مئی۲۰۱۴ء میں جب دہلی میں مودی حکومت آگئی اُس کے فوراً بعدمعاصراخباروں میں مقتدر صحافیوں کے مضامین تواتر سے شائع ہونے لگے جن میں مودی جی کوحکومت کرنے کے طور طریقے سمجھائے جاتے تھے۔ظاہر ہے کہ وہ صحافی یا تو آر ایس ایس لابی کے تھے یا مودی کی جادوئی جیت سے حد درجہ متاثر تھے۔اُنہیں پتہ تھا کہ مودی جی اس کے اہل نہیں ہیںلیکن اُن (مودی) کا ہندتوا چہرہ اُنہیں قریب کرتا تھا ۔آج ساڑھے تین برس بعد پھر سے اُسی طرح کے مضامین اخباروں میں آنے لگے ہیں جن میں مودی جی کو معاشی اصلاحات پر رائے دی جا رہی ہے اور یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ معاشی ترقی کو کس طرح پٹری پر لائی جائے۔یہ کوئی بُری بات نہیں ہے لیکن مودی جی کان دھریں تب نا!کیونکہ مشورے قبول کرنا اُن کیلئے مشکل کام ہے۔ملک کی معاشی بدحالی اب کوئی راز نہیں ،پھر بھی اُنگلی اٹھانے والوں کو یہ کہنا کہ وہ ’یاسیت‘ کے شکار ہیں اور اُنہیں خواب دیکھنانہیں آتا،یہ مودی جی کی ہٹ دھرمی ہے اور یہ بیان واضح کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک مشوروں کی کوئی وقعت نہیں۔اخبار میں لکھنے والے اُنہیں اپنا سمجھ کر کتنا ہی لکھتے رہیںاوراُنہیں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہیں لیکن حضرت کریں گے وہی جو اُنہیں کرنا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی حکومت اور ووٹ حاصل کرنے کا دارومدار کرپشن یعنی بدعنوانی سے پاک حکمرانی کے نام نہاد نعرے پر ہے۔اِس بدعنوانی کی تعریف اُن کی نظر میں کیا ہے؟آج تک انہوں نے واضح نہیں کیا ہے اور نہ ہی آئندہ امید ہے کہ وہ واضح کر سکیں گے۔یہ اور بات ہے کہ جملوں اور ہنسی مذاق میں اس کو اُڑا دیں لیکن عوام اتنے بھولے بھی نہیں ہیں جتنا اِن دونوں(دوسرے امیت بھائی شاہ) نے سمجھ رکھا ہے۔جے شاہ جو امیت شاہ کے بیٹے ہیں اُن کی کمپنی کے تعلق سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ کس طرح اُن کی کمپنی جو۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں نقصان بتا رہی تھی اور کمپنی کی مالیت ۵۰؍ہزار روپے تھی،اچانک آئندہ ۲؍سال میں کمپنی کا ٹرن اوور ۸۰؍کروڑ ہو جاتا ہے۔ کمپنی کے فائدے اور نقصان کا تو ابھی تک علم نہیں ہو سکا ہے لیکن اس بات کا پتہ ضرور چلا ہے کہ کمپنی ،اکتوبر ۲۰۱۶ء میں بند کر دی گئی۔ یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ نوٹ بندی سے ایک ماہ پہلے ۔اب ماہرِ معاشیات ہی کمپنی کی بندی اور نوٹ بندی میں تعلق کوطشت از بام کر سکیں گے چونکہ جتنے کاغذات ابھی ہاتھ لگے ہیں اُسی کی بنیاد پر چند حقائق منظر عام پر آئے۔اس کے بعد حکومت کے وزراء کے ذریعے اتنا شور و غل مچایا گیا اور بغیر کسی جانچ کے سب نے جے شاہ کو ایک طرح سے کلین چِٹ دے دی جن میں پیوش گوئل،جیٹلی،راجناتھ سنگھ،روی شنکر پرسادآگے آگے تھے۔مودی نے اب تک تو منہ نہیں کھولا ہے لیکن امیت شاہ کا یہ بیان ضرور آیا کہ ’اِس میں کوئی بدعنوانی جیسی کوئی بات نہیں ہے اور سارا لین دین چیک سے ہوا ہے‘۔اگرچہ آر ایس ایس نے اپنے بھوپال کی چِنتن بیٹھک میں یہ ضرور کہا ہے کہ اگر کچھ حقائق ہیں تو جانچ کی جانی چاہئے لیکن یہ بیان بھی کتنا مضحکہ خیز ہے کیونکہ حقائق کا پتہ تو جانچ کے بعد ہی چلے گا!سب سے خاص بات یہ ہے کہ اِس خبر کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی جے شاہ کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا کہ ’’دی وائر‘‘ کے خلاف ۱۰۰؍کروڑ روپے کے ہرجانہ اور ہتک عزت کا دعویٰ عدالت میں کیا جائے گا اور جے شاہ نے رام جیٹھ ملانی کے ہاتھ عدالت میں ایک عرضداشت بھی دے دی۔ یہ اور بات ہے کہ سماعت کے دن جے شاہ اور ان کے وکیل(میٹروپولیٹن) عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔ اس مقدمے میں بظاہر ہتک جیسا کوئی معاملہ نظر نہیں آرہا ہے لیکن جے شاہ اسے اپنے خلاف غلط اور گمراہ کن قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ ’’دی وائر ڈاٹ اِن‘ ‘ایک نیوز پورٹل ہے اور اسی نے پہلی بار یہ شائع کیا کہ مرکز میں مودی حکومت بننے اور ان کے والد امیت شاہ کے بی جے پی کے صدر بننے کے بعدسال بھر میں ان کے کاروبار میں ۱۶؍ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔یہ دھمکی آزادانہ خیال رکھنے والے صحافیوں اور نیوز چینلوں نیزپورٹلوں کو اس لئے دی جارہی ہے کہ وہ اپنے منہ کو بند رکھیں۔اس سنسنی خیز خبر کو این ڈی ٹی وی کے علاوہ کسی دوسرے چینل نے وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ متقاضی ہے۔
ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں قومی برقی میڈیا کا کیا وقار ہے،یہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گیا ہے۔ہندوستانی نجی برقی میڈیا اپنے آغازکے بعد سب سے نچلی سطح پر ہے۔وہ اِن معنوں میں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی حکومت سے سوال کرنے کے بجائے آج تک وہ حزبِ اختلاف کی پارٹیوں سے ہی سوال کر رہا ہے۔اس کے اینکروں کے جملوں کی ادائیگی سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ مودی حکومت کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور چند ایک چینلوں کو چھوڑ کرخود فریق بنے ہوئے ہیں ۔اسی لئے آج انٹرنیٹ کی دنیا سے فائدہ اُٹھا کر کچھ جیالوں نے اپنا نیوز پورٹل شروع کیا ہے۔انہیں میں ایک ’’دی وائر ڈاٹ اِن ‘‘ ہے جس کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن ہیں اور ان کے( بانی ) ساتھیوں میںایم کے وینو اور سدھارتھ بھاٹیہ ہیں۔یہ تمام صحافی اپنی بیباکی اور انصاف پسندی نیز سیکولر فکر کیلئے جانے جاتے ہیں۔انگریزی کے علاوہ ’’دی وائر‘‘ کا ہندی اور اردو پورٹل بھی ہے۔اس کے علاوہ ونود دوا ویڈیو کے ذریعے بھی اس کے نشریات پیش کرتے ہیں جو جن گن من کے نام سے یو ٹیوب پر اپلوڈ کیا جاتا ہے جو شیئر ہو کر اچھی خاصی تعداد میں لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔اس نیوز پورٹل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی نفع یا نقصان کے چلتا ہے بلکہ عوام کے عطیہ پر قائم ہے۔اسی لئے سدھارتھ وردا راجن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ’’دی وائر‘‘ کی وہ مالی مدد کریں تاکہ ہتک عزت کا مقدمہ لڑ سکیں کیونکہ ۱۰۰؍کروڑ روپے کے ہرجانے کا مطلب مقدمے کو ہائی پروفائل بنا دینا ہے جس میں بڑے وکیلوں کی ضرورت پیش آئے گی۔
بھلا بتائیے کہ ایک انصاف پسند صحافی کے پاس کیا ہوتا ہے؟ اس کے پاس اُتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ لیکن مودی کے دست راست امیت شاہ روپیوں سے بھی دھمکانا چاہتے ہیں تاکہ مقدمہ آگے نہ بڑھ سکے اور مد مقابل معافی مانگ لے۔۱۰۰؍کروڑ روپوںکا دعویٰ کرنے کے لئے اچھی خاصی کورٹ فیس بھی دینا پڑے گی جو لاکھوں میں ہوگی اور ظاہر ہے کہ امیت شاہ اور ان کے بیٹے کے پاس اس کی کمی نہیں ہے۔یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ جے شاہ کی سماج میں کیا حیثیت ہے سوائے اس کے کہ وہ امیت شاہ کے بیٹے ہیں ۔بیٹا اوربھائی بھتیجا واد یہاں بھی آ ہی گیا، اب مودی جی کیا کہیں گے اور کیا کریں گے وراثتی نظام کو؟صرف یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ کوئی بد عنوانی نہیں ہوئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ اس مقدمے کو لڑنے کے لئے ملک کے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی خدمات لی جا رہی ہیں اور حکومت نے انہیں اجازت بھی دے دی ہے جب کہ ایسا ہونا نہیں چاہئے۔جے شاہ ملک کے لئے کوئی اہمیت کے حامل شخص نہیں ہیں ،امیت شاہ اور مودی کے لئے بھلے ہی ہو سکتے ہیں۔مودی اور امیت شاہ کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہی ہندوستان نہیں ہیںاور ان دونوں کا تماشہ پورا ہندوستان دیکھ رہا ہے ۔اس سے پہلے بھی للت مودی کے کیس میں وسندھرا راجے سندھیا اور ان کے بیٹے دُشیَنت سنگھ پر اسی طرح کے الزامات عائد ہوئے تھے کہ کس طرح للت مودی نے اپنے ۲۱؍کروڑ روپے دُشیَنت کی کمپنی کو ٹرانسفر کئے تھے اور ۹۶؍ہزار روپے فی شیئر کے اونچی پریمیئم پر وسندھرا کو ہزاروں شیئر اُن کی سالگرہ کے موقع پرتحفے میں اُن کے بیٹے اور بہو نے ٹراسفر کئے تھے جس کی مالیت کروڑوں روپے ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سشماسوراج نے للت مودی کی مدد کی تھی اور پوچھے جانے پر یہ کہا تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہوں نے اُن دستاویزات پر دستخط کئے تھے تاکہ وہ اپنی بیوی کو کینسر کے علاج کے سلسلے میں پرتگال لے جا سکیں۔پتہ نہیں اُن مقدمات کا کیا بنا لیکن للت مودی آج بھی شان و شوکت کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہیں ۔کیا للت مودی ،مودی حکومت کی نظر میں مجرم نہیں ہیں؟اسی طرح وجے مالیا کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر’ بی جے پی‘ کے نام مالیا کے ذریعے دیا گیا ایک ۳۵؍کروڑ روپے کا چیک گردش کر رہا ہے جو پارٹی فنڈ کے نام پر ہو سکتا ہے۔ممکن ہے کہ یہ رقم زیادہ بھی ہو جو وجے مالیا کو ہندوستان سے باہر بھیجنے کے لئے رشوت کے طور پر دی گئی ہو۔بی جے پی کو اب ہوشیارر رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سوشل میڈیا اب خاصا فعال ہے۔نیوز چینلوں سے زیادہ اس کا اثر بڑھ گیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ جس چیز کا استعمال کر کے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے وہی اس کی تنزل کا سبب بھی بننے والی ہے۔ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اب نتیش کمار کا کیا ہوگا، جس بدعنوانی کو لے کر وہ لالو یادو سے الگ ہوئے تھے،کیا اسی کو مانتے اور جانتے ہوئے بی جے پی سے الگ ہو سکیں گے یا وہ بھی جواز فراہم کرنے میں جُٹ جائیں گے؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883