’’دی اکنامسٹ ‘‘کے حالیہ شمارے کا ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ اب تک مغربی دنیا چین کو اُبھرتی ہوئی طاقت یا Rising China کہہ رہی تھی، مگر’’ اکنامسٹ ‘‘نے پہلی بار چین کو ’’سپر پاور‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ مغربی ذہن جب بھی اپنے حریف کی طاقت کو بڑھاکر بیان کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے حریف پر ممکنہ حملوں کے لیے جواز تراش رہا ہے اور رائے عامہ ہموار کررہا ہے۔’’دی اکنامسٹ‘‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ امریکہ کے نائب صدر مائک پینس نے چین کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف اْن کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اس سلسلے میں امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی میں چین کی مذمت کا مقابلہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ پینٹاگون اور سی آئی اے بھی وہی کہہ رہے ہیں جو سیاست دان کہہ رہے ہیں، اور امریکہ اس مسئلے پر ہم آواز ہوچکا ہے کہ چین امریکہ کا ’’نظریاتی‘‘ اور ’’تزویراتی حریف‘‘ ہے۔’’ دی اکنامسٹ ‘‘کے اداریہ نویس نے چین کو امریکہ یا مغرب کا ’’نظریاتی حریف‘‘ قرار دیا ہے تو ایسا بلاسبب نہیں ہے۔ مغرب نے سوویت یونین یا سوشلزم کے خلاف جنگ جیتی تو ’’نظریاتی علم‘‘ اور ’’نظریاتی جوش اور ولولے‘‘ کی بنیاد پر۔ مغرب مجبور ہوا تو وہ چین کے خلاف بھی ’’نظریاتی فرق‘‘ کو آواز دے گا اور اپنے لوگوں میں ’’نظریاتی جوش اور ولولہ‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، تاکہ اس کے لیے چین کے خلاف ایک موثر جنگ لڑنا ممکن ہوسکے۔ کمال ہے کہ نظریاتی جنگ لڑنے کی بات مغرب کا غیر نظریاتی ذہن تو خوب سمجھتا ہے مگر مسلم دنیا کا نظریاتی ذہن نظریاتی کشمکش برپا کرنے اور نظریاتی جنگ لڑنے کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کو چین سے کس بات کا خوف لاحق ہے؟ اس سوال کا جواب دی اکنامسٹ کے اداریے اور’’ اکنامسٹ ‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں موجود ہے۔ اکنامسٹ اپنے اداریے میں لکھتا ہے:’’امریکہ کا خوف یہ ہے کہ وقت چین کے ساتھ ہے۔ چین کی معیشت امریکہ کی معیشت سے دوگنی رفتار سے وسعت اختیار کررہی ہے۔ چین کی حکومت مصنوعی ذہانت، Quantum computing اور بایوٹیک جیسی ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہے، امریکہ سمجھتا ہے کہ آج چین کا راستہ China South سمندرمیں روکا جاسکتا ہے مگر کل یہ کام ناممکن ہوگا‘‘۔(دی اکنامسٹ۔ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2018ء صفحہ 13)
یہ امریکہ کے خوف کی پوری تفصیل نہیں۔ ’’دی اکنامسٹ ‘‘نے اپنے زیر بحث شمارے میں چین کے حوالے سے جو مضمون شائع کیا ہے ،اُس میں امریکہ یا مغرب کے خوف کے دو مزید پہلو سامنے آتے ہیں۔ اکنامسٹ لکھتا ہے:’’چین کی بحریہ کے پاس زمین سے فضا اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایسے میزائل ہیں جو امریکہ کے پاس موجود میزائلوں سے زیادہ جدید بھی ہیں اور ان کی تعداد بھی چین کے پاس زیادہ ہے۔‘‘ (صفحہ25)’’دی اکنامسٹ ‘‘مزید لکھتا ہے:’’چین کے فوجی اخراجات زیادہ نہیں مگر ان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) اتنی بڑھ گئی ہے کہ چین زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدنے کی صلاحیت کا حامل ہوچکا ہے۔ تزویراتی مطالعے کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین نے 2014ء سے اب تک جتنے ٹن کے بحری جنگی جہاز سمندر میں اْتارے ہیں وہ ٹنوں یعنی وزن کے اعتبار سے فرانس، جرمنی، بھارت، اٹلی، جنوبی کوریا، اسپین اور تائیوان کی بحریہ کی جانب سے اتارے گئے جنگی جہازوں کے مجموعی وزن سے زیادہ ہیں۔‘‘ (صفحہ25)
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اب تک اس بات کا اطمینان تھا کہ چین کی معاشی طاقت تو بڑھ گئی ہے مگر اس کی عسکری طاقت بہرحال امریکہ سے بہت کم ہے اور یہ ایک درست تجزیہ تھا، مگر اکنامسٹ کے مضمون کے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے ظاہر ہورہا ہے کہ جس طرح مغرب چین کے بارے میں کئی غلط اندازے قائم کرتا رہا ہے اور اپنی ذہانت اور علم کو مذاق بنا چکا ہے، اسی طرح فوجی طاقت کے دائرے میں بھی مغرب کی خام خیالی دور ہونے لگی ہے اور مغرب کو معلوم ہورہا ہے کہ چین بہت تیزی کے ساتھ فوجی دائرے میں بھی طاقت ور ہوتا چلا جارہا ہے۔ مغرب کے اس خوف نے امریکہ کو مجبور کردیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی ترقی کے حوالے سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کردے اور اعلان کرے کہ امریکہ اب جدید ترین ایٹمی ہتھیار بنائے گا۔ مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے گزشتہ دو سو سال میں صرف اپنی عسکری طاقت اور سازش کی صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے درجنوں اقوام کو اپنا غلام بنایا۔ عسکری قوت کے ذریعے ہی امریکہ اور اس کے نام نہاد مغربی اتحادی عالمی نظام چلا رہے ہیں، اور اب امریکہ سوچ رہا ہے کہ چین کو ڈرانا اور اپنا ماتحت بنانا ہے تو ایسے نئے ہولناک ایٹمی ہتھیار تیار کرو کہ چین امریکہ کا مقابلہ ہی نہ کرسکے اور اس کے آگے ڈھیر ہوجائے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جانب مغرب مقابلے اور مسابقے کو صنعتی نظام اور جدید معیشت کی بنیاد قرار دیتا ہے مگر دوسری جانب وہ چاہتا ہے کہ چین اس کا مقابلہ نہ کرے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی منافقت اور شیطنت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ چین نے 2015ء میں China in Made کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ 2025ء تک چین میں ہر شئے مقامی طور پر ساخت کی ہوئی ہو، یعنی میڈان چائنا ہو۔ چین کے اس پروگرام کے بارے میں’’ اکنامسٹ لکھتا ہے‘‘ کہ یہ بات امریکہ کو خوش کرنے والی نہیں ہے اور دنیا کو چین کے اس پروگرام پر تشویش ہے۔ (صفحہ 26) لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا چین خودانحصاری حاصل نہ کرے؟ کیا وہ ہمیشہ مغرب کا محتاج رہے؟ کیا امریکہ اور یورپ کو کسی نے ہر چیز خود تیار کرنے سے روکا ہے؟ کیا یہی ہے مغرب کا آزادانہ مقابلہ؟ اور آزادانہ مسابقت؟ مغرب کی خباثت کا اندازہ کرنا ہو تو’’ دی اکنامسٹ ‘‘ کے مضمون کا مطالعہ کیجیے اور ذرا غور تو فرمائیے اہل مغرب چین کے بارے میں کیا فرمارہے ہیں۔ ایک بات وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ چین کی قومی سلامتی سے متعلق اسٹیبلشمنٹ دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور چین کے مقابلے کے حوالے سے بڑی پُرجوش ہے کیونکہ چین اس مقابلے کا ایک مرکزی کردار ہے۔ دوسری بات اہل ِمغرب یہ کہہ رہے ہیں کہ چین کی قیادت یا سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے مہنگے مقابلے کے لیے تیار ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ چین کی معیشت مضبوط ہے اور وہ ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ کا بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتی ہے۔ اہل ِمغرب کو اس بات پر ’’حیرت‘‘ ہے کہ محض ایک نسل پہلے چینی کہا کرتے تھے چین کا ابھار پُرامن ہوگا۔ اب آئیے ان باتوں کا نکتہ بہ نکتہ تجزیہ کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر چین کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ مقابلے سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ وہ اس مقابلے کے حوالے سے پْرجوش ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ کیا اس سے چین کی شخصیت کا کوئی ’’شیطانی پہلو‘‘ سامنے آرہا ہے؟ اس بات میں اگر کوئی شیطانی پہلو ہے تو یہ کہ اہلِ مغرب چین کو مقابلے کے لیے تیار اور پُرجوش دیکھ کر بدمزہ ہورہے ہیں۔ اصل اہل ِمغرب اس بات کے عادی ہیں کہ وہ کسی کو ڈرائیں گے تو وہ ڈر کر دبک جائے گا مگر چین چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مقابلے سے ڈر نہیں رہا تو اہل مغرب اس بات کا ذکر اس طرح کررہے ہیں جیسے یہ چین کا کوئی بہت بڑا عیب یا بہت بڑا جرم ہو۔ یہ ایسی بات ہے کہ اس پر پوری مغربی دنیا کو شرم سے کہیں ڈوب مرنا چاہیے۔
اہلِ مغرب نے چین کا دوسرا بڑا عیب یا دوسرا بڑا جرم یہ بتایا ہے کہ چین کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ، دوڑنے کے لیے تیار ہے کیونکہ چین کو اپنی مضبوط معیشت پر بھروسا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ 70سال سے اپنی مضبوط معیشت پر بھروسا کرکے پوری دنیا کو ہتھیاروں کی دوڑ میں مبتلا نہیں کیے ہوئے؟ اور کیا امریکہ نے سوویت یونین کو ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل کرکے اور اسے افغانستان میں پھنسا کر معاشی طور پر کمزور نہیں کیا؟ اور کیا مغربی دنیا بھارت کو مضبوط معیشت بناکر اور مسلح کرکے پاکستان کی معیشت اور سلامتی کے نظام پر دبائو نہیں بڑھا رہی؟ چنانچہ چین اگر اپنی معیشت کی مضبوطی پر نازاں ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ مہنگے ہتھیاروں کا کھیل کھیل سکتا ہے تو مغرب کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ یہاں بھی پوری مغربی دنیا کہیں جاکر شرم سے ڈوب مرے تو اچھا ہو۔
اہل مغرب نے چین پر تیسرا بڑا حملہ یہ کہہ کر کیا ہے کہ ایک نسل پہلے چینی کہا کرتے تھے کہ ہمارا معاشی عروج پُرامن ہوگا، تو کیا چین نے نیویارک، لندن اور پیرس میں ایٹم بم دے مارے ہیں؟ کیا اس نے امریکہ اور یورپ کو کسی سازش کے ذریعے معاشی طور پر مفلوج کردیا ہے؟ کیا چین نے امریکہ اور یورپ کے سارے کارخانوں پر تالے ڈلوا دیئے ہیں؟ کیا چین نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر قبضے کی دھمکی دے دی ہے؟ چین نے ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا ہے تو پھر اہلِ مغرب کو چین کا ابھار پُرامن کیوں نظر نہیں آرہا؟ تاریخ کا ٹھوس تجربہ بتاتا ہے کہ تمام یورپی طاقتوں کا عروج بہیمانہ، سفاکانہ، جنگ زدہ اور انسانیت سوز تھا، اس لیے کہ یورپ کی تمام اقوام 19؍ویں صدی میں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور پوری دنیا بالخصوص مسلم دنیا پر قابض ہوگئیں۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ عالمی طاقت بن کر اُبھرا تو اس کا عروج یا ابھار بھی خون آشام تھا۔ جاپانی افواج امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرچکی تھیں۔ امریکہ کو یہ بات معلوم ہوگئی تھی، اس لیے کہ اُس نے جاپانی فوج کے خفیہ پیغامات پکڑ کر ڈی کوڈ کرلیے تھے مگر اس کے باوجود بھی امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو مار ڈالا۔ بعد ازاں امریکہ نے مارشل پلان کے ذریعے کمزور اقوام کی آزادی اور ضمیر خریدا۔ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کے ذریعے اس نے آزاد دنیا کو اپنا غلام بنایا۔ بعد ازاں اس نے مختلف ممالک میں حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور جنگیں ایجاد کرنے کی سیاست کو فروغ دیا۔ برطانیہ نے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران لاکھوں مسلمانوں اور ہندوئوں کو ہلاک کیا۔ الجزائر کی جنگ آزادی میں فرانس نے 10لاکھ الجزائری باشندوں کو قتل کر ڈالا۔ اپنی بالادستی کے اظہار کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر پابندیاں لگائیں اور دس برسوں میں پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ عراقیوں کو غذا اور دوائوں کی قلت کا شکار کرکے ہلاک کردیا۔ عراق پر نائن الیون کے بعد جارحیت کرکے امریکہ نے عراق میں پانچ ابتدائی برسوں میں چھے لاکھ عراقی مار ڈالے۔ جان ہوپکنز یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک لاکھ لوگ جنگ اور مزید پانچ لاکھ لوگ جنگ کے اثرات اور مضمرات کی نذر ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ چین نے ان میں سے کون سا جرم کر ڈالا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ چین عالمی طاقت بن کر وہی کرے جو امریکہ اور یورپ نے کیا ہے، مگر ابھی تک چین کے دامن پر اُن داغوں میں سے ایک داغ بھی نہیں ہے جو مغرب کے اجتماعی دامن پر لگے ہوئے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ’’ دی اکنامسٹ ‘]ایک جانب یہ بھی نہیں چاہتا کہ چین امریکہ کی ٹکر کی طاقت بنے۔ دوسری طرف اسے یہ بھی معلوم ہے کہ چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ تیسری جانب’’ اکنامسٹ ‘‘نے اپنے زیر بحث شمارے کے اداریے میں یہ لکھنا ضروری سمجھا ہے کہ اگر چین ابھر رہا ہے تو ہمیں اسے ابھرنے کا موقع دینا چاہیے، اور اگر وہ دنیا میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرتا ہے تو ہمیں ایسا کرنے دینا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مغرب چین سے حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہیں۔ ان کا خوف اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ چین سے لڑنا بھی چاہتے ہیں مگر اس کی معاشی اور عسکری طاقت دیکھ کر انہیں خیال آرہا ہے کہ چین پر قابو پانا آسان نہیں۔ چنانچہ چین ابھررہا ہے تو ابھرنے دو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین نے سرد جنگ کے آغاز ہی میں مغرب کو نفسیاتی شکست سے دوچار کردیا ہے۔ کوئی طاقت اگر اپنے دشمن کو کبھی ’’تُو‘‘ کہے اور کبھی ’’آپ جناب‘‘ کرنے لگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حریف کے گہرے خوف میں مبتلا ہے… اور خوف زدہ فرد ہو یا قوم، ملت ہو یا اُمت، کلچر ہو یا تہذیب… وہ جنگ لڑنے اور فتح یاب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور چین کی کشمکش میں چین اور روس تزویراتی اتحادی بن کر سامنے آتے ہیں یا نہیں؟ دیکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ چین اور روس کے اتحاد کے بعد بھارت کیا کرتا ہے؟ وہ امریکہ کی گود میں بیٹھتا رہتا ہے، یا چین اور روس کے اتحاد کی طرف آتا ہے؟ بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ہم جنس پرستی اور زنا بالرضا کو سینے سے لگایا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں یہ پیغام چھپا ہے کہ بھارت خود کو امریکہ اور یورپ کا فطری اتحادی باور کرا رہا ہے، مگر دوسری جانب بھارت نے روس کے صدر پیوٹن کے دورۂ بھارت کے موقع پر روس کے ساتھ 15؍ارب ڈالر کے دفاعی و غیر دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ ان معاہدوں کے ذریعے بھارت یہ اعلان کررہا ہے کہ اسے امریکہ کا آلۂ کار نہ سمجھا جائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح اہل مغرب چین کے ساتھ محاذ آرائی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں، اسی طرح بھارت بھی امریکہ سرپرستی کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا ہے۔ اس کے معانی یہ بھی ہوئے کہ بھارت نے چین اور روس کے ممکنہ کیمپ میں جانے کا راستہ مکمل طور پر بند نہیں کیا۔
امریکہ اور چین کی کشمکش کا لبرل ازم اور مسلمانوں کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ امریکہ اور چین کی کشمکش آگے بڑھے گی اور سرد جنگ طول پکڑے گی، تو مسلم دنیا کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس کشمکش میں کہاں کھڑی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر امریکہ اور چین کی محاذ آرائی میں امریکہ کو شکست ہوگئی تو مغرب کا لبرل ازم جو پہلے ہی بحران سے دوچار ہے، اپنی موت آپ مرجائے گا، اور جس طرح کمیونزم کا کوئی رونے والا نہیں تھا ،اسی طرح لبرل ازم کا بھی کوئی رونے والا نہیں ہوگا۔ البتہ امریکہ پر چین کی فتح بھی سرمائے کی فتح ہوگی اور دولت پرستی اسی طرح دنیا کا مذہب بنی رہے گی جس طرح مغرب کے زیرِ اثر آج دنیا کا مذہب بنی ہوئی ہے۔ ایسی دنیا جس کا مرکز خدانخواستہ دولت ہو، مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے، اور آئندہ بھی ناقابل قبول ہوگی۔
(ختم شد)