے امریکہ کے احداف کا ساتھ دیا وہی9/11کے بعدپاکستان ساتھ دینے پہ مجبور ہوا اور اِس حقیقت کے باوجود امریکہ کو راہداری دی گئی کہ افغان طالباں نے مشرقی سرحد پہ پاکستان کو سکوں کا سانس بخشا تھا ۔پہلی دفعہ پاکستان کو دفاعی گہرائی میسر ہوئی تھی۔امریکہ کا ساتھ دینا ہر گذرتے دن کے ساتھ پاکستان کے لئے وبال جان بن گیا۔پاکستان داخلی محاز پر بھی شدت پسند تنظیموں سے بر سر پیکار ہوا اور اُس کے مشرقی و مغربی محاز پر بھی دباؤ بنا رہا۔پاکستان کی اِس خستہ حالت سے امریکہ کے خلاف منافرت بڑھتی گئی ۔امریکی ڈرون حملوں کو پاکستانی حکومت اور عوام مداخلت مانتے رہے لیکن بے بسی کی حالت میں تدارک ممکن نہ ہو سکا۔اِسی دوراں عالمی سیاست میں بدلاؤ کی کیفیت بنتی گئی۔چین کی بے پناہ ترقی نے عالمی سیاسی،سفارتی اور تجارتی دائرے میں چین کے لئے میدان کھول دیا اور پاکستان چین کے عالمی منصوبوں میں اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اہمیت اختیار کرتا گیا۔بقول ایک امریکی مبصر امریکائی ملینوں کا موازنہ چین کے بلینوں سے ہونے لگا۔پاکستان کے اقتصاد کو جس سہارے کی تلاش تھی وہ میسر ہوا۔جہاں امریکائی قرضہ احسان جتا کے دیتے تھے وہی چین نے اپنی غرض کو نہ ہی چھپانے کی کوشش کی نہ ہی احسان جتایا۔دیکھا جائے تو امریکہ کی بھی اپنی غرض تھی ۔اُنہیں افغانستان میں اپنے قدم جمانے کیلئے راہداری کی تلاش تھی جہاں پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع کام آیا لیکن پھر بھی احسان جتانے میں کمی نہیں آئی بلکہ امریکہ اپنی مانگوں میںاِس حد تک آگے بڑھ گیا کہ پاکستانی ملکی سلامتی داؤ پہ لگ گیا۔ جو کمی رہ گئی تھی وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز رویے نے پوری کی۔ اب پاکستان کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کا مرحلہ آگیا ہے۔ہمسائیگی میں چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو روسی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے اور پاکستان خفگی کی حالت سے باہر نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔جہاں امریکہ اور اُس کی کابل میں پالی ہوئی سرکار افغان طالباں کو دشمن مانتے ہیں وہی روس و ایران طالباں کو داعش کی روک تھام کا موثر ذریعہ مانتے ہیں۔افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اقدامات روس و ایرا ن جیسے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔روس افغان طالباں کو شدت پسند تنظیم کے بجائے ایک قوم پرست تنظیم ماننے لگا ہے اور حال ہی میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ طالباں کے تئیں ایران کا رویہ دوستانہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ داعش ایران کیلئے جہاں مشرق وسطی میں وبال جان ہے ویسی ہی صورت حال افغانستان میں بھی بن سکتی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے پاکستان کے تئیں تنقید آمیز بیاں کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے سفارتی توازن بر قرار رکھنے کی کوشش کی جہاں بھارت سے یہ کہا گیا کہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ ڈائیلاگ میں انگیج یعنی بندھا رہے۔یہ دو طرفہ بات کشمیر کے ضمن میں کہی گئی اِس اصرار کے ساتھ کہ کشمیر کے ضمن میں امریکی سٹینڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔امریکی وزارت خارجہ کے اِس بیاں کے بعدوزیر خارجہ ٹیلرسن کا پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف سے امریکہ میں ملاقات کا عندیہ بھی دیا گیا لیکن خواجہ آصف نے امریکہ جانے کے بجائے چین،روس اور ترکی کا دورہ کرنے کی ٹھانی جس سے پاکستانی خارجہ پالیسی کا بدلتا ہوا رخ مانا جا رہا ہے ۔اِس بدلتے ہوئے رخ کی ایک اور دلیل تب سامنے آئی جب امریکی اسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ( نائب وزیر خارجہ) ایلس ویلز کا دورہ پاکستان کا دورہ مناسب وقت ملنے پہ ٹال دیا گیا۔
افغانستان کے مسلے میں امریکہ بری طرح اُلجھا ہوا ہے۔ افغانستان کو اپنی افواج کے ذریعے زیر کرنے میں نا کامی کے بعدوہ پاکستانی رہبراں کے بقول اپنی نا کامی کا ملبہ پاکستان میں ڈال رہا ہے ثانیاََ امریکہ اور بھارت ہر گذرتے دن کے ساتھ قریب تر آ رہے ہیں اور سفارتی و فوجی اشتراک میں اضافہ ہو رہا ہے ثالثاََ چین جس سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اور جس انداز سے وہ سی پیک کے وسیلے عالمی صحنہ پہ اپنی تجارتی چھاپ کو وسیع تر کرنا چاہتا ہے اُس نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔امریکہ پاکستان کا بدلتا ہوا رخ دیکھ رہا ہے اور جہاں وہ دن بدان بھارت سے بندھا جا رہا ہے وہی پاکستان کو پوری طرح کھونا نہیں چاہتا۔اِسی بیچ یہ بات بھی سامنے آ رہی کہ کشمیر کا مسلہ کابل سے بندھا ہوا ہے اور افغانستان میں تب تک مکمل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ مسلہ کشمیر حل نہ ہو جائے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ نے جو دو طرفانہ بات چیت کا مشورہ بھارت و پاکستان کو دیا ہے اُس میں امریکی سفارتی کوششوں کا کس حد تک عمل دخل رہے گا۔اِس بات کا انحصار اِس پہ رہے گا کہ امریکہ کس حد تک بھارت و پاکستان کے مابین سفارتی توازن بر قرار رکھنے میں کامیاب ہو گا۔پاکستان کو منانے اور بھارت کو سہلانے میں امریکی ڈپلومیسی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ ماضی کی مانند عالمی صحنہ پہ اب امریکہ ہی امریکہ نہیں ہے بلکہ چین اور روس کی بات بھی بھر پور انداز سے سامنے آ رہے ہیں جس کا اندازہ تب ہوا جس ٹرمپ کے پاکستان پہ برسنے کے بعد چین و روس پاکستان کی حمایت میں سامنے آئے۔زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ جہاں عالمی صحنہ پہ عیاں ہیں وہی اُن کا سایہ کشمیر پہ بھی پڑ رہا ہے۔
Feedback on: [email protected]